میں محسوس کرنے لگا تھا کہ چودہ پندرہ سال کی لڑکی میرے کمرے کی صفائی کرتے ہوئے کچھ زیادہ وقت ہی صرف کرنے لگی ہے۔ پہلے جو عورت صفائی کرتی تھی، اس کا رویہ ایسا تھا کہ جیسے زبردستی کسی کو پانی میں غوطے دیے جارہے ہوں اور موقع پاکر وہ بھاگنے لگی ہو۔ لیکن یہ جوان ہوتی ہوئی لڑکی میلی سفید ساڑھی کا پلوشانے پر سے لے جاکر کمر کے گرد لپیٹتے ہوئے کمرہ میں یوں نظریں گھماتی تھی، جیسے ہر چیز آئینہ اوراس میں وہ اپنے مختلف انداز دیکھ کر خود میں ایک تنوع محسوس کررہی ہو۔ ابھی میرا آپریشن نہیں ہوا تھا۔ چیک اپ شروع تھا۔ پھر بھی درد کی وجہ سے زیادہ وقت پلنگ پر ہی گزرتا تھا۔ پرائیویٹ ہسپتال کے پرائیویٹ کمرہ میں ہر طرح کی سہولت موجود تھی۔ رنگین ٹی وی گھر سے منگوالیا تھا۔ ہسپتال کا ٹی وی چھوٹی اسکرین کا تھا، اور بیگم کو یہ پسند نہ تھا۔ رات کو وہی میری دیکھ بھال کے لیے موجود رہتی تھی اور یہ صفائی کرنے والی لڑکی اب تو یوں کمرہ میں بہانے بنا بنا کر آنے لگی تھی، جیسے اس نے کبھی بڑی اسکرین والا رنگین ٹی وی نہ دیکھا ہو۔
میرے پلنگ کی پائینتی کی طرف زمین پر چپکے سے آکر اکثر وہ بیٹھ جاتی تھی۔ اور نظریں ٹی وی پر جما دیتی تھی۔ عادت کوئی بھی ہو۔ اچھی نہیں ہوتی جبکہ خود پر خاموشی کا عالم طاری کرکے خود کو خواہشوں کی شدت تلے دبا دیا جائے۔ بیگم کا بھی کچھ یہی حال تھا اور فلم کی کیسٹ کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ دوپہر کو البتہ اگر میری آنکھ لگ جاتی تو وقتی طور پر یہ سلسلہ منقطع ہوجاتا تھا، اور اس دوران میں صفائی کرنے والی لڑکی جس نے اپنا نام رجی بتایا تھا، ویسے ہی فرش پر کپڑا پھیرنے لگتی تھی۔ پلاسٹک کی ٹوکری کو باہر لے جاکر ڈرم میں الٹ دیتی تھی اور پھر دوسرے کمروں کا چکر لگانے لگتی تھی۔
بیگم نے میرے توجہ دلانے پر اس سے پوچھ لیا۔
’’اری لڑکی اب یہ کیا راز ہے۔ ہمارے کمرہ کی صفائی میں جان بوجھ کر اتنا وقت لگادیتی ہو۔ کوئی کارنامہ سر انجام دینے کا ارادہ تو نہیں ہے؟‘‘
وہ لرز کر رہ گئی تھی۔
’’جی بیگم صاحبہ! ایسی بات نہیں ہے جی۔ بس جی، ویسے ہی جی۔ میرا مطلب ہے جی!‘‘
’’کیا جی جی لگا رکھی ہے۔ کوئی سازش تو تیار نہیں ہورہی ہے؟‘‘
’’خدا نہ کرے۔ بیگم صاحبہ جی! ہم غریب لوگ کیسے مخالفت کرسکتے ہیں جی! بس جی، دراصل پتہ نہیں کیوں؟ آپ لوگوں کے قریب ہوکر، عجیب طرح کا سکون ملتا ہے۔ میرا مطلب ہے جی!‘‘
میں بے ساختہ مسکرا پڑا تھا۔ اسے انگلی کے اشارے سے قریب بلا لیا۔
’’سچ سچ بتاؤ، بات کیا ہے؟ شاباش تمہاری شکایت نہیں کریں گے۔‘‘
’’میں نے کہہ دیا ہے نا جی!، پتہ نہیں کیوں، میرا جی چاہتا ہے کہ میں آپ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ خدمت کروں۔‘‘
بیگم قریب آگئی۔
’’دیکھو لڑکی، اگر تمہاری طرف سے ہمیں کوئی نقصان پہنچا تو پھر ہم سے برا اور کوئی نہ ہوگا۔‘‘
رجی نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے کانوں کی لویں پکڑلیں۔
’’توبہ جی! خدا نہ کرے، توبہ جی! معاف کردیں۔‘‘
اور وہ جلدی سے باہر نکل گئی تھی۔
بیگم نے کچھ سوچ کر کہا:
’’عجیب لڑکی ہے۔ ہمارا ان لوگوں سے زیادہ واسطہ نہیں پڑتا اس لیے ان کی نفسیات سے واقف نہیں ہوتے۔ ویسے میں ضرور کریدوں گی۔ شاید اس کی طرف سے اطمینان حاصل ہوجائے۔‘‘
اس وقت چند عزیز مزاج پرسی کے لیے آگئے تھے ، اس لیے یہ معاملہ وہیں پر ٹھپ کردیا گیا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب سارے عزیز چلے گئے… تو بیگم نے ملازم سے نئی ویڈیو فلم منگوالی۔ چند منٹ بعد دروازہ کے پردہ میں بار بار جنبش پیدا ہونے سے میں نے اندازہ لگا لیا کہ ضرور رجی ٹی وی کی اسکرین کو اپنی توجہ کا مرکز بنا رہی ہوگی۔ میں نے بیگم کو اشارتاً بتایا اور اس نے دبے پاؤں آگے بڑھ کر رجی کا ہاتھ پکڑ لیاتھا۔
’’فلم دیکھنی ہے تو اندر آجاؤ، یوں اندر جھانکنا معیوب ہے۔‘‘
’’جی! وہ جی!‘‘وہ ہکلانے لگی۔
بیگم نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ جب وہ دروازہ کے اندر آکر بیٹھ گئی تو بیگم نے پوچھ لیا:
’’فلم دیکھنے کا بہت شوق ہے؟‘‘
’’جی، نہیں، کوئی شوق نہیں ہے۔‘‘
’’پھر، تم چوروں کی طرح کیوں جھانکنے لگتی ہو؟‘‘
’’بس جی، یہ جو فلم میں کوٹھیوں کے اندر کا نقشہ دکھایا جاتا ہے نا، یہ مجھے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ جی چاہتاہے کہ…‘‘ وہ خاموش ہوکر یوں سانس لینے لگی جیسے اس کی آرزوؤں کو سوکھے پتوں کی مانند ہوا اڑا رہی ہو۔
’’عجیب شوق ہے، بھئی۔‘‘
میں نے لقمہ دیا، بیگم کا تجسس بڑھ گیا تھا۔
’’تمہاری بات میری سمجھ میں نہیں آسکی۔‘‘
’’بس جی، یوں سمجھ لیں کہ میری خواہش ہے کہ … ایسی خوبصورت کوٹھی میں… کوئی ایک دن کے لیے مجھے گھومنے پھرنے کی اجازت دے دے… لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ میری اوقات ہی کیا ہے؟‘‘
’’اری یہ مت کہو، دعا مانگتے رہنے سے ایک نہ ایک دن تو ایسی چھوٹی موٹی تمنا ضرور پوری ہوجایا کرتی ہے۔ دعا کرو صاحب کا آپریشن کامیاب ہوجائے۔ ہم تمہیں اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ ایک دن کیا، تم ایک ہفتہ تک ہماری کوٹھی میں جی بھر کر رہ سکتی ہو۔‘‘
’’سچ!‘‘
وہ بچوں کی مانند اچھلی اور پھر پھسکڑا مار کر بیٹھ گئی۔
’’سچ! بیگم صاحبہ، سچ! میری یہ تمنا کیا واقعی پوری ہوسکتی ہے؟ میرا لباس، میرا حلیہ اور اتنی شاندار کوٹھی … اور … مجھے وہ ماحول کیسے برداشت کرسکتا ہے؟‘‘
’’ایسا مت سوچو، ہم وعدہ کرتے ہیں، بس تم دعا کرو۔‘‘
اور وہ مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ باہر نکل گئی تھی۔
اگلے دن آپریشن تھا۔ ایک گردہ بالکل ناکارہ ہوچکا تھا۔ اسے نکال لینا تھا اور ابھی تک نئے گردے کا انتظام نہ ہوسکا تھا، اس لیے یہی فیصلہ ہوا تھا کہ فی الحال ایک گردہ سے ہی کام لیا جایا کرے گا۔ اور اگر کوئی بہتر ذریعہ پیدا ہوگیا تو پھر دوسرا آپریشن کراکر نیا گردہ لگادیا جائے گا۔
آپریشن کے وقت رجی بار بار چکر لگاتی رہی تھی۔ سب کے سامنے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتی رہی تھی۔ گڑگڑاتی رہی تھی۔ اپنا سارا کام چھوڑ کر ہمارے قریب ہی رہی تھی …
تیسرے دن میری طبیعت بحال ہوئی تھی۔ آپریشن کامیاب رہا تھا۔ صدقہ اتارا گیا تھا۔ میں نے شام کے قریب سب عزیزوں کے جانے کے بعد نظریں بار بار گھما کر جب رجی کو نہ دیکھا تو بے چینی سی محسوس کرتے ہوئے بیگم کو قریب بلالیا۔ میرا بڑا بیٹا بھی پائنتی کی طرف بیٹھ گیا اور بیٹی سرہانے کی طرف آکر مجھ پر ذرا سی جھک گئی تھی۔ میں نے دھیمے لہجے میں کہا:
’’خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے رجی کی آرزو پوری کرنے کے لیے نئی زندگی دی ہے۔‘‘
میری بیٹی نشاط ذرا اور جھک کر بولی:
’’ابو جان! جس وقت آپریشن کہ بعد آپ کو کمرہ میں لایا گیا تھا تو رجی میرے قریب آگئی تھی۔ میں نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا تھا اور اس سے اس کی زندگی کے حالات معلوم کرنے لگی تھی۔ وہ بے حد خوش تھی۔ آپ کے لیے اس کا ہر سانس دعا بن گیا تھا۔ پھر اس نے اپنی دکھ بھری زندگی کی ایک جھلک دکھائی تھی۔ وہ اپنے دادا کے ہمراہ بنگلہ دیش سے بھاگ کر یہاں پہنچی تھی۔ وہ آزادی سے پہلے بہار کے ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ اس کی پیدائش ڈھاکہ کے قریب ہوئی تھی۔ اس کا باپ سقوط ڈھاکہ کے دنوں میں مارا گیا تھا۔ اس کی ماں بیمار رہتی تھی اور ہر وقت اپنے وطن آنے کے لیے آہیں بھرتی رہتی تھی۔ اس کی موت کے بعد اس کا دادا کریم میاں اسے اپنے وطن لانے کے لیے بے قرار ہوگیا تھا۔ یہ ابھی چھوٹی تھی۔ اور دادا کے کندھوں پر بیٹھ کر فاصلہ طے کرتی رہی تھی۔ بڑی مشکل سے یہ یہاں اپنے وطن میں آئے تھے۔ یہاں پر بابا غنی نے انہیں پناہ دی تھی۔ دادا کی وفات کے بعد بابا غنی ہی اس کا سرپرست رہ گیا تھا، اور اس کی تگ و دو سے اس پرائیویٹ ہسپتال میں اسے ملازمت مل گئی تھی۔ اس نے اپنا ماضی بھلا دیا تھا۔ یہاں پر یہ بہت خوش تھی۔‘‘
وہ ذرا رکی تو بیگم نے بھرائی ہوئی آواز پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا:
’’میں نے اسے اپنے ہاں ملازمہ رکھنے کا فیصلہ کرلیا تھا مگر۔‘‘
وہ جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور رخ پھیر لیا تاکہ میں اس کی آنکھوں میں امڈے ہوئے آنسو نہ دیکھ سکوں۔ میری بے قراری میں اضافہ ہوگیا تھا۔ میرا بیٹا نوید رنجیدہ لہجہ میں بول پڑا۔
’’ابوجان! جس رات کو آپریشن کی وجہ سے آپ پر بے ہوشی طاری تھی، اس وقت یہاں ہسپتال میں طالب علموں کی دو پارٹیوں میں ٹکراؤ ہوگیا تھا۔ صبح کالج میں جو تصادم ہوا تھا، اس کے نتیجہ میں دونوں طرف کے کئی طالب علم زخمی ہوکر ہسپتال میں داخل ہوئے تھے۔ رات کا ٹکراؤ خطرناک ثابت ہوا تھا۔ رجی یہیں دروازہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، ایکدم اٹھ کر وہ برآمدہ میں آگئی، اور پھر اس کی چیخ نے سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
’’پھر … پھر کیا ہوا؟‘‘ میرا اضطراب بڑھ گیا تھا۔
بیگم نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا: ’’پھر طالب علموں کے جنون نے اس کی زندگی ختم کردی تھی۔‘‘
او ر مجھے یوں محسوس ہوا تھا، جیسے میرے زخم کے ٹانکے ٹوٹ گئے ہوں۔