ٹکٹ کلکٹر: تمہاری عمر کتنی ہے؟
لڑکا: گاڑی میں تین سال، اسکول میں چار سال اور گھر میں پانچ سال۔
٭٭٭
استاد: منصور! درد ناک کے کیا معنی ہیں؟ شاگرد: جس کی ناک میں درد ہو۔
٭٭٭
استاد: ایم بی بی ایس کا کیا مطلب ہے؟ شاگرد: میاں بیوی بچے سمیت۔
٭٭٭
ایک باپ نے بیٹے سے کہا: ہم اور تمہاری امی باہر جارہے ہیں اگر کوئی آئے تو اس سے میٹھی میٹھی باتیں کرنا۔ باپ کے جانے کے بعد کچھ مہمان آئے۔
مہمان: تمہارے ابو کا نام؟
بچہ: گلاب جامن۔
مہمان: اور امی کا نام؟
بچہ: جلیبی۔
مہمان: تمہارے ابوکہاں پیدا ہوئے؟
بچہ: جی مٹھائی کے ڈبے میں۔
٭٭٭
ملا نصیر الدین کے ایک دوست نے ان سے پوچھا: آپ نے جوتوں کے سامنے نشان کیوں لگا رکھا ہے؟
’’تاکہ مجھے یاد رہے کہ جوتے پہنتے وقت پاؤں کی انگلیاں سامنے کی جانب ہونی چاہئیں۔‘‘ انھوں نے اطمینان سے جواب دیا۔
٭٭٭
ایک صاحب دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس پہنچے اور بولے: ڈاکٹر صاحب کہاں ہیں؟
وہ یہاں نہیں ہیں۔ اس وقت وہ کہیں گئے ہوئے ہیں۔ میں ان کا معاون ہوں۔ فرمائیے آپ کی کیا خدمت کی جائے۔ کمپاؤنڈر نے جواب دیا۔
میں ان کا عزیز دوست ہوں۔میں آنکھوں کا ڈاکٹر ہوں۔ میرے دانتوں میں درد تھا اس لیے یہاں چلا آیا۔ وہ کب تک آئیں گے۔ انھوں نے تفصیلات بتلائیں۔
مجھے پتہ نہیں، ان کی آنکھوں میں شدید درد تھا۔ وہ آپ کے یہاں دوا لینے گئے ہیں۔ کمپاؤنڈر نے اطمینان دلایا۔
٭٭٭
رشید: ارے حمید اتنی تیزی سے کہاں بھاگے جارہے ہو؟
حمید: دراصل مجھے نو بجے والی ٹرین پکڑنی ہے۔
رشید: ابھی تو صرف آٹھ بجے ہیں۔ پھر اتنی جلدی کیوں ہے؟
حمید: مجھے معلوم ہے۔ یہی خبر لینے والے تم جیسے ابھی کئی دوسرے بھی ملیں گے۔
٭٭٭
یونین لیڈر تقریر کرتے ہوئے کہہ رہا تھا: آج ہم آزاد ہیں۔ تمام مزدوروں کو ان کا حق ملنا چاہیے۔ جس چیز کی تمہیں ضرورت ہو اسے لے لو۔ اگر سردی کا احساس ہوتو دکان کا سب سے بہترین سوٹ لے لو۔ بھوک لگے تو ہوٹل پر دھاوا بول دو۔ تقریر کے اختتام پر جب وہ نیچے اتراتو زور سے چیخا: ارے میری سائیکل کون لے گیا۔
٭٭٭
مریض: (ڈاکٹر سے) مجھے ایک عجیب و غریب بیماری ہوگئی ہے۔ روزانہ میں خواب میں یہی دیکھتا ہوں کہ ریس کا گھوڑا بن گیا ہوں۔
ڈاکٹر: ٹھیک ہے۔ آج رات سونے سے پہلے یہ دو گولیاں کھالینا۔ ایسے خواب بند ہوجائیں گے۔
مریض: آج کے بجائے اگر میں کل رات کو یہ گولیاں کھاؤں تو کیسا رہے گا؟
ڈاکٹر: آج کیا مسئلہ ہے؟
مریض: دراصل آج رات مجھے فائنل میچ میں دوڑنا ہے۔
٭٭٭
دو دوست ایک کشتی میں سوار تھے۔ ایک نے دوسرے کہا : یار یہ کشتی ڈگمگا رہی ہے۔
ڈگمگانے دو ملاح نے کرایہ بھی خاصا وصول کیا ہے۔ اب اسے اس کی سزا بھی مل جائے گی۔
٭٭٭
پاگل خانہ میں تین پاگل محوِ گفتگو تھے۔ پہلا: میں یہاں کا بادشاہ ہوں۔
دوسرا: یہ تم سے کس نے کہا؟
پہلا: مجھے خدا نے یہ بات بتلائی تھی۔
تیسرا: یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا تھا۔
٭٭٭
انور: (منور سے) عجیب مسئلہ ہے مجھے خوابوں میں تقریر کرنے کی عادت پڑگئی ہے۔
منور: یہ تو اچھی بات ہے۔ تمہاری پریکٹس بھی ہوجائے گی۔
انور: خاک پریکٹس ہوگی۔ تقریر شروع کرتے ہی جوتے چپل اور پتھر برسنے لگتے ہیں تو میری نیند ہی ٹوٹ جاتی ہے۔
٭٭٭
گوالے نے نیا اسکوٹر دیکھ کر اپنے پڑوسی ساجد صاحب سے کہا: ’’مٹھائی کھلائیے۔ آپ نے نیا اسکوٹر خریدا ہے۔‘‘
’’جب تم نے نئی گائے خریدی تھی تو مٹھائی کھلائی تھی۔‘‘ ساجد صاحب نے الٹا اسی سے سوال کردیا۔
’’جی! مجھے گائے کی سواری تھوڑے ہی کرنی تھی۔‘‘ گوالا بولا۔
’’مجھے بھی کہاں اپنے اسکوٹر سے دودھ نکالنا ہے۔‘‘ ساجد صاحب نے اطمینان سے جواب دیا۔
٭٭٭
آفاق ہاتھ سے دانہ پھینکنے کی اداکاری کررہا تھا۔ تبھی اس کے دوست مشتاق نے پوچھا: یہ تم کیا کررہے ہو؟
آفاق: چڑیا کو دانا کھلا رہا ہوں۔
مشتاق: مگر تمہارے پاس تو دانے ہی نہیں ہیں۔
آفاق: میرے پاس تو چڑیا بھی نہیں ہے۔