حفظانِ صحت کے نبوی اصول

علامہ ابنِ قیم

علاج حقیقت میںدو چیزوں پر عمل کرنے کا نام ہے ایک پرہیز، دوسرے حفظانِ صحت۔ جب کبھی صحت کے گڑ بڑ ہونے کا اندازہ ہو تو مناسب پرہیز سے کام لیا جائے، غرض طب کا مدار اِنہی قواعد پر ہے۔ پرہیز دو طرح کے ہوتے ہیں:

۱- ایسا پرہیز جس سے بیماری پاس نہ پھٹکے۔

۲- ایسا پرہیز جس سے مزید اضافہ بیماری نہ ہو۔ بلکہ مرض جس حال میں ہے کم از کم اسی جگہ رہ جائے۔

پہلے پرہیز کا تعلق تندرستوں سے اور دوسرے کا مریضوں سے ہے۔ اس لیے کہ جب مریض پرہیز کرتا ہے تو اس کی بیماری بجائے بڑھنے کے رک جاتی ہے۔ اور جسمانی نظام کو اس کے دفاع کا موقع ملتا ہے، پرہیز کے سلسلے میںاصل قرآن کی یہ آیت ہے:

’’اگر تم بیمار ہو یا سفر کررہے ہو یا تم میں سے کوئی پاخانہ سے واپس ہو یا تم نے عورتوں سے جماع کیا ہو اور تم کوپانی میسر نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کرلیاکرو۔‘‘

(نساء: ۶۳، مائدہ:۶)

یہاں مریض کو پانی سے پرہیز کی ہدایت ہے اس لیے کہ مریض کو اس سے ضرر کا اندیشہ ہے۔ حدیث سے بھی پرہیز کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ ام المنذر بنت قیس انصاریہ کی حدیث میں ہے:

’’آپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ میرے یہاں تشریف لائے، آپ کے ہم راہ حضرت علی بھی تھے، جو بیماری کی وجہ سے کمزور و ناتواں تھے، ہمارے یہاں کھجور کے خوشے لٹکے ہوئے تھے۔ جنابِ نبی کریم ﷺ کھڑے ہوکر اس کے کھانے میں مشغول ہوگئے۔ اور حضرت علیؓ بھی اس سے چن کر کھانے لگے، اس پراللہ کے رسول ﷺ نے حضرت علیؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: اے علی! تم بہت ناتواں ہو، یہاں تک کہ حضرت علیؓ نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ راویہ بیان کرتی ہیںکہ میں نے جو اور چقندر کے آمیزسے آش تیار کیا تھا۔ اسے آپ کے پاس لائی، رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ اسے لو، یہ تمہارے لیے بہت نفع بخش ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ مذکور ہے کہ اس میں لگ جاؤ کیونکہ یہ تمہارے لیے زیادہ مناسب ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)

سنن ابن ماجہ میں حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت مذکور ہے:

’’انھوں نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا آپ کے آگے روٹی اور کھجور رکھی ہوئی تھی۔ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ قریب آجاؤ اور کھاؤ میں نے ایک کھجور اٹھائی اور کھانے لگا۔ آپ نے فرمایا کہ تم کھجور کھا رہے ہو۔ جبکہ تم کو آشوبِ چشم ہے۔ میں نے عرض کیا : اے رسول اللہ ﷺ! میں دوسری جانب سے کھا رہا ہوں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ مسکرا دئے۔‘‘ (ابن ماجہ)

رسول اللہ ﷺ سے مروی ایک محفوظ حدیث میں ہے:

’’جب خدا کسی سے محبت کرتا ہے تو اسے دنیا سے محفوظ رکھتا ہے۔ جیسا کہ تم میں کا کوئی اپنے مریض کو کھانے پینے سے بچاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندے کو دنیا سے محفوظ رکھتا ہے۔‘‘

اور یہ جو زبان زد عوام ہے کہ پرہیز سب سے بڑی دوا ہے۔ اور معدہ بیماری کا گھر ہے۔ اور جو جسم بیماری کا خوگر ہو، اس کی عادت کی رعایت کرو۔ یہ حدیث نہیں ہے بلکہ حارث بن کلدہ کا کلام ہے۔ جو عرب کا بہت بڑا طبیب تھا۔ اس کی نسبت رسول اکرم ﷺ کی طرف کرنا صحیح نہیں ہے۔ بہت سے محدثین کا یہی قول ہے۔ البتہ نبی ﷺ سے یہ حدیث مروی ہے:

’’معدہ بدن کا حوض ہے۔ جس سے بدن کی تمام رگیں لگی ہوتی ہیں۔ جب معدہ صحیح ہوتا ہے تو رگیں صحت کے ساتھ رطوبت لے کر چلتی ہیں اور جب معدہ تندرست نہ ہو تو رگیں رطوبت مرضیہ لے کر بدن میں چلتی ہیں۔‘‘ (مجمع الزوائد)

حارث بن بن کلدہ کا قول ہے کہ سب سے بڑا علاج پرہیز ہے اطباء کے نزدیک پرہیز کا مطلب یہ ہے کہ تندر ست کو ضرر سے بچانا، ایسا ہی ہے جیسے مریض اور ناتواں و کمزور کے لیے مضر چیز کا استعمال کرانا۔ مرض کے سبب سے جو شخص کمزور و ناتواں ہوگیا ہو۔ اسے پرہیز سے بہت زیادہ نفع ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس کی طبیعت مرض کے بعد ابھی پوری طرح سنبھل نہیںپاتی اور قوتِ ہاضمہ بھی ابھی کمزور ہوتی ہے۔ نیز طبیعت میں قبولیت و صلاحیت ہوتی ہے اور اعضاء ہر چیز لینے کے لیے مستعد رہتے ہیں۔ اس لیے مضر چیزیں استعمال کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ مرض کو دوبارہ دعوت دی جائے، یہ مرض کی ابتدائی صورت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔

زید بن اسلم نے بیان کیا کہ فاروقِ اعظم عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک مریض کو پرہیز کرایا، یہاں تک کہ یہ مریض پرہیز کی سختی کی وجہ سے کھجور کی گٹھلیاں چوستا تھا، کھانا اس کے لیے بالکل ممنوع تھا۔

خلاصہ کلام یہ کہ پرہیز بیماری سے پہلے سب سے بہتر اور کارگر نسخہ ہے جس سے آدمی بیمار ہی نہیں ہونے پاتا مگر بیمار ہوجانے پر پرہیز سے نفع یہ ہوتا ہے کہ مرض میں زیادتی اور اس کے پھیلنے پر قدغن لگ جاتی ہے۔ اور مرض بڑھنے نہیں پاتا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں