مسجدِ اقصیٰ صہیونی سازشوں کے گھیرے میں

شمشاد حسین فلاحی

مسجدِ اقصیٰ، مسلمانوں کے قبلۂ اول کو اس وقت صہیونی طاقتوں سے زبردست خطرہ لاحق ہے۔ اور اندیشہ ہے کہ مغربی استعمار کے تعاون سے کہیںوہ بھی بابری مسجد کی طرح صفحۂ ہستی سے نہ مٹادی جائے اور دنیا کے ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں اور درجنوں مسلم ممالک کی ذلت و پستی اور بے چارگی میں ایک اور افسوسناک باب کا اضافہ ہوجائے۔ شرمناک بات یہ ہے کہ عالمی برادری اس سنگین موڑ پر اپنی زبان آنکپ اور کان بند کیے بیٹھی ہے۔ بعض عرب ملکوں کے سوا کسی بھی ملک نے اسرائیلی حکومت کو توجہ دلانے کی بھی زحمت نہیں کی ہے۔

گذشتہ کئی دنوں سے مسجد کے قریب مغربی دروازہ کے بائیں کھدائی کا عمل جاری ہے اور بلڈوزر اپنا کام کرنے میں مصروف ہیں۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتے بلکہ یہودی عبادت گاہ جسے ’’دیوار گریہ‘‘ کہا جاتا ہے اسے مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ مسجد اقصیٰ کی جگہ ’’ہیکل سلیمانی‘‘ کی تعمیر یہود کا صدیوں پرانا خواب اور وہ مشن ہے جس کے لیے حالات سازگار بنانے کی مسلسل جدوجہد ہورہی ہے۔ اس سے قبل جنگی مجرم ائیریل شیرون وزیر اعظم بننے کے فوراً بعد ۲۰۰۰ میں سینکڑوں فوجیوں کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا تھا جس کے خلاف انتفاضہ دوم کا آغاز ہوگیا تھا اور احتجاجی مظاہرے میں اسرائیلی دہشت گردوں نے نہتے مسلمانوں پر گولیوں کی برسات کردی اور متعدد افراد جاں بحق ہوئے تھے تب جاکر عالمی برادری کی کان پر جوں رینگی تھی۔

مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں کا وہ دینی اور مذہبی مقام ہے جہاں سے ان کی وابستگی اسلام اور اس کے رسول کی بنیاد پر ہے۔ خانۂ کعبہ سے پہلے مسلمان مسجدِ اقصیٰ ہی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے یعنی وہ اہلِ اسلام کا نقطۂ اتحاد ہے۔ سفر معراج کے موقع پر اللہ کے رسولؐ کی روانگی اسی مقام سے ہوئی اور یہیں آپؐ نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ قرآن کریم میں اس مسجد کی عظمت و برکت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔

سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ الذی بارکنا حولہ۔

’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گئی۔ وہ مسجد اقصیٰ جس کے آس پاس اللہ تعالیٰ نے برکت نازل فرمائی۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے اسی فیض و برکت سے یہ خطۂ زمین آج بھی سونا اگلتا اور نعمتوں سے مالا مال ہے۔ اور اسی برکت ایزدی اور فیضانِ رحمت کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی نعمتوں کا لالچ یہود کو اس پاک سرزمین پر قبضہ کرنے کا موجب بنا۔

مسجدِ اقصیٰ کو درپیش یہ خطرہ اگرچہ بڑا زبردست ہے اور صہیونی مکاریاں اس کے انہدام کے لیے کمربستہ ہیں، ان کے تمام تر دعوے اور وعدے اس لیے ناقابل اعتبار ہیں کہ گذشتہ دہوں میں وہ مسلسل اس مسجد مبارک کی حرمت اور تقدس کو نہ صرف پامال کرتے رہے ہیں بلکہ اس کی عمارت کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

عربی رسائل و جرائد میں گذشتہ دس سالوں کے درمیان اس بات کی مسلسل خبریں مقامی عینی شاہدین کے حوالے سے شائع ہوتی رہی ہیں کہ یہود نے مسجد اقصیٰ کی بنیاد وں کو کھوکھلا کردیا ہے۔اس کے نیچے گہری اور وسیع سرنگیں کھود ڈالی ہیں اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ وہ عمارت کسی معمولی مصنوعی زلزلہ یا بم دھماکہ سے بھی زمین بوس ہوسکتی ہے۔ اس کے پیچھے ان کی یہ سازش ہے کہ وہ خود مسجد کو ڈھانے کے جرم کا ارتکاب دنیا کی نظر میں کرنے سے بچ جائیں اور وہ کسی حادثہ سے خود ہی زمیں بوس ہوجائے اور پھر اس پر اپنی مزعومہ عمارت تعمیر کرسکیں۔

جہاں تک طاقت و قوت کا سوال ہے تو وہ یہودی ریاست کے پاس موجود ہے ہی اور پورے شہر قدس پر (بہ شمول مسجد اقصیٰ کے احاطے کے) اس کا قبضہ اور کنٹرول ہے۔ کوئی نمازی اور آنے جانے والا ان کی اجازت کے بغیر مسجد میں داخل نہیں ہوسکتا۔ مسجد اقصیٰ سے ۲۰ کلو میٹر پہلے ہی سے رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں اور آدھے گھنٹے کا فاصلہ پندرہ بیس گھنٹے میں طے پاتا ہے تاکہ کم سے کم نمازی اور زائرین مسجدِ اقصیٰ تک پہنچ سکیں۔

چنانچہ مغربی دروازہ اور اس سے متصل دو کمروں کے انہدام کے خلاف جب فلسطین کے اسلامی رہنماؤں، سیاسی لیڈروں اور اداروں نے جب گذشتہ جمعرات کو جمعہ کی نماز مسجد اقصیٰ میں بڑی تعداد میں پڑھتے اور اس سازش کے خلاف احتجاج کی اپیل کی تو یہودی فوجوں نے پابندی لگادی کہ ۴۵ سال سے کم عمر افراد کو مسجد میں جمعہ کی نماز کے لیے داخل ہونے کی اجازت نہ ہوگی خواہ وہ مقامی ہوں یا شہر کے باہر سے آئے ہوں۔ انھوں نے شہر کی ناکہ بندی کردی اور باہر سے آنے والے نمازیوں کو شہر میں داخل نہیں ہونے دیا۔ اس کام کے لیے انھوں نے بیس ہزار فوجی تعینات کیے اور اور تین ہزار مسلح فوجی صرف مسجد کے احاطہ میں موجود تھے۔

بہ تاریخ ۹؍فروری کو جمعہ کی نماز کے بعد جب نمازیوں نے اس انہدامی کارروائی کے خلاف احتجاج کیا تو یہودی فوجوں نے نہتے نمازیوں پر گرینیڈ فائرنگ، آنسو گیس کا استعمال اور لاٹھی چارج کیا جس میں درجنوں نمازی زخمی ہوگئے۔

اسرائیل کی اس مجرمانہ کارروائی اور پرانی تاریخ واقعات سے فلسطینیوں اور عالم اسلام کے قائدین کا یہ اندیشہ بجا ہے کہ اس کا یہ قدم مسجدِ اقصیٰ کی مسماری کی طرف ایک اور پیش رفت ہے۔ چنانچہ فلسطین کے چیف جسٹس، الازہر کے شیخ الجامعہ اور وزیر اعظم فلسطین نے عالمی برادری سے اسرائیل کو اس گھناؤنی کارروائی سے باز رکھنے کے لیے کوشش کرنے کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے عوام سے یہ بھی اپیل کی ہے کہ وہ انہدامی کارروائی کے بلڈوزروں کا مقابلہ کریں۔

ادھر اسرائیلی وزیر اعظم اولمرٹ نے ہمیشہ کی طرح انتباہوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے بلکہ خود اپنے وزیر دفاع کی کارروائی روکنے کی اپیل کو ٹھکراکر پوری ہٹ دھرمی سے کارروائی جاری رکھنے کا اعلان کردیا ہے۔اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کو نہ عالمی برادری کی پرواہ پہلے تھی اورنہ اب ہے اور یہ کہ وہ ہر قیمت پر ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امن مذاکرات اورمشرق وسطیٰ میں امن کی باتیں صرف وہ کریں جنھیں امن کی ضرورت ہو۔ اسرائیل کو امن کی ضرورت نہیں تو پھر وہ کیوں عالمی برادری کی اپیلوں، اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور معاہدوں کی پرواہ کرے۔

دراصل یہ وقت عالمی برادری کے امتحان کا ہے۔ حقوق انسانی، اس جیسے نعرے لگانے والے عالمی اداروں کا بھی امتحان ہے۔ دنیا میں کہیں بھی قیام امن کی گفتگو اسی وقت معنی خیز ہوگی جب عالمی ادارے اسرائیل کی مجرمانہ سرگرمیوں کو روکنے میں کامیاب ہوں گے۔ اس دہشت گردانہ کارروائی کو روکنے میں ناکام ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والی ہر طرح کے ردعمل کی ذمہ داری اسرائیل، امریکہ عالمی اداروں اور اس عالمی برادری پر عائد ہوگی۔ عالم عرب اور عالم اسلامی کی بے چارگی کے تماش بیں بنے ہوئے ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146