ہر علم کسی نہ کسی عمل کو آواز دے کر پکارتا ہے یا اس کا تقاضہ کرتا ہے، ہر راستہ کسی نہ کسی منزل کی طرف جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو سفر بے کار اور محنت سفر اکارت ہوجاتی ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا آدمی ہوگا جو سفر پر نکلے مگر اس کو یہ نہ معلوم ہو کہ جانا کہاں ہے؟ ہر آدمی گھر سے اسی وقت نکلتا ہے جب یہ طے کرلے کہ وہ کہاں جارہا ہے اور کیوں جارہا ہے؟ اگر ایسا نہ ہو تو ایک عقل مند انسان اور دیوانے اور پاگل میں کوئی فرق نہ رہے۔ عقل مند مقصد کی خاطر گھر سے نکلتا ہے جبکہ دیوانہ یوں ہی دن رات گلیوں اور راستوں میں گھومتا رہتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ عقل مند انسان کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے اس کا مقصد متعین کرتا ہے۔ بے مقصد زندگی ایک خواب ہے،جس کی کوئی تعبیر نہیں یا پھر ایک ایسا سفر ہے، جس کی کوئی منزل نہیں۔ عمل وہی ہے جس کے پیچھے مقصد واضح ہو، اسی طرح زندگی بھی وہی ہے جس کے ساتھ کوئی واضح مقصد ہو اور پھر اس کے لیے لگن اور تڑپ بھی ہو۔ مقصد کی یہی لگن انسان کو ہمیشہ سرگرم عمل رکھتی ہے۔
ہر شخص مقصد حیات رکھتا ہے کوئی نوکری حاصل کرکے تنخواہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو کوئی تاجر بن کر مال ، کوئی معلم بن کر خدمتِ خلق کرنا چاہتا ہے تو کوئی انجینئر بن کر ایجاد کی دنیا میں شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے اور کوئی ڈاکٹر بن کر مسیحائی حاصل کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔
مختلف قسم کی سوچ اور افکار مختلف طرح کے مقاصدکو جنم دیتے ہیں۔ اور یوں انسان ان مقاصد کو حاصل کرکے ترقی و کامیابی کی راہ پر رواں دواں ہوجاتا ہے۔
زندگی عظیم اور بہت قیمتی ہے۔ یہ انسان کو صرف ایک بار حاصل ہوتی ہے اور یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کتنی۔ طویل ہے مختصر زندگی میں کامیابی کا راز اس مدت حیات کے بہترین استعمال او رکامیابیوں کے زینے طے کرنے میں ہے۔
مگر قابل غور بات یہ ہے کہ موت وحیات کے بہترین استعمال کا مطلب کیا ہے اور کامیابی کسے کہتے ہیں۔ عزت، دولت اور شہرت و اقتدار کا حصول ہی اگر کامیابی ہے تو بہت سے لوگوںنے یہ کامیابی حاصل کی اور تاریخ میںکسی کا نام فاتح کی حیثیت سے کسی کا ظالم کی حیثیت سے اور کسی کا ایسے مفکر کی حیثیت سے درج ہوا جسے آج بھی دنیا سخت تنقید کانشانہ بناتی ہے۔ کچھ لوگ دولت کی دوڑ میں آگے نکلے اور قارون بن بیٹھے مگر تاریخ انہیں ایک سنگ دل اور غریبو ںکا استحصال کرنے والے انسان کی حیثیت سے جانتی ہے۔
ایسے تمام لوگوں کا مسئلہ یہ تھا اور ہے کہ وہ زندگی کا ایک نہایت معمولی اور کم تر درجہ کا مقصد اپنے سامنے رکھتے تھے۔ اگر وہ اپنے خالق کی خوشنودی اور محبت کو اپنا مقصد بناتے تو ان کا طرز فکر جدا اور مقصد حیات مختلف ہوتا۔ وہ تمام انسانوں کی بھلائی کے بارے میں سوچتے اور اسے مسائل سے دوچار کرنے کے بجائے امن و آشتی اور سکون و چین فراہم کرتے مگر ایسے لوگ تاریخ میں کم ہی نظر آتے ہیں۔
جو لوگ اپنی ذات، اپنے علم اور اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ انسانیت کی بھلائی کرنا چاہتے ہیں اور اپنے خدا کی خوشنودی کے طالب ہوتے ہیں وہ عظیم اور بلند مقصد والے لوگ ہیں اور ہمیں بھی اپنی زندگی کا مقصد اتنا ہی عظیم بنانا چاہیے۔