ہرمسلمان کی ذمہ داری

ابوالفضل نور احمد

ایمان لانے کے بعد ضروری ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان عملی طور پر ان دو حیثیتوں کے تقاضے پورے کریں جو اس دنیا میں ہمیں حاصل ہیں۔ ہماری ایک حیثیت یہ ہے کہ ہم خدا کے بندے ہیں۔ ہماری دوسری حیثیت یہ ہے کہ ہم آخری رسول کے امتی ہیں۔ پہلی حیثیت کے اعتبار سے ہر مسلمان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ذاتی طور پر نیک بندہ بن جائے۔ وہ اپنی ذات سے خدا کی بندگی کا ثبوت دے اور دیگر انسانوں کواس نعمت سے فائدہ پہنچائے، جو اسے حاصل ہوچکی ہے۔ آخری رسول کا امتی ہونا ہمارے اوپر ایک اور فریضہ عائد کرتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم دنیا والوں کو پیغام رسالت پہنچانے کے لیے رسولِ خدا کی قائم مقامی کریں، جیسا کہ حدیثِ قدسی میں ہے:

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: امت محمدی پر میں نے وہ فرائض عائد کیے ہیں، جو میں نے نبیوں اور رسولوں پر عائد کیے تھے۔‘‘

حضرت محمد ﷺ سارے عالم کی طرف مبعوث ہیںاور آپ کے ماننے والے ان قوموں کی طرف مبعوث ہیں، جن کے درمیان وہ پیدا کیے گئے ہیں۔ آپ کی بعثت عامہ تمام اہل دنیا کی طرف، آپ کی وفات کے بعد، آپ کی امت ہی کے واسطہ سے ہے۔ حضرت مسعود بن مخزمہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنے اصحاب کے پاس آئے اور فرمایا:

’’بیشک اللہ نے مجھ کو سارے لوگوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے، پس تم میری طرف سے لوگوں کی طرف پہنچادو۔‘‘(تہذیب سیرت ابن ہشام، جلد۲، ص:۱۴۱)

اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ کام اتنا بڑا ہے کہ اس نے ہزاروں پیغمبر اس دنیا میں صرف اسی مقصد کے لیے بھیجے اور ان پیغمبروں نے طرح طرح کی پریشانیاں اور دکھ اٹھا کر دین کی خدمت و دعوت کا یہ کام انجام دیا، اور لوگوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے کوششیں کیں۔

پیغمبری کا یہ سلسلہ خدا کے آخری پیغمبر محمد ﷺ پر ختم ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے انہی کے ذریعہ اپنے اس خاص فیصلے کا اعلان بھی کردیا کہ دین کی تعلیم و دعوت اور لوگوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے آئندہ اب کوئی پیغمبر نہیں بھیجا جائے گا بلکہ اب قیامت تک یہ کام انہی لوگوں کو کرنا ہوگا جو حضرت محمد ﷺ کے لائے ہوئے دینِ حق کو مان چکے ہیں اور ان کی ہدایت کو قبول کرچکے ہیں۔

الغرض نبوت و رسالت ختم ہونے کے بعد دین کی دعوت اور لوگوں کی اصلاح و ہدایت کی تمام تر ذمہ داری ہمیشہ کے لیے اب حضورﷺ کی امت کے سپرد کردی گئی ہے اور دراصل اس امت کی یہ بہت بڑی فضیلت ہے بلکہ قرآن شریف میں اسی کام اوراسی خدمت و دعوت کو اس امت کے وجود کا مقصد بتلایا گیا ہے، گویا کہ یہ امت پیدا ہی اس کام کے لیے کی گئی ہے۔ ارشاد ہے کہ:

’’(اے امتِ محمدیہ) تم وہ بہترین جماعت ہو جو اس دنیا میںلائی گئی ہے انسانوں کی اصلاح کے لیے، تم کہتے ہو نیکی کو اور روکتے ہو برائی سے اور سچا ایمان رکھتے ہو اللہ پر۔‘‘ (آل عمران: ۱۱۰)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ یہ امتِ محمدﷺ دنیا کی دوسری امتوں اور جماعتوں میں اسی لحاظ سے ممتاز اور افضل تھی کہ خود ایمان اور نیکی کے راستے پر چلنے کے علاوہ دوسروں کو بھی نیکی کے راستے پر چلانے اور برائیوں سے بچانے کی کوشش کرنا اس کی خاص خدمت اور خاص ڈیوٹی تھی اور اسی لیے اس کو خیرِ امت قرار دیا گیاتھا۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ امت اگر دین کی دعوت اور لوگوں کی اصلاح و ہدایت کا یہ فرض ادا نہ کرے تو وہ اس فضیلت کی مستحق نہیں بلکہ سخت مجرم اور قصور وار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنے بڑے کام کی ذمہ داری اس کے سپرد کی اور اس نے اس کو پورا نہیں کیا۔

جس طرح مسلمانوں کو دنیا کی تمام اقوام تک دین کا پیغام پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اسی طرح ان کا یہ بھی فرض ہے کہ دین کی دعوت اور اصلاح و ہدایت کا کام پہلے اس امت ہی کے ان طبقوں میں کیا جائے جو دین و ایمان اور نیکی و پرہیزگاری کے راستے سے دور ہوگئے ہیں۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جو لوگ خود کو مسلمان کہتے اور کہلاتے ہیں، خواہ ان کی عملی حالت کیسی ہی ہو، وہ بہرحال ایمان و اسلام کا اقرار کرکے خدا و رسول ﷺ اور ان کے دین کے ساتھ ایک رشتہ اور ایک طرح کی خصوصیت پیدا کرچکے ہیں اور اسلامی سوسائٹی اور برادری کے ایک فرد بن چکے ہیں۔ اس واسطے ہمارے لیے ان کی اصلاح و تربیت کی فکر بہرحال مقدم ہے جس طرح کہ قدرتی طور سے ہر شخص پر اس کی اولاد اور اس کے قریبی رشتے داروں کی خبر گیری اور دیکھ بھال کی ذمہ داری بہ نسبت دوسرے لوگوں کے زیادہ ہوتی ہے۔

اگر ہم اپنے گرد و پیش بسنے والوں کو آنے والے دن سے آگاہ نہ کریں تو ہمارے لیے بحیثیت امت ٹھیک اسی گرفت کا اندیشہ ہے جو کسی نبی کے لیے اس وقت تھا جب کہ وہ اس قوم کو خدا کا پیغام نہ پہنچائے جس کی طرف وہ بھیجا گیا ہے۔ اپنی قوم کو شرک و کفر میں چھوڑ کر نبی کا ’’نماز روزہ‘‘ بھی خدا کے یہاں قبول نہ تھا۔ پھر ہمارے لیے صرف ذاتی عمل کس طرح کافی ہوسکتا ہے جب کہ ہمارے گرد و پیش ہمارے رشتے دار و احباب کے کئی افراد اس حال میں پڑے ہوں کہ انہیں یہ بتایا ہی نہ گیا ہو کہ زندگی کی حقیقت کیا ہے اور انہیں اپنی حقیقی کامیابی کے لیے کیا کرناچاہیے۔

بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جہاد صرف اس جنگ کا نام ہے جو دینی اصول و احکام کے مطابق اللہ کے راستے میں لڑی جائے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ دین کی دعوت اور بندگانِ خدا کی اصلاح و ہدایت کے لیے جس وقت جو کوشش کی جاسکتی ہو، وہ بھی اس وقت کا خاص جہاد ہے۔

رسول اللہ ﷺ نبوت کے بعد تقریباً بارہ، تیرہ برس مکہ معظمہ میں رہے۔ اس پوری مدت میں آپﷺ کا اور آپؐ کے ساتھیوں کا جہاد یہی تھا کہ مخالفتوں اور طرح طرح کی پریشانیوں وتکلیفوں کے باوجود دین پر مضبوطی سے جمے رہے اور دوسروں کی اصلاح و ہدایت کی کوشش کرتے رہے اور بندگانِ خدا کو خفیہ و علانیہ دین کی دعوت دیتے رہے۔

الغرض اللہ سے غافل اور راستے سے بھٹکے ہوئے بندوں کو اللہ سے ملانے کی اور صحیح راستے پر چلانے کی کوشش کرنا اور اس راہ میں اپنا پیسہ خرچ کرنا اور وقت اور چین و آرام قربان کرنا، یہ سب اللہ کے نزدیک ’’جہاد‘‘ ہی میں شمار ہے۔

اس کام کے کرنے والوں کو آخرت میں جو اجر و ثواب ملنے والا ہے اور نہ کر نے والوں کے لیے اللہ کی ناراضگی اور غضب کے جو وعدے وعید ہیں ان کا کچھ اندازہ مندرجہ ذیل حدیثوں سے ہوسکتا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص لوگوں کو صحیح راستے کی دعوت دے اور نیکی کی طرف بلائے، تو جو لوگ اس کی بات مان کر جتنی نیکیاں اور بھلائیاں کریں گے اور ان نیکیوں کا جتنا ثواب ان کرنے والوں کو ملے گا اتناہی ثواب اس شخص کو بھی ملے گا جس نے ان کو نیکی کی دعوت دی اور اس کی وجہ سے خود نیکی کرنے والوں کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘

ایک دوسری روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا:

’’اے علی! قسم اللہ کی اگر تمہارے ذریعے ایک شخص کو بھی ہدایت ہوجائے، تو تمہارے حق میں یہ اس سے بہتر ہے کہ بہت سے سرخ اونٹ تمہیں مل جائیں۔‘‘

درحقیقت اللہ کے بندوں کی اصلاح و ہدایت اور ان کو نیکی کے راستے پر لگانے کی کوشش، جیسا کے پہلے بھی عرض کیا گیا بہت اونچے درجے کی خدمت اور نیکی ہے اور انبیاء علیہم السلام کی خاص وراثت اور نیابت ہے۔ پھر دنیا کی کسی بڑی سے بڑی دولت کی بھی اس کے مقابلے میں کیا حقیقت ہوسکتی ہے؟

رسول اللہ ﷺ نے ایک اور حدیث میں لوگوں کو اصلاح و ہدایت کے کام کی اہمیت کو ایک عام فہم مثال کے ذریعے بھی سمجھایا ہے۔آپﷺ کے ارشاد کا خلاصہ یہ ہے کہ:

’’فرض کرو ایک کشتی ہے جس میں نیچے اوپر دو طبقے ہیں، اور نیچے کے طبقے والے مسافروں کو پانی اوپر کے طبقے سے لانا پڑتا ہے، جس سے اوپر والے مسافروں کو تکلیف ہوتی ہے اور وہ ان پر ناراض ہوتے ہیں، تو اگر نیچے والے مسافر اپنی غلطی اور بے وقوفی سے نیچے ہی سے پانی حاصل کرنے کے لیے کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے لگیں اور اوپر کے درجے والے ان کو اس غلطی سے روکنے کی کوشش نہ کریں، تونتیجہ یہ ہوگا کہ کشتی سب ہی کو لے کر ڈوب جائے گی اور اگر اوپر والے مسافروں نے سمجھا بجھا کر نیچے کے درجے والوں کو اس حرکت سے روک دیا، تو وہ ان کو بھی بچالیں گے اور خود بھی بچ جائیں گے۔‘‘

حضورﷺ نے فرمایا: ’’بالکل اسی طرح گناہوں اور برائیوں کا بھی حال ہے۔ اگر کسی جگہ کے لوگ جہالت کی باتوں اور گناہوں میں مبتلا ہوں اور وہاں کے نیک اور سمجھدار قسم کے لوگ ان کی اصلاح و ہدایت کی کوشش نہ کریں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ان گناہ گاروں اور مجرموں کی وجہ سے خدا کا عذاب نازل ہوگا، اور پھر سب ہی اس کی لپیٹ میں آجائیں گے اور اگر ان کو گناہوں اور برائیوں سے روکنے کی کوشش کرلی گئی تو پھر سب ہی عذاب سے بچ جائیں گے۔‘‘

ایک اور حدیث میں ہے، حضورﷺ نے بڑی تاکید کے ساتھ اور قسم کھا کر فرمایا ہے کہ:

’’اس اللہ کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم اچھی باتوں اورنیکیوں کو لوگوں سے کہتے رہو اور برائیوں سے ان کو روکتے رہو۔ یاد رکھو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو بہت ممکن ہے کہ اللہ تم پر کوئی سخت قسم کا عذاب مسلط کردے اور پھر تم اس سے دعائیں کرو اور تمہاری دعائیں بھی اس وقت نہ سنی جائیں۔‘‘

اس زمانے کے بعض خدا رسیدہ اور روشن دل بزرگوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں پر ایک عرصے سے جو مصیبتیں اور ذلتیں آرہی ہیں اور جن پریشانیوں میں وہ مبتلا ہیں جو ہزاروں دعاؤں اور ختموں اور وظیفوں کے باوجود بھی نہیں ٹل رہی ہیں تو اس کا بڑا سبب یہی ہے کہ ہم دین کی خدمت و دعوت اور لوگوں کی اصلاح وہدایت کے کام کو چھوڑے ہوئے ہیں، جس کے لیے ہم پیدا کیے گئے تھے اور ختم نبوت کے بعد جس کے ہم پورے ذمے دار بنائے گئے تھے۔ اور دنیا کا بھی ایسا ہی قانون ہے کہ جو سپاہی اپنی خاص ڈیوٹی ادا نہ کرے اس کو معطل کردیا جاتا ہے اور بادشاہ جو سزا اس کے لیے مناسب سمجھتا ہے، دیتا ہے۔

آؤ! آئندہ کے لیے اس فرض اور اس ڈیوٹی کو انجام دینے کا ہم سب عہد کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارا مدد گار ہو، اس کا وعدہ ہے کہ:

ولینصرن اللّٰہ من ینصرہ۔ الحج:۴۰)

’’اللہ ان لوگوں کی ضرور مدد کرے گا، جو اس کے دین کی مدد کریں گے۔‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں