ایک اخلاقی برائی
شبینہ اقلیم فلاحی
یایہا الذین آمنوا لا یسخر قوم من قوم الخ…
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے۔‘‘
ان آیتوں میں اہل ایمان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ دین کے مقدس ترین رشتہ کی بنا پر ان میں جو بھائی چارہ ہے اسے قائم رکھنے اور آپس کے تعلقات کو درست رکھنے کے لیے ان برائیوں کو مٹا دینا چاہیے جو معاشرے میں بالعموم لوگوں کے باہمی تعلقات کو ختم کردیتی ہیں۔
ایک دوسرے کی عزت پر حملہ، ایک دوسرے کی دل آزاری، ایک دوسرے سے بدگمانی اور ایک دوسرے کے عیوب کا تجسس، درحقیقت یہی وہ اسباب ہیں جن سے آپس کی عداوتیں اور نفرتیں پیدا ہوتی ہیں اور پھردوسرے اسباب کے ساتھ مل کر ان سے بڑے بڑے فتنے رونما ہوتے ہیں۔ یہ برائیاں جن کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں مذاق اڑانا بھی شامل ہے۔ اس سے مرادصرف زبان ہی سے مذاق اڑانا نہیں،بلکہ کسی کی نقل اتارنا، اس کی طرف اشارے کرنا، اس کی بات پر یا اس کے کام یا اس کی صورت یا اس کے لباس پر ہنسنا، یا اس کے کسی عیب کی طرف لوگوں کو اس طرح متوجہ کرنا کہ دوسرے اس پر ہنسیں یہ سب بھی مذاق میں داخل ہے۔
قابل غور ہے کہ ان برائیوں کو جن کو عام طور پر ہم کم درجہ کی برائی تصور کرتے ہیں، یا سرے سے برا سمجھتے ہی نہیں انہیں یہاں ایمان لانے کے بعد فسق میں مبتلا ہونا تصور کیا گیا ہے۔ اور فاسق کون ہے یہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔