بچے چھوٹے ہوں تو اکثر نماز کے وقت والد یا والدہ کے ساتھ آکر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اپنی سمجھ کے مطابق چھوٹے چھوٹے ایکشن کرتے ہیں۔کبھی تو اپنے کھلونوں کی بھی جماعت کرواتے ہیں۔یہ منظر دل کو کتنا بھلا لگتا ہے۔لیکن جوں جوں بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں تو نماز سے بے رغبت اور لاپرواہ نظر آتے ہیں۔ٹین ایج تک پہنچنے تک یہ ایک مستقل صورت اختیار کر جاتی ہے کہ وہ بچے پہلے بہت کہنا ماننے والے تھے، لیکن اب بدل گئے ہیں۔ دن رات مائیں نماز کے لئے کہہ کہہ کر تھک جاتی ہیں۔آئیے کچھ نکات اس حوالے سے آپ کے سامنے رکھوں جو ہر عمر کے بچوں کے لئے ہیں۔
والدین کو تربیت کے لئے ہر مرحلے پر یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر بچوں کو نیک پروان چڑھانا چاہتے ہیں توخود نیکی پر قائم رہنا ضروری ہے۔ نیکی کی طرف راغب ہونا خود بھی تاکہ بچوں کو بھی اس راہ پہ لگایا جا سکے۔ نیکی کا مجموعی ماحول فراہم کرنا اور اس کی کوشش کرنا بھی والدین کے ذمہ ہے۔ہم یہ امید نہیں کر سکتے کہ خود تو ہم نیکی کے حریص نہ ہوں اور ہماری اولاد نیکی کے لئے کوشاں ہو۔الا ماشااللہ !
اس کی بہترین مثال ہمیں سورہ کہف میں حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام کی گفتگو میں ملتی ہے جس میں وہ ایک گرتی ہوئی دیوار کی تعمیر صرف اس لیے کرتے ہیں کہ ان یتیم لڑکوں کا والد نیک شخص تھا۔
اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ والدین کی نیکی آخرت میں باعث اجر تو ہے ہی دنیا میں بھی اللہ تعالی اس کے ثمر ات دکھاتے ہیں۔
بچوں کو ہوش سنبھالنے کے ساتھ ہی اللہ تعالی کی ذات کا شعور کروائیں کہ اللہ تعالی بہت رحیم بھی ہے اور کریم بھی اور ساتھ ہی ساتھ وہ سمیع و بصیر بھی۔اطاعت کے دو محرکات ہوتے ہیں ایک محبت اور دوسرا خوف۔بچے والدین کی اطاعت انہیں محرکات کے نتیجے میں کرتے ہیں مثلا والدہ سے زیادہ قریب ہوتے ہیں کیونکہ وہ سراپا محبت ہے اور والد کے رعب میں ہوتے ہیں کیونکہ ڈر کا محرک شامل ہوتا ہے اسی طرح خود سے زیادہ اللہ کی ذاتی صفات متعارف کروایا جائے اور عمر کے کسی بھی حصے میں ہو اللہ کی محبت اور خوف دونوں ہی محرکات ان کی بہترین نگہداشت کریں گے۔
اگر والدین یا کوئی دیکھنے والا نہ بھی موجود ہو لیکن اللہ تو ضرور دیکھنے والا ساتھ موجود ہے۔ جیسے آجکل سی سی ٹی وی کیمرے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں اور ہمیں نظر آتے ہیں لیکن ایک خاص بات نوٹ کرنے کی ہے کہ ان کے نیچے موٹے حروف میں لکھا ہوتا ہے کہ کیمرے کی آنکھ ہمیں دیکھ رہی ہے۔بالکل اسی طرح اللہ کی ذات کا شعور کہ وہ دیکھ رہا ہے اس کی یاد دہانی ہر عمر میں ضروری ہے۔
تھکے بنا اور مایوس ہوئے بغیر یاد دہانی ضروری ہے۔ جیسے سورہ العصر میں نیکی کی تلقین اور صبر کی تاکید اہل ایمان کے لئے ضروری ہے۔ترمذی کی حدیث 407 ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سات سال کی عمر سے بچے کو نماز کی تلقین کرنی اور دکھانی چاھیے اور دس سال میں اگر وہ نہ پڑھے تو نہ پڑھنے پر اس کو سزا دینی چاہیے۔‘‘
یعنی سات سال سمجھ کی عمر شروع ہو جاتی ہے اور بچے کی یاد داشت بہترین ہوتی ہے ۔ڈسپلن اورتہذیب بھی ہم اسی یا اس سے بہت پہلے سے سکھانے شروع کرتے ہیں۔
خود اپنے ساتھ نماز میں ساتھ کھڑا کریں۔کبھی بچوں کی باجماعت نماز کروائیں۔بڑے بہن بھائیوں کو ٹاسک دیں کے چھوٹوں کو وضو کرنا سکھائیں۔ والد کے ہمراہ مسجد بھجوائیں۔باہمی ہم آہنگی سے والدین میں یہ بات طے ہو کہ بچوں کو یاد دہانی اور عملی اقدامات کرنے ہیں۔خود بھی اول وقت میں نماز ادا کریں تاکہ بچے بھی یہ دیکھیں کہ نماز کا وقت ہوتے ہی والدہ سب کام چھوڑ کر پہلے نماز پڑھتی ہیں۔
روٹین کے علاوہ دن میں ایک خاص وقت اجتماع اہل خانہ کے لئے ہو جس میں قرآن ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھا جائے اس پر ڈسکشن اور حاصل مطالعہ بچوں کے ساتھ شئیر کیا جائے۔اسی طرح قرآن کی تلاوت کے لئے وقت مختص کیا جائے اور گھر میں تلاوت لگائی جائے اپنے پسندیدہ قاری کی آواز،میں یہ کام بچے بخوبی کر سکتے ہیں۔
اگربچےٹین ایج میں پہنچ گئے اور بچوں کو نماز سکھانے کا وقت گزر گیا اور عملی اقدامات نہیں کئے گئے تب بھی اللہ کہ رحمت سے مایوس نہ ہوں۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو سب سے کم عمر یعنی 13 برس میں ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا۔یہ وہ عمر ہے جس میں لا ابالی پن تو ہوتا ہے لیکن منطق کے ساتھ قبولیت اور اور استقامت بھی ہوتی ہے۔
اس عمر میں بچوں کو ڈانٹ کے بجائےنرمی اور دلائل کے ساتھ سمجھایا جائے۔یہ وہ عمر ہے کہ جب بچے کو اللہ کے خوف کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی باور کرانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ نماز کو ترک کرنے کے کیا نقصانات اور کیا سزائیں ہیں اور دوسری صورت میں اگر ہم نماز کی پابندی کرتے ہیں تو اللہ ہمیں کن انعامات اور فضل و کرم سے نوازتاہے۔ سیرتو ں اور احادیث کا مطالعہ کروایا جائے۔
گھر میں نماز سے متعلق احادیث آویزاں کی جائیں۔ نماز کا وقت ہوتے ہی گھر کے سب کام چھوڑ کر لڑکوں سے باجماعت نماز ادا کروائی جائے۔
یاد رکھیں کوشش غفلت کو ختم کرتی ہے۔اللہ کو مطلوب بھی بندے کی کوشش ہے ۔دلوں کو نیکی پہ مائل کرنا اللہ کے ذمہ ہے اور اللہ کسی کی کوشش ضائع نہیں فرماتا۔