اخلاص کے لغوی معنی خالص کرناہیں۔ قرآن میں جہاں اس مادہ (روٹ ورڈ) سے دوسرے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، وہیں دو الفاظ ’’مخلص اور مخلصین‘‘ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ سورہ یوسف آیت:۱۲میں فرمایا گیا : انہ من عبادنا المخلصین (بے شک وہ ہمارے ایسے بندوں میں ہے جن کو ہم نے اپنے لیے خالص کرلیا) اسی طرح سورۃ لقمان کی آیت ۲۱ میں ایسے کفار و مشرکین کے بارے میں فرمایا گیا جو سمندر میں کشتی سے سفر کررہے ہوں اور پھر طوفان میں گھر جائیں اور ہر طرف سے موجیں انہیں گھیر لیں تو پھر وہ کیا کرتے ہیں:
دعوا اللّٰہ مخلصین لہ الدین۔
’’وہ سب کچھ چھوڑ کر صرف اور صرف اللہ کو پکارتے ہیں۔‘‘
اخلاص کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ فرمایاہے کہ اسے صرف ایسے اعمال اور بندے پسند ہیں جو صرف اور صرف اللہ کے لیے تمام عبادات اور اعمال انجام دیتے ہوں۔ چناںچہ رسول اللہ ﷺ نے مومنین کے اندر اخلاص کی صفت کو بھر پور انداز میں پیدا کرنے کی تاکید کی ہے:
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اعمال کا دار ومدار نیت پر ہے۔ اور آدمی کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی تو جس نے اللہ و رسول ؐ کے لیے ہجرت کی ہوگی اس کی ہجرت واقعی ہجرت ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہوگی تو اس کی ہجرت دنیا کے لیے یا عورت کے لیے شمار ہوگی۔‘‘ (بخاری)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تمہاری شکل و صورت اور تمہارے مال کو نہیں دیکھے گا بلکہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔‘‘
اس کا صاف اور واضح مطلب یہی ہے کہ اللہ کے نزدیک وہی عمل قابلِ قبول ہوگا جو خالص طور پر اللہ کی خوشنودی کے لیے کیا جائے۔ خواہ وہ ہجرت اور جہاد ہو یا راہ چلتے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹادینے کا معمولی عمل۔ اس کے برخلاف ریا اور دکھاوے کو شرک سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور یہ بات اللہ کی نظر میں اس قدر ناپسند ہے کہ نماز، روزے سے لے کر جہاد تک اس کے سبب باطل اور اللہ کی نظر میں بے وقعت تصور ہوتا ہے۔ حضورﷺ نے واضح فرمایا کہ ’’جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا اور جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیا۔‘‘ اس کی مزید وضاحت اللہ کے رسول ﷺ نے ایک طویل حدیث میں یوں فرمائی:
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ایک عالم کو لایا جائے گا جس نے علم حاصل کیا، سیکھا اور قرآن کو پڑھا پس اس کو لایا جائے گا اور اللہ اس کو اپنی نعمتیں یاد دلائے گا۔ وہ ان کو یاد کرے گا پھر اللہ اس سے پوچھے گا تو نے ان نعمتوں کا شکر کیسے ادا کیا وہ کہے گا میں نے علم کو سیکھا، دوسروں کو سکھایا اور تیرے لیے قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ کہے گا تو جھوٹا ہے۔ تو نے تو علم اس لیے سیکھا تھا کہ لوگ تجھ کو عالم کہیں اور قرآن اس لیے پڑھا کہ لوگ تجھ کو قاری کہیں۔ چنانچہ تجھ کو عالم اور قاری کہا گیا۔ پھر حکم ہوگا، اس کو منہ کے بل کھینچا جائے گا اور آگ میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘ (مشکوٰۃ)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ بے نیاز ہے جب بندہ اپنے نیک اعمال میں اس کے علاوہ کسی اور کو شریک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے شریک ہی کو پورا کا پورا دے دیتا ہے اور اس عمل سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے کہ
’’تھوڑی سی ریا میں بھی شرک ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ)
اور دوسری حدیث میں آتا ہے:
ابی سعید کہتے ہیں کہ ہم مسیح دجال کا ذکر کررہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے اور فرمایا خبردار کیا تم کو میں ایک اور بات نہ بتلاؤں، جو میرے نزدیک تمہارے لیے مسیح دجال سے زیادہ خطرناک ہے۔ ہم نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ! آپﷺ نے فرمایا(وہ خطرناک چیز) ’’شرکِ خفی ہے۔‘‘ آدمی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور نماز پڑھتا ہے اور زیادتی کرتا ہے نماز میں محض اس لیے کہ کوئی شخص اس کو نماز پڑھتے دیکھ رہا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
شرک خفی کو نبی کریم ﷺ نے دجال سے بھی زیادہ خطرناک کہا ہے۔ وہ اس لیے کہ آدمی تو اللہ کی خوشنودی کی خاطر ہی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے مگر کسی کی موجودگی پاکر اس کے دل میں تھوڑی سی ریا پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ دکھاوے میں آکر اپنے تمام نیک اعمال کو برباد کردیتا ہے۔ شرک صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی کسی کے سامنے سجدہ کرے یا کسی کو پوجے یا نذریں مانیں یا کسی سے دعائیں مانگے بلکہ کسی کو دکھانے کے لیے نیک عمل کیا گیا ہو تو وہ بھی شرک ہے۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نیک عمل کے قبول ہونے کے لیے شرط رکھی ہے کہ وہ صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے ہو اور نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر ہو۔
فمن کان یرجوا لقاء ربہ فلیعمل عملاً صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا۔
(کہف: ۱۱۰)
’’جو شخص اپنے رب سے ملنے کا یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے۔ اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔‘‘
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں یہ آیت دلیل ہے کہ اللہ کے نزدیک عمل کے مقبول ہونے کی دو شرطیں ہیں: ایک تو یہ کہ وہ شریعت محمدیہ کے مطابق ہو، اور دوسری یہ کہ اس کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی ہو۔ شہرت، نام و نمود، ریا کاری یا کوئی اور دنیاوی غرض مقصود نہ ہو۔
حدیث میں آتا ہے کہ شرک خفی کا اللہ تعالیٰ کے پاس کیا انعام ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جہنم میں ایک وادی ہے، جس سے خود جہنم بھی روزانہ چار سو بار پناہ مانگتی ہے۔ یہ وادی محمد ﷺ کی امت کے ریا کاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
اگر نیک عمل صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے کیا گیا ہو تو اللہ کے پاس اس کا کیا انعام ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپؐ جس وقت مجھے یمن کے علاقہ میں بھیج رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ مجھے کچھ نصیحت فرمائے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اپنی نیت کو ہر کھوٹ سے پاک رکھو جو عمل کرو، صرف خدا کی خوشنودی کے لیے کرو تو تھوڑا عمل بھی تمہاری نجات کے لیے کافی ہوگا۔‘‘ (الحاکم )
کسی نے کہا ہے کہ بہت سے چھوٹے اعمال کو نیت بڑا کردیتی ہے اور بہت سے بڑے اعمال کو نیت چھوٹا بنادیتی ہے۔