ماں کا وجود انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت بھی ہے اور اس کی عظمت و ربوبیت کی نشانی بھی۔ اس کا اندازہ بچے کی پیدائش، اس کی دیکھ ریکھ اور اس کے پروان چڑھانے میں ماں کے کردار اور محنت و مشقت کو دیکھ کر ہر انسان بہ آسانی لگاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ماں کو احترام کے سب سے بلند مرتبے پر رکھا ہے۔ جنابِ رسول ﷺ نے ماں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
الجنۃ تحت اقدام الأمہات۔
’’جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔‘‘
جنت جو انسان کی منزلِ مقصود اور دونوں جہانوں کی کامیابی کی علامت و مظہرہے۔ براہِ راست ماں کے قدموں تلے بتائی گئی۔
ماں کی شخصیت بنی نوع انسان کے لیے صرف اس لیے اہمیت کی حامل نہیں کہ وہ بچہ کو جنم دیتی ہے، بلکہ اس لیے بھی ہے کہ ماں کی ذات ایک درس گاہ ہے۔ اپنے بچہ کی تربیت جس طرح ایک ماں کرسکتی ہے، وہ کوئی تربیت گاہ یا یونیورسٹی نہیں کرسکتی۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ماں کے اندر ممتا اور محبت و ایثار کی جوصفات رکھی ہیں، اس کا مقابلہ کسی دوسری ذات سے نہیں کیا جاسکتا۔ یہ وہ صفت ہے جس کے ذریعہ ماں اپنی اولاد پر محبت لٹاتی ہے اور یہ محبت بے غرض اور بے لوث ہوتی ہے۔ ماں کی محبت اور اس کے خلوص کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ بچہ ڈانٹ کھاکر یا تھپڑ کھاکر پھر ماں کی آغوش میںہی پنا ہ لیتا ہے۔ کیونکہ بچہ جانتا ہے کہ اس ڈانٹ ڈپٹ اور اس مار پیٹ کے باوجود بھی ماں ہی وہ ذات ہے جس کی آغوش میں پناہ مل سکتی ہے۔ ماں کی محبت کا وہ تاریخ ساز واقعہ کوئی کیسے بھول سکتا ہے، جب ایک ماں کی ممتا و محبت اور تڑپ پر اللہ عزوجل کی صفت رحیمی کو جوش آیا اور ایک بے آب و گیاہ صحرا میں اس نے زم زم کے کنویں کا انتظام فرمایا۔ ایسے کئی واقعات کا ہمیں تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے۔
ماں کی محبت کو اگر اندھی بھی کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ اپنی اولاد کے تئیں وہ اتنی حساس ہوتی ہے کہ اس پر پڑنے والی بہت سی مصیبتوں کو قبل از وقت یا غائبانہ طور پر بھی محسوس کرلیتی ہے۔ اولاد جب سفر میں ہوتی ہے تو ماں کا دل مسلسل دعاؤں میں لگا رہتا ہے۔ کہ بچہ ساتھ خیریت کے گھر لوٹ آئے۔ بچہ کو اگر نیند نہیں آرہی ہو تو ماں خود بھی ساری رات جاگ کر گزار دیتی ہے۔ بچہ ہنستا ہے تو وہ بھی بلا وجہ ہنس پڑتی ہے اور وہ روئے تو اس کو تسلی دلاسہ دینے میں ہلکان ہوجاتی ہے۔ اور کوئی اس کے بچہ کی تعریف کردے تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتی اور اس کے آگے بچھ بچھ جاتی ہے۔
جب ایک ماں اپنی اولاد کے لیے اتنا کچھ کرسکتی ہے تو کیا اولاد اپنی ماں کے لیے کچھ نہیں کرسکتی، چنانچہ شریعت مطہرہ نے اولاد کو اپنے والدین کے تئیں کچھ حقوق سونپے کہ:
٭ اولاد قول و فعل دونوں طرح سے والدین کی تعظیم کریں۔
٭ شرعی کاموں میں اپنے والدین کی اطاعت کریں یہاں تک کہ والدین کی خدمت کو نفلی عبادات پر ترجیح دی گئی ہے۔
٭ اگر والدین کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اولاد اس قرض کو ادا کرے۔
٭ والدین اگر غیر مسلم ہوں تب بھی ان کی خدمت کرے اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔
٭ والدین کے دوست احباب سے اپنے والدین کی طرح پیش آئے۔
٭ والدین کے انتقال کے بعد ان کے لیے دعائے مغفرت کرے اور استطاعت ہو تو ان کی جانب سے صدقہ و خیرات کرے۔
اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر و احسان ہے کہ اسلامی تعلیمات کی بدولت مسلمان کسی حد تک ان باتوں پر عمل پیرا ہیں۔ جبکہ مغربی تہذیب کی بدولت مغرب زدہ لوگ اس قدر اخلاقی بحران کا شکار ہوچکے ہیں کہ ان کے یہاں ماں کا تقدس و احترام اور اس کی صنفی پاکیزگی کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ اولاد جب اٹھارہ برس کی ہوجائے تو اس پر اپنے والدین کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ وہاں کا کلچر اس طرح کا ہے کہ pets پر اگر توجہ نہ دی جائے تو قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اگر ماں بوڑھی ہوجائے اور تنہائی کا شکار ہوکر اپنے حقوق کے لیے عدالت سے رجوع کرے تو اس کو old age home کا راستہ دکھادیا جاتا ہے۔
یہ مغربی تہذیب اور وہاں کے سماج کا معاملہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سماج میں بھی اب ماں باپ ایک ’بے کارچیز‘ بنتے جارہے ہیں۔ اور آئے دن ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں جن میں بوڑھے ماں باپ یا کسی ایک کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاکر اپنی زندگی کے لیے گزارا لینے کی درخواست دینی پڑتی ہے۔ یہ دراصل خود غرض سماج کا طرزِ عمل ہے۔ والدین خصوصاً ماں نے ہماری پرورش دیکھ بھال ایسے وقت میں کی جب ہم کسی لائق نہ تھے، اور اب بڑھاپے میں جب وہ کمزور اور ناتواں ہوگئے ہیں تو کیا انہیں اولڈ ایج ہوم میں پھینک دیا جائے یا در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا جائے؟ اگر ایسا ہے تو یہ انسان کی بدقسمتی ہے۔
ابھی بھی وقت ہے جن کے والدین زندہ ہیں وہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرکے آخرت میں اپنا ٹھکانہ بنائیں کیوں کہ جب ماں کا وجود ہماری زندگی سے چلا جائے گا تو ہمیں احساس ہوگا کہ کسی نعمت کی ہم نے ناقدری کی اور اس وقت ہمیںافسوس بھی ہوگا ۔