حرص کے دائرے

نجیب محفوظ عربی سے ترجمہ: پروفیسر اجتبیٰ ندوی مرحوم

…آخر کار حامد سید نے شادی کرنے کافیصلہ کرلیا۔ وہ ایک سنجیدہ محنتی ٹیکس انسپکٹر تھا، عمر ۳۵؍سال تھی۔ اس کی ایک اکلوتی بہن تھی، جو شادی شدہ تھی۔ اس کی ماں کی ایک مختصر سی جائیداد تھی جو وقتِ ضرورت کام آسکتی تھی… پرسکون اور خوشگوار زندگی ہی اس کی آخری خواہش تھی۔اس کے لیے وہ سب سے پہلے کسی فرم یا کمپنی میں کوئی باوقار ، اہم اور بڑا عہدہ حاصل کرلینا چاہتا تھا کیوںکہ سرکار کی جانب سے اسے اس طرح کا کوئی منصب جلد حاصل نہیں ہوسکتا تھا، اس کی یہ خواہش اس کے گھرانے اور دوستوں سے پوشیدہ نہ تھی۔ اس بارے میں اس نے ان لوگوں سے رہنمائی اور تعاون کی خواہش بھی کی تھی۔

ایک روز اس کے ایک دیرینہ رفیق نے نیو مصر کلب چلنے کے لیے کہا۔ وہ عمدہ اور خوش نما لباس زیب تن کرکے ساتھ ہولیا۔ یوں بھی وہ خوبصورت اور پرکشش، کسی قدر طویل قد وقامت کا نوجوان تھا۔ اس کی آنکھوں میں سحر انگیز چمک تھی، مونچھیں سیاہ گھنی چوکور اور بھری بھری تھیں، مردانگی اس کے جسم، رگ و پے اور چہرہ سے صاف عیاں تھی۔ اس کے ساتھی نے کلب کے ایک گوشہ کی جانب اشارہ کیا۔ اس نے ایک بیس سالہ لڑکی کو ایک درمیانی عمر کے مرد اور اسی کی ہم سن عورت کے درمیان بیٹھا ہوا دیکھا۔ وہ ترقی یافتہ ایک ماڈل گرل ہی کی طرح خوبصورت تھی۔ پہلی ہی نگاہ میں وہ خوبصورت اور دلآویز لگی۔ اس کے ساتھی نے اُن لوگوں سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھے ہوئے اس سے کہا:

یہ ایک غریب اور یتیم لڑکی ہے، یہ شخص اس کا ماموں ہے، اور اس نے اسے اپنی منہ بولی بیٹی بنالیاہے۔ یہ ایک فرم کا ڈائریکٹر ہے اور لڑکی ایک اطالوی اسکول کی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، ا سکا قد وقامت، سج دھج جیسا کہ دیکھ رہے ہو دلکش اور دلآویز ہے۔ حامد نے اس کو پسند تو کرلیا مگر بطور احتیاط سوال کیا: ’’کیا بھانجی، بیٹی کا درجہ لے سکتی ہے؟‘‘

’’میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ سمیحہ کے ساتھ یہ بالکل ویسا ہی برتاؤ کرتا ہے جیسے کہ وہ اس کی اپنی بیٹی ہو، اور اس کی آئندہ زندگی کے لیے پورے طور سے فکر مند اور اس کا مستقبل سنوارنے کی پوری تیاری کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ڈائریکٹر کی بھانجی… کوئی بھی ڈائریکٹر ہو… کے واسطے سے وہ سب کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے جو تم اس کی بیٹی کے ذریعہ پانا چاہتے ہو، البتہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے تمہیں تھوڑی انکساری برتنی ہوگی…

اس گفتگو اور نشست کے بعد اس لڑکی نے اس کے دل میں جگہ بنالی۔ وہ حیرت انگیز جلد بازی اور تیزی سے بیک وقت ازدواجی زندگی اور اپنی شاندار و قابل رشک حیثیت و منصب کے بارے میں محل تعمیر کرنے لگا اور تحقیق و جستجو میں لگ گیا۔ اگرچہ اس کی بہن نے کہا:’’تحقیق و معلومات حاصل کرلو اور جلد بازی سے کام نہ لو۔ ‘‘

اس نے بڑے یقین و اعتماد سے جواب دیا: ’’دلآویز اور مناسب لڑکی ہے، اور اس کا ماموں… آپ کی کیا رائے ہے؟ ہم تو اس گھرانے سے اپنا رشتہ کررہے ہیں، اس لڑکی سے شادی تھوڑی ہی کررہے ہیں، میں بالکل مطمئن ہوں۔‘‘

اس نے ڈائریکٹر ابراہیم منہوری سے ملاقات کی، اور اس کی منظوری حاصل کرلی، اور تمام کارروائی معمول کے مطابق شروع ہوگئی۔ ماں نے پرانا مکان فروخت کردیا تاکہ اس رقم سے شادی کے اخراجات پورے کیے جاسکیں۔ اس کے بعد بڑی خوش اسلوبی سے شادی کے مراسم ادا کردیے گئے۔

قدرتی طور سے اس نے اپنی آرزوؤں اور مطالبوں کے اظہار میں کسی جلد بازی سے کام نہیں لیا، تاکہ کوئی بدگمانی سر نہ اٹھائے اور سعادت و خوش بختی سے بھر پور لطف اٹھا سکے۔ سمیحہ واقعی پرکشش، پرلطف، دلچسپ، ترقی یافتہ (Modern) اور خوب رو دلہن ثابت ہوئی۔ ہاں! اسے پہلے دن اس کا اندازہ ہوگیا کہ اسے ایک ٹرینڈزیرک ملازمہ کی ضرورت ہے جو گھر اور خاص طور سے باورچی خانہ کا کام سنبھال لے۔ اس کی بیوی کو خاتونِ خانہ کے فرائض سے کوئی دلچسپی نہیں ہے مگر اسے اس انکشاف سے کچھ زیادہ پریشانی اور الجھن کا احساس نہیں ہوا، اس نے تو وقت آنے پر اس کے مطالبوں کے لیے مزید تقویت اور جواز مہیا کردیا ہے، اس نے اپنی ناراض اور بے زار بہن سے کہا: ’’ہمیں دینے سے لینے کا موقع زیادہ ملے گا۔‘‘

زندگی کا بے حد نئے اور انوکھے انداز سے آغاز ہوا، دلہن انگریزی اور جرمن اخبارات پڑھنے کی شوقین اور فلم دیکھنے کی رسیا تھی۔ وہ اپنے گھر پر مسلسل اوربلاناغہ آنے والے اپنے رشتہ داروں اور سہیلیوں کا استقبال بڑے پرتپاک اور پرجوش طور سے آراستہ و پیراستہ ہوکر کرتی تھی۔ اسے اس بارے میں نہ تو تھکن محسوس ہوتی اور نہ اکتاہٹ اور الجھن۔ حامد کو یہ یقین ہوگیا کہ جلد ہی اس کے دیوالیہ ہونے کااعلان کردیاجائے گا، نیز اس کی ماں کی جانب سے عطا کردہ پس انداز رقم جلد ہی تکلیف دہ طور سے ختم ہوجائے گی۔ اس کی ماہانہ تنخواہ اس شاہانہ فراخ دلی و عیش پرستی کے ماحول میں نصف ماہ کے لیے بھی کافی نہیں ہوگی۔ اسے بلا تاخیر ان حالات پر قابو پانا ضروری ہے۔ اس نے بڑے سلیقے و انکسار کے ساتھ سمیحہ سے اس سلسلے میں تبادلۂ خیال کیا اور یہ کہتے ہوئے اپنی بات ہلکے اور دلچسپ قہقہہ پر ختم کی پیاری دلہن! اس پریشانی کا حل صرف تمہارے ماموں کے ہاتھ میںہے۔

سردست فرم نے اس کی خدمات مستعار لے لیں، اس ارادے سے کہ اسی فرم میں تبادلہ کرالیا جائے گا۔ اب اس کی تنخواہ میں خاصا اضافہ ہوگیا اس نے اس کو روشن اور شاندار مستقبل کی جانب ایک کامیاب پیش قدمی قرار دیا۔ اس کے اس اقدام نے کسی حد تک سمیحہ کے عجیب و غریب مزاج کو برداشت کرنے کے لیے توانائی پیدا کردی۔ روز بروز اس کی کسی انوکھی اور حیرت انگیز عادت و مزاج کا انکشاف ہونے لگا۔ اس کا ایک مظہر یہ تھا کہ وہ نئے نئے کپڑے پہن کر آئینے کے سامنے اپنا سراپا دیکھنے کے لیے بے قرار نظر آتی تھی، ایک بار اس نے ہنستے ہوئے سوال کیا:’’فینسی شوہر ڈارلنگ۔‘‘

ایک عجیب عادت یہ تھی کہ حالات، حاضرین اور اپوزیشن کا لحاظ و پاس کیے بغیر وہ اپنی مسرت کے اظہار کے لیے فلک شگاف قہقہہ لگا تی تھی۔ خواہ وہ سنیما ہال میں بیٹھی ہو یا عمر خیام چائے خانہ میں ہو۔ اس کی وجہ سے اسے اکثرسخت شرمندگی اور الجھن میں مبتلا ہونا پڑا۔اس سے زیادہ تکلیف دہ واقعہ اس روز پیش آیا جب وہ دن کے کھانے کے وقت لوٹا، اسے ایک کتاب کے مطالعہ میں اس قدر ڈوبا ہوا پایا کہ اس کی آمد کا اسے احساس بھی نہ ہوا۔ اس نے حسبِ معمول اس سے اظہارِ محبت کیا اور کتاب لے کر دیکھی تو وہ ’’غیر معیاری‘‘ کتاب تھی۔ حیرت زدہ ہوکر اس کے مضامین کے چند عنوانوں پر اچٹتی نظر ڈالی تو بہت غمزدہ ہوا۔ اسی عالم میں اس سے دریافت کیا:

’’تمہیں یہ کتاب کیسے ملی؟‘‘

اس نے بڑی سادگی اور لاپروائی سے جواب دیا:

’’ایک اخبار میں اس کا اشتہار دیکھا تھا۔‘‘

اس نے انتہائی تکدر ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

’’لیکن میرے خیال میں یہ قطعی نامناسب کتاب ہے۔‘‘

’’اوہ کیوں؟ کیا ازدواجی زندگی ناپسندیدہ امر ہے؟‘‘

اس نے تلخی سے جواب دیا۔

’’یہ ایک سستی سودا گری ہے، میں پھر کہتا ہوں کہ یہ نامناسب کتاب ہے۔‘‘

اس نے غصے سے چیختے ہوئے کہا۔

’’میں ایک شادی شدہ خاتون ہوں، مجھے حق ہے کہ میں جو چاہوں پڑھوں، بطور خاص ان چیزوں کو جس کا تعلق میری ازدواجی زندگی سے ہو۔‘‘

اس کے دل میں خیال آیا کہ سمیحہ نے اپنی غلطی کے باوجود اس شدت سے غصہ کا اظہار کیوں کیا۔ ان سب کے باوجود زندگی حیرت ناک طور پر پرسکون گزرتی رہی۔

ایک دن فون کرکے اس کی ہمشیرہ نے اسے اپنے گھر بلایا اور اس سے کہا: ’’میں نے حالات کو سازگار بنانے کے لیے بہت غور کیا، میرے شوہر کی رائے یہ تھی کہ میں کچھ نہ بولوں، لیکن بالآخر میں نے تم کو ہر بات صاف صاف بتادینے کا عزم کرلیا ہے۔‘‘

اس نے بہن کی جانب تجسس آمیز نگاہ ڈالتے ہوئے دریافت کیا، اس نے کہا:

’’کسی پریشانی کی بات نہیں ہے، اس بات کا تعلق ماضی سے ہے، لیکن تمہیں اس وجہ سے معلوم ہونا چاہیے کہ وقتِ ضرورت کام آئے۔‘‘ اس نے تکلیف محسوس کرتے ہوئے گفتگو جاری رکھنے کے لیے التجا کی، بہن نے بتایا:

’’سمیحہ… ایک مخصوص شفاخانہ میں کچھ عرصہ داخل رہ چکی ہے۔‘‘

خوف سے چیختے ہوئے وہ بولا:’’مخصوص شفا خانہ … آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟‘‘

اس نے بغیر بولے ہوئے اپنے سر کی جانب اشارہ کیا۔ اس نے بلند آواز سے کہا: ’’نہیں … نہیں… ایسا نہیں ہوسکتا۔

ہمشیرہ نے نرمی اور رحم دلی سے کہا:

’’وہ اب اچھے حال میں ہے، کسی فکر کی بات نہیں مگر تم اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور احتیاط سے رہو۔ میں صرف اتنا چاہتی ہوں…‘‘

’’آپ کو یہ سب کیسے معلوم ہوا؟‘‘

’’بس اچانک … میرے شوہر کا دوست ڈاکٹر…‘‘

تو مجھے اسی وقت اس سے ملنا چاہیے۔ بہن نے اسے سمجھایا کہ اس ملاقات سے ڈاکٹراور اس کے شوہر دونوں کو الجھن ہوگی۔ اور اس سے کچھ حاصل بھی نہ ہوگا۔ اس نے اس پر سوالوں کی بوچھار کردی۔ بہن نے اسے نرم اور اطمینان بخش جواب دیے۔ ان سب کے باوجود اس کی کیفیت ایک بیمار جیسی ہوگئی۔ وہ اپنی ہمشیرہ کے گھر سے پریشان حال اور پراگندہ خاطر واپس ہوا۔ ذہن کے آئینہ میں روز مرہ حالات و واقعات کا عکس یکے بعد دیگرے ابھرتا رہا، خوش باشی و عیش پرستی کا انوکھا اور دہشت انگیز منظر، فلک شگاف قہقہے، اور غیر معیاری لٹریچر وہ اس تصور سے کراہ اٹھا تاہم اس نے اپنے آپ کو سمجھاتے ہوئے کہا: ’’صرف وہم اور تخیلات‘‘ ہیں، یہ گزرے ہوئے زمانہ کی کہانی ہے، جو ہرگزواپس نہ ہوگی، کوئی بھی صاحبِ عقل ان افسوسناک جذباتی قہقہوں سے محفوظ نہیں ہے، مجھے ان سنی سنائی باتوں کو یکسر بھلا دینا چاہیے۔ گھر واپس ہوا تو اسے اسی کتاب کی آخری فصل پڑھتے ہوئے پایا۔ اس نے کتاب ایک طرف رکھ دی اور بولی:

’’میرے پاس تمہارے لیے ایک چونکا دینے والی خبر ہے۔‘‘ اس نے بڑے شوق سے اس کے رخسار پر محبت کی نشانی ثبت کی اور ہمہ تن گوش ہوکر سامنے دوزانو ہوکر بیٹھ گیا۔ اس نے کہا:

’’میں ڈرائیونگ کا کورس کرنے جارہی ہوں۔‘‘

اس نے دہشت زدہ ہوکر مگر نرمی سے کہا:

’’لیکن ہمارے پاس کار نہیں ہے، اور نہ جلد کوئی گاڑی حاصل کرنے کا امکان ہے۔‘‘

’’پھر بھی… آئندہ کے لیے تیاری رہنی چاہیے۔‘‘

اللہ، یہ جب کوئی تجویز پیش کرکے خاموش ہوتی ہے تو کتنی بھولی لگتی ہے…

پھر اس کے ساتھ کس انداز کا برتاؤ کیا جائے۔

جب دونوں کھانے کے لیے دسترخوان پر بیٹھے تو اس نے کہا:

’’میں بندوق چلانا بھی سیکھوں گی…‘‘

دفعتاً اس کا ہاتھ کھانے سے رک گیا اور گھبرا کر پوچھا:

’’بندوق … فائرنگ؟‘‘

’’ہاں، ہماری زندگی میں ایک نئی مسرت و شادمانی شامل ہوجائے گی۔ شکار…‘‘

’’پھر ہم اپنی سہیلی احسان اور اس کے شوہر ڈاکٹر نوری کے ہمراہ سیر و تفریح کے لیے نکلا کریں گے۔‘‘

وہ پریشان ہوکر تقریباً چیخ پڑا:

’’نہیں… نہیں… صرف بندوق اور فائرنگ!‘‘

اس نے زور دار قہقہہ بلند کیا اور کہا:

’’تم کچھ غیر متوازن لگتے ہو تمہیں یہ کتاب خوشگوار ازدواجی زندگی ضرور پڑھنی چاہیے۔‘‘

’’اس کا بندوق سے کیا واسطہ…‘‘

گم سم پھٹی ہوئی نگاہیں ڈالتی ہوئی وہ کھانا کھاتی رہی، چہرہ اور آنکھوں میں بے زاری عیاں تھی، اس کے بعد خود کلامی کے انداز میں بڑبڑائی:

’’تمہیں ہماری خوشی کا خیال ہی نہیں ہے، تمہیں تو مجھ سے عناد و اختلاف ہی ہے۔‘‘

کیا یہ بات پہلے اختلافی اظہار پر کہی جاتی ہے؟ جبکہ حامد ہی حق پر تھا… کیا اس کی بیماری انتہائی شدید نوعیت کی ہے۔ اگر اس پر یہ کیفیت اس وقت طاری ہوگئی جب وہ کار ڈرائیو کررہی ہو یا بندوق داغ رہی ہو تو کیا انجام ہوگا؟

اس نے بڑے درد سے جی میں کہا:

مجھے اس تلخ و مضطرب زندگی کے ٹوٹنے سے قبل ہی جتنی جلد ممکن ہو فرم سے علاحدگی اختیار کرلینی چاہیے۔ وہ اس وقت تک سو نہ سکا جب تک اس نے یقین نہ کرلیا کہ سمیحہ گہری نیند سوچکی ہے۔ بظاہر خوف اور اندیشوں کی وجہ سے اس میں محسوس تبدیلی نظر آئی جو سمیحہ سے چھپ نہ سکی۔ اس وجہ سے اس نے سوال کیا:

’’کیا بات ہے تم کچھ معمول کے مطابق نہیں ہو؟‘‘

اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ’’نہیں! میں تو بہت اچھی حالت میں ہوں۔‘‘

’’اچھا تو میں فوری طور سے ڈرائیونگ اور فائرنگ سیکھنا شروع کرتی ہوں۔‘‘

اس نے خوشامد کرتے ہوئے کہا: ’’ڈارلنگ! پہلے گاڑی چلانی سیکھو تاکہ اس میں یکسوئی سے مہارت حاصل ہوجائے۔‘‘

جب اس نے اپنے اس نئے شوق کی تکمیل کرلی تو اس سے کہنے لگی: ’’اب تمہارے لیے ایک مشاق ڈرائیو رہے۔ اب تم بغیر پس وپیش کے کار خرید لو، اس نے جواب دیا: ’’اس بارے میں اپنے ماموں سے بات کرو۔‘‘

سمیحہ نے معمول کے مطابق قہقہہ بلند کیا اور کہا: ’’میں نے اس سلسلے میں کوتاہی نہیں برتی، لیکن انھوں نے کچھ انتظار کرنے کے لیے کہا اور مجھے بتایا کہ ’’فرم صرف میری ہی ملکیت نہیں ہے۔‘‘ مگر میں انہیں خوب جانتی ہوں، وہ جلدی ہی میرا یہ مطالبہ پورا کردیں گے۔‘‘

’’تب ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘

’’نہیں! کار کی قیمت قرض لے لو، بہت جلد قرض ادا ہوجائے گا۔‘‘

وہ سرجھکا کر خاموش ہوگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد شام کی ڈیوٹی کے لیے فرم روانہ ہوگیا۔ سات بجے دفتر سے نکلتے ہی دیکھا کہ سمیحہ اپنی دوست احسان کی کار میں اس کا انتظار کررہی ہے۔

اس کے چہرے پر شادمانی کی ایسی چمک تھی جو اچانک کسی کو مسرت بخش خبر سناتے وقت ہوتی ہے جس کا اس نے خواب وخیال میں بھی تصور نہ کیا ہو۔

’’میں نے احسان کی کارقرض لے لی ہے۔ ہم ان کے پاس کلب جارہے ہیں، بیٹھو۔‘‘

اس کا دل خوف و دہشت سے لرز اٹھا، لیکن سوار ہوجانے کے سوا اور کوئی راہ نہیں تھی۔ حامد نے کار میں بیٹھنے کے بعدکہا: ’’میں اس حرکت کی تائید نہیں کرسکتا… نامناسب… نامعقول کیا تم نے واقعی ڈرائیونگ میں مہارت حاصل کرلی ہے؟‘‘

اس نے فاتحانہ جواب دیا: ’’تم ابھی خود دیکھ لوگے۔‘‘

بیچ شہر سے جدید مصر کے آخری کنارہ تک کا سفر انتہائی خوف و صبر آزما طے ہوا۔ اس نے بہت ہی بے ہنگم تیز رفتار سے کار چلانی شروع کی، تیز رفتار گاڑیوں کے درمیان سے دہشت ناک راہ بناتے ہوئے گزری اور سرخ سگنل پر اچانک بریک لگایا، جبکہ وہ اس تصور سے کانپ اٹھا تھاکہ ابھی آگے کی کسی کار کے اندر گھس جائے گی۔ اس نے بارہا خوشامد کرتے ہوئے کہا: ’’ذرا آہستہ چلاؤ، ہم ریس میں تو نہیں ہیں۔‘‘

اس نے قہقہہ بلند کرتے ہوئے کہا: ’’تمہارے مزید اطمینان کے لیے، میں اب فائرنگ سیکھوںگی۔ اس وقت تم خود بخود تسلی حاصل کرلو گے۔‘‘

حامد نے دل میں سوچا’’اب مجھے موت سے صرف کوئی معجزہ ہی بچا سکے گا۔‘‘

اس نے مزید سوچا کہ میرے سارے خواب بکھر گئے ہیں، کاش حاسد اور جلنے والے اس بات کو سمجھ لیں۔ اس نے پھر سوچا اسے جلد از جلد ترقی حاصل کرلینی چاہیے ورنہ ہمیشہ کے لیے موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس رات وہ بالکل نہ سوسکا۔ وہ بے خوابی کے عالم میں ساری رات خوفناک تاریک خیالات میں ڈوبا رہا، فجر سے کچھ قبل سمیحہ اچانک نیند سے بیدار ہوکر بستر پر اٹھ بیٹھی۔ حامد نے محسوس کیا کہ اس کے اپنے ٹوٹے ہوئے اعصاب سے ایک زوردار چیخ نکلی ہے، سمیحہ نے روشنی جلائی اور عجیب نگاہوں سے اسے دیکھا پھر سوال کیا: ’’کیا ہوگیا؟‘‘

اس نے ندامت سے جواب دیا: ’’کوئی بات نہیں، ممکن ہے کوئی خواب ہو۔‘‘

غسل خانہ گئی ، پھر بستر پر واپس آئی اور اسے تھوڑی دیر گھورا اور سوگئی۔ اس ہفتہ اس نے بندوق کے ساتھ حامد کو خوش آمدید کہا، اور جلد ہی خوشگوار سیر سپاٹے کے پروگرام کی اطلاع دی۔ حامد نے یقین کرلیا کہ اس کی زندگی خطرہ میں ہے۔ اسے اپنی حفاظت کا انتظام کرلینا چاہیے۔ اور اس موقع کے انتظار میں رہا کہ وہ تفریح یا ملاقات کے لیے گھر سے باہر جائے، اس نے یہ مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ وہ بندوق سے ہر حال میں چھٹکارا حاصل کرے گا۔ اس نے اس ارادہ کو پورا کرلیا۔

حامد گھر واپس آیا تو اس کے پیروں تلے سے زمین سرکتی محسوس ہوئی۔ سمیحہ دونوں ملازموں کو بندوق کی چوری کے اقرار کے لیے مجبور کررہی تھی، جب کہ وہ دونوں اس کا اقرار کر ہی نہیں سکتے تھے۔ انھوں نے بندوق دیکھی تک نہ تھی۔ سمیحہ کی غضب ناک آواز توپ کے گولوں کی طرح گرج رہی تھی۔ اس نے نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کے کمرے لے گیا۔ اور اس سے بے حد نرم اور پرسکون لہجہ میں کہا: ’’یہ ایک فیصلہ ہے جس کو میں بدل نہیں سکتا ہوں۔ میں بندوق کے ساتھ ایک چھت کے تلے نہیں رہ سکتا۔‘‘

اس نے اسے ذلت آمیز اور ’’مجنونانہ‘‘ برتاؤ تصور کیا۔ اور وہ بھی اپنے موقف پر اٹل رہا۔ سمیحہ نے بندوق واپس کردینے کا مطالبہ کیا تو اس نے کسی قدر ترشی سے کہا:

’’مناسب نہیں کہ ہمارے درمیان ایک معمولی سی چیز پر اختلاف پیدا ہوجائے۔‘‘

ایک دم سے وہ چیخنے چلانے لگی: ’’تم … تم… حقیر، ذلیل، ادنیٰ انسان ہو۔‘‘

وہ خاموش رہا۔ ممکن ہے کہ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوجائے اور اس تلخی ترشی سے باز آجائے اور مطالبہ واپس لے لے، لیکن اس نے اس کی تذلیل و توہین جاری رکھی۔ حامد نے غیر شعوری طور پر اس کے کندھے کو پکڑ کر جھنجھوڑا۔ سمیحہ نے اس کی ٹائی پکڑلی اور پھر بے رحمی سے گھونسے بازی کا آغاز ہوگیا۔ چند منٹ کے بعد وہ سرخ سرخ آنکھوں اور تمتماتے ہوئے چہرے کے ساتھ گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ وہ اکیلا رہ گیا۔ اور غم و مایوسی کی کیفیت میں صورتِ حال کے بارے میں غور کرتا رہا۔ اس کی یہ تنہائی سمیحہ کے ماموں نے دفعتاً آکر توڑی، وہ بہت زیادہ جذباتی اور غصہ سے بپھرا ہوا تھا۔ اس نے کہا: ’’میں نے جو کچھ سنا ہے وہ ناقابلِ یقین ہے۔‘‘

حامد نے اپنے ڈائریکٹر کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے کہا: ’’یہی میری رائے ہے۔‘‘

’’نہ … نہ… میں اس کی ہرگز اجازت نہیں دوں گا۔‘‘ پھر بہت ہی تند و تیز لہجہ میںکہا:

’’تم نے اس کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا؟ … کیا اس حد تک نوبت پہنچ گئی؟ … جبکہ تمہاری گفتگو کا محور صرف ترقیاں اور تنخواہ کا اضافہ تھا… تمہیں اپنے آپ پر مطلق قابو نہیں؟ … تمہیں کیا ہوگیا ہے؟‘‘

حامد نے درخواست کی: ’’تشریف رکھئے، ہم پرسکون اور ٹھنڈے انداز سے گفتگو کریں۔‘‘

’’کیسا سکون… تمہاری مجرمانہ حرکت کے بعد … مجھے بتاؤ تمہیں کیا ہوگیا، اور تمہارے اعصاب پر کیا سوار ہوگیا؟

’’میرے اعصاب؟‘‘

’’یقینا… تم کار پر بیٹھنے سے لرزتے اور کانپتے ہو… تم بندوق چراتے ہو… تم رات میں بچوں کی طرح بلا وجہ روتے بلکتے ہو اور پھر بازاری لوگوں کی طرح اسے مارتے ہو۔‘‘

یہ سن کر اسے بھی غصہ آگیا اور بلند آواز سے بولا: ’’تو پھر ہم ا س کے اعصاب کے بارے میں بھی بات چیت کرلیں…‘‘

’’تم بے حیا ہو… بلاشبہ تم بے حیا اور کمینے ہو…‘‘

اس نے سختی سے پوچھا: ’’اور شفا خانہ!‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

اس نے اپنی بہن کی طرح اپنے سر کی جانب اشارہ کرکے کہا: ’’میرا مطلب ہے شفاخانہ…‘‘

دونوں نے ایک دوسرے کو کھا جانے والی نگاہوں سے دیکھا۔ حامد پورے طور سے مایوس ہوچکا تھا۔ اس نے تقریباً چیختے ہوئے کہا: ’’تم لوگو ںکو مجھ سے کوئی بات چھپانی نہیں چاہیے تھی۔‘‘

اس آدمیت نے بھی چیختے ہوئے جواب دیا:’’تم اس صورت میںبھی شادی سے انکار نہ کرتے کیونکہ تمہارا مقصد اس کے واسطہ سے صرف مادی ترقی اور بڑا عہدہ حاصل کرنا تھا، تم بزدل ہو، اور تم میں عزت و شرافت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘

اس کے ہاتھ کانپنے لگے، آنکھیں ابل پڑیں، رخساروں میں خون منجمد ہوگیا، یہ ایک ہولناک منظر تھا۔ لگتا ہے کہ پاگل پن اس کے گھرانے میں وراثتاً چلا آرہاہے؟ خوف نے اس پر خاموشی طاری کردی، پھر بکتا جھکتا گھر سے چلا گیا۔

حامد نے دل میں کہا: ’’سب کچھ ختم ہوگیا، تجربہ ناکام ہوگیا۔ خوش نصیبی یہ تھی کہ ابھی تک فرم میں مستعار (ڈپوٹیشن) طور پر کارم کررہا تھا، تبادلہ نہیں ہوا تھا۔ مگر اسے اب پھر اسی جگہ سے سفر شروع کرنا تھا، جہاں سے روانہ ہوا تھا۔ حرص کا دائرہ گول جو ہے۔‘‘

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146