ایک فرضی کہانی

محمد عامر رانا

یہ ایک چھوٹی سی کہانی ہے، جو ممتحن کو دھوکا دینے کے لیے تیارکی گئی تھی۔ ہوا یوں کہ میٹرک کے اردو کے پرچے میں ایک کہانی لکھنی تھی مگر جو کہانیاں اس نے یاد کی تھیں ان میں سے ایک بھی پرچے میں نہیں آئی۔ سب سے پہلے تو اس نے ساراپرچہ حل کرلیا کہ کہیں اس کہانی کی وجہ سے جو اسے نہیں آتی، باقی سوال غلط نہ ہوجائیں۔ کافی دیر وہ ادھر ادھر نگاہ دوڑاتا رہا۔ شاید کہیں آگے پیچھے کسی نے یہ کہانی لکھی ہو اور وہ اس کی نقل کرلے، مگر کوئی بھی وہ کہانی نہیں لکھ رہا تھا، شاید سب پہلے یہ کہانی لکھ چکے تھے اور دوسرے سوالوں کے جواب لکھ رہے تھے۔ کافی دیر پریشان رہنے اور سوچنے کے بعد اس نے سوچا خود ہی ایسی کہانی تخلیق کی جائے، زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا نصابی کہانیوں کا مارا ہوا ممتحن اسے کاٹ دے گا اور اس پرانڈا بنادے گا۔ شاید کچھ نمبر دے بھی دے، یہ سمجھ کر کہ اس نے یہ کہانی نہیں پڑھی ہوگی اور اس طرح میری دھاک بھی اس پر بیٹھ جائے گی۔ تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد اس نے کہانی شروع کی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے، ایک ملک تھا اور ایک تھا بادشاہ۔ ملک بادشاہ کا تھا اور وہ اس پرحکومت کرتا تھا۔ اس کے ملک میں عوام بھی تھے، جو بادشاہ کا حکم مانتے تھے کیونکہ اس کا رعب اور دبدبہ بہت تھا۔ کوئی اس کی حکم عدولی نہیں کرسکتا تھا۔ جب وہ خیالی لباس پہن کر عوام کو دیدار کروانے کے لیے نکلتا تو کسی بچے میں اتنی ہمت نہ ہوتی کہ اس کے خیالی لباس پر حیران ہوکر اپنی ماں کو بتاسکے، نہیں اس نے تو کپڑے پہنے ہی نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیںکہ وہ ظالم تھا، بالکل نہیں، وہ تو انصاف کے سارے تقاضے پورے کرتا تھا اور تاریخ دانوں نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے زیادہ انصاف پسند بادشاہ آج تک کوئی نہیں گزرا۔
اس ملک میں ایک شہزادہ بھی تھا، جو بادشاہ کا بیٹا تھا۔ شہزادہ عام شہزادوں کی طرح کا نہیں تھا، جیسا کہ کتابوں میں ذکر ملتا ہے کہ وہ بڑا شہ زور ہو، علوم و فنون کا ماہر ہو، نہ وہ عام شہزادوں کی طرح خوبصورت تھا۔ شہزادہ منفرد اور محبت کرنے والا تھا۔ اس کا بیشتر وقت زنان خانے میں گزرتا تھا۔ جو وقت بچتا تھا سیر کے لیے نکل جاتا تھا۔ ایک دن وہ سیر کے لیے نکلا تو بگھی بان سے کہا کہ آج ہمیں کسی گاؤں میں لے چلو۔جب وہ ایک گاؤں میں داخل ہوئے تو شہزادے نے سوچا کہ یہ جگہ تو شکار کھیلنے کے لیے بہت مناسب ہے۔ اس کی خواہش کے احترام میں تیر کمان فوری طور پر اسے مہیا کردی گئی۔ گاؤں میں کبھی کبھار سور آجاتے تھے، جو کسانوں کی فصلوں کو اجاڑ دیتے تھے اور وہاں خرگوش بھی تھے جن سے گاؤں کے بچوں کو بہت محبت تھی۔
اس کے ایک مصاحب نے کہا: ’’حضور سوروں کا شکار کھیلیں گے یا خرگوش کا۔‘‘ شہزادہ ایک دم جلال میں آگیا بولا: ’’نہیں ہم شہزادے ہیں اور شہزادے صرف ہرنوں کا شکار کھیلتے ہیں۔‘‘ مصاحب نے ڈرتے ڈرتے کہا لیکن حضور وہ تو جنگل میں ملتے ہیں اور ویسے بھی اب ہمارے ملک میں کوئی ہرن نہیں پایا جاتا۔ سارے کے سارے بادشاہ سلامت نے شکار کرلیے ہیں۔‘‘
شہزادے نے بات سنی تو سوچ میں پڑگیا۔ اچان اس کی نظر سامنے پڑی، جہاں ایک خوبصورت لڑکی کھیتوں میں کام کررہی تھی، شہزادے نے کہا: ’’تم نے تو کہا تھا ہماری مملکت میں ہرن نہیں پائے جاتے، وہ سامنے دیکھو ہرن۔‘‘ مصاحب نے ڈرتے ڈرتے کہا: ’’حضور وہ تو غریب کسان کی بیٹی ہے۔‘‘ شہزادہ پھر جلال میں آگیا : ’’بے وقوف تمہیں پتہ نہیں، ہرنوں کے روپ میں اکثر پریاں اور شہزادیاں ہوتی ہیں، جنہیں جادو کے زور سے ہرن بنادیا گیا ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کسی جادو گر نے اسے ہرن سے لڑکی بنادیا ہو، دیکھو ہم تیر چلائیں گے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور لڑکی پر تیر چلا دیا۔ پہلے دو تیر تو اس سے بہت فاصلے سے گزر گئے، تیسرا اتفاق سے لڑکی کی گردن میں پیوست ہوگیا اور وہ وہیں دم توڑ گئی۔ جب شہزادہ قریب گیا تو وہ ہرن نہیں تھا، لڑکی تھی۔
غریب کسان نے بادشاہ کے دربار میں فریاد کی تو بادشاہ ساری صورت حال سننے کے بعد گہری سوچ میں ڈوب گیا جیسا کہ انصاف پسند بادشاہوں کا قاعدہ ہے۔ کچھ دیر دربار میں خاموشی چھائی رہی۔ ایک دم بادشاہ سلامت گویا ہوئے، انصاف کا تقاضا ہے کہ ہاتھ کے بدلے ہاتھ، کان کے بدلے کان، آنکھ کے بدلے آنکھ اور جان کے بدلے جان کا اصول اختیار کیا جائے۔ شہزادہ ہمارا لخت جگر ہے تو کیا ہوا لیکن ہم انصاف کے تقاضے ضرور پورے کریں گے۔ اس لیے ہم حکم دیتے ہیں کہ شہزادے کی جان لے لی جائے۔ دربار بادشاہ کے انصاف پر عش عش کرنے لگا۔ اور کسان بھی خوشی خوشی گھر چلا گیا۔ اسی دن شہزادہ کی پسندیدہ کنیز ’’جان بیگم‘‘ کی جان جلادوں نے لے لی۔ شہزادہ جان سے بہت محبت کرتا تھا۔ جب اس نے یہ سنا تو بہت رویا پیٹا، شفقت پدری کے بھی حوالے دیے، بلکہ امی سے سفارشیں بھی کروائیں، مگر بادشاہ سلامت کے حکم کی عدولی نہ ہوسکی، بلکہ جان کی جان شہزادے کے نظروں کے سامنے لے گئی۔ اس غم میں شہزادے نے ابا حضور سے کئی دن بات نہ کی۔
نتیجہ: سچ ہے انصاف کے سامنے محبت ہیچ ہے۔
جب نمبر لگا ہوا پرچہ اس کے سامنے آیا، تو اسے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی۔ کہانی کے اسے پورے نمبر ملے تھے۔ ممتحن دھوکا کھا گیا تھا۔ بس اسی دن اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ مستقبل میں عظیم کہانی کاربنے گا۔ آج وہ عظیم کہانی کار ہے اور پڑھنے والے اسے اس کی ہر کہانی کے پورے نمبر دیتے ہیں۔

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146