گناہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی یا نبی کریم ﷺ کی مبارک سنت سے روگردانی کرنے کو کہتے ہیں۔ اس کی مثال کینسر کی مانند ہے۔ جس طرح کینسر جسم میں پھیل کر ہماری جسمانی موت کا سبب بن جاتا ہے اسی طرح اگر ہم گناہوں کو نہیں چھوڑیں گے تو وہ ہماری زندگی میں پھیلتے چلے جائیں گے، حتّٰی کہ ہماری روحانی موت کا سبب بن جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مؤمن گناہ کے قریب بھی نہیں جاتا، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ گناہ چھوٹا ہو یا بڑا، چھپا ہوا ہو یا ظاہر، یہ باطنی اعتبار سے ضرور تکلیف پہنچا کر رہے گا۔
وَذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ۔ (الانعام : ۱۲۰)
’’اور چھوڑ دو وہ سب گناہ جو تم ظاہر میں کرتے ہو اور جو باطن میں۔‘‘
سزا کی تین صورتیں
دنیا میں انسان کو گناہوں کی سزا تین صورتوں میں ملتی ہے:
(۱) فوری تنبیہ
اس میں گناہ کے فوراً بعد کوئی نہ کوئی مصیبت یا پریشانی آجاتی ہے، بالکل ایسے جیسے بچہ بدتمیزی کرے تو ماں فوراً تھپڑ ماردیتی ہے۔ یہ سب سے کم درجہ کی سزا ہوتی ہے۔ آج کل اولاد کی نافرمانی کا اصل سبب بھی یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتے ہیں تو اس کی نقد سزا ہمیں یہ ملتی ہے کہ اولاد ہماری نافرمانی کرتی ہے۔ اسی طرح گناہ کرنے سے ہمارے رزق، مال اور اولاد وغیرہ سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ اس کے برعکس جب انسان نیکی کی زندگی گزارتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے رزق، مال، اولاد، عمل، عزت، صحت، غرض ہر چیز میں برکت عطا فرمادیتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اوراگر یہ بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔‘‘ (اعراف: ۹۶)
جب انسان گناہ، معصیت اور ناشکری کی روش اختیار کرتا ہے تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور اللہ تعالیٰ ایک ایسی بستی کی مثال بیان کرتے ہیں جو امن اور اطمینان سے زندگی گزار رہی تھی اور انہیں ہر جگہ سے وافر رزق پہنچ رہا تھا، مگر جب انھوں نے اللہ کی نعمتوں کا انکار کیا تو اللہ نے انہیں بھوک اور خوف کا لباس پہنادیا ان کے اعمال کے سبب۔‘‘ (النحل: ۲۲)
(۲) تاخیر
یہ پہلی سزا کی بہ نسبت بڑی سزا ہے، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ انسان کی رسی کو ڈھیلا کردیتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ اپنی سرکشی میں حد سے گزرجاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ آتی ہے۔ چنانچہ گناہ جوانی میں کیے ہوں تو سزا بڑھاپے میں ملتی ہے۔ قرآن خود گواہی دیتا ہے:
’’پھر جب انھوں نے اس نصیحت کو بھلا دیاجو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر طرح کی خوش حالیوں کے دروازے کھول دیے، حتی کہ جب وہ ان بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں، خوب مگن ہوگئے تو ہم نے انہیں اچانک پکڑلیا۔‘‘ (الانعام:۴۴)
جب گناہ پر گناہ کرنے کے باوجود نعمتیں مل رہی ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب زیادہ بڑی سزا ملے گی۔ اس لیے اللہ کی نافرمانی سے بہت زیادہ ڈرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ علامہ ابن جوزیؒ ایک حافظ قرآن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے استاد صاحب نے اسے بد نظری سے توبہ کا کہا، مگر اس نے توبہ نہ کی۔ اس گناہ کی نحوست کی وجہ سے ۲۰ سال بعد قرآن اس کے حافظے سے محو کردیا گیا۔
(۳) خفیہ تدبیر
اس میں سزا اس طریقے سے ملتی ہے کہ انسان کو پتا ہی نہیں چلتا۔ مثلاً بیٹی کا رشتہ نہ ہورہا ہو یا کاروبار صحیح نہ چل رہا ہو تو ہم سمجھتے ہیں کہ کسی نے کچھ کردیا ہے، حالانکہ اس تصویر کا ایک دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اگر اللہ کسی کو رزق یا بیٹی کے لیے رشتہ دینا چاہے تو کون ہے جو اسے باندھ سکے؟ ازروئے الفاظِ قرآنی:
’’اور اگر پہنچادے تمہیں اللہ کوئی تکلیف تو کوئی نہیں اس کو دور کرنے والا اس کے سوا۔ اور اگر وہ پہنچانا چاہے تجھ کو کچھ بھلائی تو کوئی پھیرنے والا نہیں اس کے فضل کو۔‘‘ (یونس: ۱۰۷)
انسان اپنے حال میں مست رہتا ہے اور اس خفیہ تدبیر کو سمجھ نہیں پاتا۔ عبادات و مناجات سے محرومی بھی سزا کی ایک شکل ہے، مگر ہم اسے سمجھتے نہیں ہیں۔ حضرت حسن بصری ؒ سے کسی نے کہا کہ دل چاہتا ہے تہجد پڑھوں، کوئی طریقہ بتادیں! تو فرمایا: ’’اے دوست! تو اپنے دن کے اعمال کو ٹھیک کرلے، اللہ تجھے رات کے اعمال کی توفیق عطا فرمادے گا۔‘‘
حدیث پاک میں ہے:
’’جب رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کی ایک جماعت کو حکم دیتا ہے کہ فلاں فلاں بندے میرے نیک اور مقبول بندے ہیں۔ جاؤ اور پَر مار کر ان کو جگا دو تاکہ وہ اٹھ کر میری عبادت کریں اور میں ان کی جھولیوں کو بھردوں۔‘‘
دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن کی راتیں لہو ولعب میں بسرہوتی ہیں، مگر انہیں نماز کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔
آج ہماری بے قراری و بے چینی اور عبادات سے محرومی ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہے۔ جب تک ہم گناہوں کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے پریشانیاں ہماری جان نہیں چھوڑیں گی۔
گناہ کے اثرات
حدیث نبویؐ کی رو سے جب کوئی انسان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نقطہ لگا دیا جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کرلے تو یہ نقطہ صاف ہوجاتا ہے، اور اگر وہ توبہ نہ کرے تو یہ سیاہی آہستہ آہستہ پورے دل پر چھا جاتی ہے اور انسان کا دل مکمل طور پر سیاہ کردیتی ہے۔ دل کے سیاہ ہونے کا اندازہ تین باتوں سے لگایا جاسکتا ہے۔
(۱) گناہ کی جھجک ختم
جب انسان کے اعمال حد سے زیادہ خراب ہوجاتے ہیں تو ایک مقام ایسا آتا ہے جب انسان کے دل سے گناہ کی جھجک ختم کردی جاتی ہے۔ پہلے غیبت کرتے ہوئے دل ڈرتا تھا، مگر اب ساتھ میں جھوٹ اور گالیوں کا بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔پہلے نامحرم کی طرف دیکھتے ہوئے دل جھجکتا تھا، مگر اب دھڑلے کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔ جب کسی کے دل سے گناہ کی جھجک نکال دی جائے تو اللہ سے دوری کا معاملہ شروع ہوجاتا ہے۔
(۲) نصیحت کی بات بری لگتی ہے
جب دل سے گناہ کی جھجک نکل جائے تو کسی کا سمجھانا بھی اچھا نہیں لگتا، بلکہ سمجھانے پر آدمی ناراض ہوجاتا ہے ؎
میں اسے سمجھوں ہوں دشمن جو مجھے سمجھائے ہے!
ایسے شخص سے نماز پڑھنے کا کہو تو بجائے نصیحت پر کان دھرنے کے الٹا جواب ملتا ہے کہ مجھے اپنی قبر میں جانا ہے، تمہیں اس سے کیا؟
(۳) عبادت بوجھ محسوس ہوتی ہے
دل کے سیاہ ہونے کی تیسری علامت یہ ہے کہ عبادت کرنا انسان کو بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے۔ وہ ’’اچھا پڑھتا ہوں‘‘ کرتا کرتا نماز قضا کردیتا ہے۔ اگر نماز پڑھ بھی لیتا ہے تو سلام پھیرتے ہی بھاگ اٹھتا ہے۔ نماز کے بعد تسبیحات اور دعا و غیرہ سے اسے بالکل دلچسپی نہیں رہتی اور سنن و نوافل وغیرہ کو تو یکسر چھوڑدیتا ہے۔ یہ ہیں گناہو ںکی ظلمت کی وہ نشانیاں جن کی روشنی میں ہم بخوبی جائزہ لے سکتے ہیں کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں۔