میں تنہا چلتی جارہی تھی، کوئی منزل نہ تھی، مگر میں چلتی ہی جارہی تھی۔ نہ جانے کیوں نہ تو میرا پاؤں دکھ رہا تھا اور نہ ہی وہ راستہ ختم ہورہا تھا۔ رفتہ رفتہ وہ راستہ ہرا بھرا ہوتا گیا اور میں چلتی چلی گئی۔ تھوڑی دور چل کر مجھ کو اندازہ ہوا کہ میں کسی خوبصورت باغ میں ہوں۔ یہ جگہ مجھ کو بہت اچھی لگ رہی تھی کیوں کہ میرے چاروں طرف ہر طرح کے پھلوں سے لدے پیڑ تھے اور زمین میں خوبصورت پھول بکھرے ہوئے تھے۔ یہ اتنی حسین جگہ تھی کہ جیسے میں جنت میں کھڑی ہوں۔ ابھی میں اس زمین کو جنت ہی محسوس کررہی تھی کہ ایک میٹھی سی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ میں نے حیر ت سے پلٹ کر دیکھا تو یہ کون تھی جو مجھے وہاں دیکھ کر خوشی میں مست ہوکرسریلا گیت گانے لگی۔ میں بہت خوش تھی یہ ماحول ہی ایسا تھا۔ میں یہاں آتو گئی مگر اب جانے کا جی نہیں چاہ رہا تھا۔ کیوں کہ یہ سب بہت ہی اچھا اور بہت ہی خوبصورت تھا۔ میں نے چند قدم اور آگے بڑھائے اور پھر میں نے اپنے سامنے وہ حسین پہاڑیاں پائیں جن کے نیچے سے نہر بہہ رہی تھی۔ میں اس نہر کے پاس گئی اور اس کے ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈال کر بیٹھ گئی کہ اچانک مجھے لگا کہ میرے پیچھے کوئی ہے۔ میںنے مڑ کر دیکھا تو ایک پری کھڑی تھی۔ جو مجھے دیکھتے ہی بولی کہ ’’ہم سب یہاں پر آپ کا استقبال کرتے ہیں۔‘‘
’’آپ آدم زاد ہیں اور ہم پری، آپ کو اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ مگر آدم زاد نے ہم غیر انسانوں کو بہت تکلیف دی ہے۔ انھوں نے ہمارے لیے کوئی ایسی جگہ نہ چھوڑی جہاں ہم رہ سکیںاسی لیے ہم نے خوابوں کی وادی میں ایسا باغ بنایا جہاں پر انسانوں کے سوا ہر مخلوق رہتی ہے۔ اور اپنے رب کا شکر ادا کرتی ہے۔ ہم آپس میں کبھی نہیں لڑتے نہ ہم نے کوئی ہتھیار بنایا ہے۔ ہم بہت ہی امن اور سکون سے یہاں رہتے ہیں۔ ہم کو تو انسانوں نے اللہ کی زمین سے نکال دیا اور ہم وہاں سے خاموشی کے ساتھ چلے آئے مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان آدم زادوں میں بہت سے سادہ مزاج اور اچھے انسان بھی رہتے ہیں جو کہ امن کے خواہش مند ہیں اور اسی اللہ کو مانتے ہیں جس نے ان کو پیدا کیا۔ ہم ایسے نیک انسان کو اپنا گھر، باغ اور خوابوں کی وادی میں ضرور گھماتے ہیں، پھر اس پری نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک طرف مجھ کو ساتھ لے کر چلنے لگی۔
پری مجھ سے پورے راستے بات کرتی گئی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ ’’انسانوں نے ہمارے رہنے کے لیے کوئی جگہ نہ چھوڑی۔ سارے پیڑ کاٹ ڈالے اور پھول اور پھلوں کو ختم کردیا، بیماریاں بڑھادیں، ہری بھری جگہ میں آگ لگادی، دریا کاپانی سرخ کردیا، آسمانوں میں چھید کردیا اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں میں خلل ڈال دیا تو بھلا ہم پری، جانور، چرند، پرند کہاں رہتے کیا کھاتے، کیا پیتے؟ ہمارے لیے تو سانس لینا بھی دشوار ہوگیا تھا۔ تو ہم نے اللہ سے اس خوابوں کی وادی کو طلب کیا جہاں صرف اور صرف سکون ہے، کوئی آدم زاد نہیں۔ مگر پھر بھی کچھ برے خیال آدم زاد یہاں آجاتے ہیں تو ہم سب مل کر ان سے لڑائی کرتے ہیں جن سے ان کا کافی نقصان ہوتا ہے اور جو نیک صفت انسان آتے ہیں جو کہ یہاں کا رنگ ڈھنگ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں تو ہم ان کو اپنی رانی کے پاس لے جاتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ ایک محل میں داخل ہوئی اور میں بھی اس کے ساتھ تھی۔
اب میں خوابوں کی وادی کی رانی کے پاس کھڑی تھی۔ اس رانی کو میں نے سلام کیا اور اس نے میرے سلام کا جواب دیا۔ پھر اس نے پھل اور پھول مجھ کو تحفہ میں دئیے اور ساتھ ہی ایک نصیحت بھی کی کہ ’’اے آدم زاد! آپ ہماری اس وادی میں آئیں، آپ کے ہم شکر گزار ہیں۔ آپ نے ہمارے ماحول کوپسند کیا بہت بہت شکریہ، مگر ہماری آپ سے ایک التجا ہے کہ آپ واپس اپنی دنیا میں جاکر اس خوابوں کی وادی کا ذکر کسی بھی آدم زاد سے نہیں کریں گی۔ چونکہ ابھی تک یہاں صرف نیک انسان ہی آسکے ہیں اور جو برے انسان برے خیالات لے کر یہاں آئے ہم نے ان کو ختم کردیا مگر ہم کو ڈر ہے کہ اگر یہ آدم زاد اسی طرح ہمارے خوابوں کی وادی میں آتے رہے تو یہ خوابوں کی وادی بھی بہت جلد تباہ و برباد ہوجائے گی۔ میں نے ان سے کہا کہ ’’میں کوشش ضرور کروں گی مگر وعدہ نہیں کرسکتی۔ ‘‘یہ کہہ کر میں نے ان پریوں اور غیر انسانوں سے اجازت طلب کی اور ان کو الوداع کہا اور ایک قدم پیچھے ہوتے ہوئے میں اپنی ایڑیوں کے بل گھوم گئی کہ اچانک میرا سر زمین سے ٹکرایا اور میں ہوش میں آگئی۔ میرے سامنے میری چھوٹی بہن کھڑی تھی اور مجھ پر ہنس رہی تھی۔ چونکہ میں سوتے سوتے زمین پر گر پڑی تھی۔ مجھے گرے ہوئے دیکھ کر وہ مجھ سے بولی کہ:
’’آپی آپ خوابوں کی وادی میں نہیں بلکہ اللہ کی زمین پر ہیںیہ کہہ کر وہ ہنستی ہوئی چلی گئی۔ اور میں واپس اپنے بستر میں چلی گئی۔ مگر آج بھی اس خواب کو یاد کرکے میں مسرور ہوجاتی ہوں اور یہ خیال بھی اکثر آتا ہے کہ ’’کاش! میرا وہ خواب کبھی نہ ٹوٹتا۔‘‘