دعا انسانی زندگی کے لیے ایک ایسا نسخہ ہے، جس سے نہ صرف یہ کہ مطلوبہ شئے کا حصول ممکن ہوجاتا ہے بلکہ اس کو بجالانے سے اطمینانِ قلب بھی حاصل ہوتا ہے۔
انسان کو جب بھی رنج و غم سے سابقہ پیش آتا ہے، تو وہ اپنے مالکِ حقیقی کے سامنے دست بدعا ہوتا ہے اور اپنے سینوں میں مدفون تمناؤں کا اظہار کرتا ہے۔
دعا کا تصور ابتدائے آفرینش ہی سے رہا ہے۔ آدم علیہ السلام نے اپنی زندگی کا آغاز دعا ہی سے کیا تھا۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’دونوں(آدم و حوا) عرض کرنے لگے کہ پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہیں بخشا اور ہم پر رحم نہیں فرمایا تو ہم تباہ ہوجائیں گے۔‘‘
آدمؑ کے بعد جملہ انبیاء کرام نے دعا کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کی دعائیں قرآن پاک میں مذکور ہیں۔
دعا احادیث کی روشنی میں
٭ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: بارگاہِ الٰہی میں دعا سے زیادہ عظمت والی کوئی چیز نہیں۔ (ابن ماجہ)
٭ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: جو چیز نازل ہوئی اور نازل نہیں ہوئی، ان سب سے دعا نافع ہے۔ اے بندگانِ خدا دعا کرتے رہنے کو اپنے لیے لازم سمجھو۔ (ترمذی)
٭ ان ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے جس کے لیے دعا کا دروازہ کھولاگیا اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے گئے۔ اللہ سے جس چیز کی دعا مانگی جائے ان میں سب سے بہتر خیروعافیت کی دعا ہے۔‘‘ (ترمذی)
٭ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ سے دعا نہیں کرتا اللہ اس سے سخت ناراض ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
٭ حضرت سلمانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’تمہارا رب مالک حیا و کرم ہے، ہو نہیں سکتا کہ بندہ اس کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھائے اور وہ انہیں خالی چھوڑ دے۔‘‘
٭ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’دعا عبادت کا مغز ہے۔‘‘
مذکورہ بالا احادیث سے دعا کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ دعا تقربِ الٰہی کا سب سے اہم وسیلہ ہے۔
آدابِ دعا
دعا کی ابتداء اللہ رب العزت کی توصیف و تحمید سے کرنی چاہیے۔ جیسا کہ انبیاء کرام کا طریقہ رہا ہے۔ بندہ مومن کو خدا کے حضور عاجزی اور نیاز مندی ظاہر کرتے ہوئے گڑگڑا کر دعا کرنی چاہیے۔
دعا کرتے وقت قبولیتِ دعا کا اعتقاد ہمارے دل میں موجزن ہونا چاہیے اور اس عقیدے کے ساتھ کہ ہم اس ہستی سے اپنی مرادیں مانگ رہے ہیں جو ہر چیز پر قادر ہے۔ بڑی سے بڑی چیز بھی اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے اور اس یقین کے ساتھ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ’’حکیم ہے اگر دعا کے باوجود مطلوبہ چیز حاصل نہ ہو تو اس میں بھی اس کی کوئی حکمت پوشیدہ ہے، جو ہماری نظروں سے اوجھل ہے اور اس پر رنجیدہ نہیں ہونا چاہیے۔
حضورﷺ نے یہ بھی واضح فرمادیا کہ دعا انسان کو ہر حال میں کرنی چاہیے اور اس کے براہِ راست قبول ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دعا کے ذریعہ بندہ اپنے لیے آسانیاں پیدا کرتا ، اپنے رب سے قریب ہوتا اور اپنے درجات بلند کرتا ہے۔ پیارے رسول ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا کہ دعا کو رائیگاں تصور نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے ذریعہ انسان کو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ یا تو بندے کی دعا جوں کی توں قبول کرلی جاتی ہے اور اسے وہ چیز مل جاتی ہے جو وہ مانگتا ہے یا پھر اس کی دعا کے سبب اس سے مستقبل میں آنے والی کوئی مصیبت ٹال دی جاتی ہے یا پھر اسے آخرت میں اجر کے لیے محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ آپ نے امت کے لوگوں کو آگاہ کیا اور بتایا کہ قیامت کے دن ایک شخص کو اس کا حساب کتاب کرکے جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ اس کے بعد اسے ایک بہت بڑی جنت دی جائے گی۔ جسے دیکھ کر وہ حیران ہوگا اور پوچھے گا کہ ربِ کائنات یہ کیا ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اسے آگاہ کریں گے کہ یہ تمہاری وہ دعائیں ہیں جو دنیا میں تو قبول نہیں ہوئیں لیکن یہاں تمہیں اس صورت میں دی جارہی ہیں۔ اس وقت بندہ کہے گا کہ کاش دنیا میں میری کوئی دعا قبول نہ کی جاتی تاکہ میں ان کا سب کچھ آخرت ہی میں حاصل کرلیتا۔
اللہ تعالیٰ کی صفت رحمن و رحیم کس قدر عظیم ہے۔ اور پھر اس نے اعلان کردیا ہے کہ ’’میں پکارنے والوں کی پکار سنتا ہوں۔‘‘ تو پھر ہم کیوں نہ اللہ تعالیٰ سے خوب خوب دعا مانگا کریں!
——