افغانستان میں گرفتار ہونے سے قبل میں نقاب پہننے والی عورتوں کو نہایت ہی کمزور، مظلوم اور ستم رسیدہ سمجھتی تھی۔ امریکہ پر دہشت گردانہ حملے کے صرف ۱۵؍روز بعد ستمبر۲۰۰۱ء میں افغانستان میں اس حلیے میں داخل ہوئی کہ میں سرتاپا نیلے رنگ کے برقعے میں ملبوس تھی۔ میں افغانستان میں موجود طالبان حکومت کے بعد جبر و ظلم کے سائے میں گزرتی زندگی سے متعلق، اخبار کے لیے ایک مضمون لکھنا چاہتی تھی لیکن میرا بھید کھل گیا اور مجھے گرفتار کرکے نظر بند کردیا گیا۔
میں جن لوگوں کی قیدمیں تھی، ۱۰ دن تک ان پر برہم ہوتی رہی اور انھیں برا بھلا کہتی رہی۔ وہ مجھے ’بری‘ عورت کہتے تھے۔ انھوں نے مجھے اس شرط اور وعدے پر رہا کردیا کہ میں قرآن پڑھوں گی اور دین اسلام کا مطالعہ کروں گی (صحیح بات تو یہ ہے کہ مجھے یقین نہیں ہے کہ رہا کرتے وقت کون زیادہ خوش تھا؟ وہ یا میں)
لندن واپس اپنے گھر پہنچ کر دینِ اسلام کے مطالعے سے متعلق میں نے ان سے کیا ہوا اپنا وعدہ نبھایا، اور پھر جو کچھ مجھے معلوم ہوا، اس نے مجھے حیرت زدہ کردیا۔ میں قرآن میں اس طرح کے ابواب کی توقع کررہی تھی کہ اپنی بیوی کی کس طرح پٹائی کی جاتی ہے اور کیسے اپنی بیٹیوں کو ظلم و ستم کانشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے بجائے قرآن کی آیات کے مطالعے سے مجھے معلوم ہوا کہ دینِ اسلام نے عورت کے حقوق اور احترام پر زور دیا ہے۔ اپنی گرفتاری کے ڈھائی برس بعد میں نے اسلام قبول کیا تو کچھ دوست اور عزیز حیران اور مایوس ہوئے تو کچھ نے حوصلہ افزائی کی۔
اب جب کہ مجھے نقاب اور بغیر نقاب، دونوں حالتوں کا تجربہ ہے، میں آپ کو یہ بتاسکتی ہوں کہ جو مغربی مرد سیاست داں اور صحافی، اسلامی معاشرے میں نقاب والی عورت پر جبر کے متعلق افسوس کا اظہار کرتے ہیں، انھیں یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ کس چیز کے متعلق بات کررہے ہیں۔ وہ نقاب، بچپن کی شادی، عورتوں کے ختنے، غیرت کے نام پر قتل اور زبردستی کی شادی سے متعلق جو منہ میں آئے کہے جاتے ہیں اور اسلام کو نہایت غلط طور پر ان سب کا قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ ان کی رعونت پر مستزاد ان کی بے خبری ہے۔
ان تہذیبی مسائل اور رسم و رواج کا دین اسلام کے ساتھ قطعی کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر قرآن مجید کا مطالعہ سمجھ بوجھ کر کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مغربی دنیا میں آزادیِ نسواں کے حامیوں نے ۱۹۷۰ء کی دہائی میں جس مقصد کے لیے جدوجہد کی، وہی چیز مسلمان عورتوں کو ۱۴۰۰ ؍برس قبل عطا کردی گئی تھی۔ اسلام میں دینی اور روحانی لحاظ سے عورتیں مردوں کے برابر ہیں۔ مردوں کی طرح علم کا حصول ان کے لیے بھی فرض کی حیثیت رکھتا ہے اور عورت کی اہمیت مرد سے کسی طور کم نہیں۔ بچے کی پیدائش اور بچے کی پرورش میں مہارت، مسلمان عورت کی مثبت خوبی گردانی جاتی ہے۔
اب، جب کہ اسلام نے عورت کو بے شمار حقوق عطا کررکھے ہیں تو پھر مغربی مرد، مسلمان عورتوں کے لباس کے بارے میں کیوں متفکر ہیں؟ اسی پر اکتفا نہیں، بلکہ برطانوی حکومت کے وزرا گورڈن براؤن اور جان ریڈنے نقاب کے متعلق حقارت آمیز تبصرہ کیا، جب کہ ان کا اپنا تعلق سرحد پار اسکاٹ لینڈ سے ہے، جہاں مرد اسکرٹ پہنتے ہیں۔
جب میں مسلمان ہوگئی اور سر پر اسکارف پہننا شروع کیا تو مجھے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے اپنا سر اور اپنے بال ہی ڈھانپے تھے لیکن اس کے باعث میں فوراً ہی دوسرے درجے کی شہری جیسی ہوگئی۔ مجھے معلوم تھا کہ مجھے کسی اسلام دشمن سے کچھ سننا پڑے گا لیکن مجھے یہ توقع نہ تھی کہ اجنبیوں کی طرف سے بھی کھلے عام مخالفت کا اظہار ہوگا۔ رات کے وقت for hireکے روشن الفاظ کے ساتھ ٹیکسیاں میرے آس پاس سے گزر رہی تھیں۔ میرے سامنے رکنے والی ایک ٹیکسی میں سے ایک سفید فام مسافر اترا، میں آگے بڑھی تو ڈرائیور نے گھور کر دیکھا اور گاڑی بھگا کر لے گیا۔ دوسرے ڈرائیور نے کہا ’’پچھلی سیٹ پر بم رکھ کے نہ جانا‘‘ اور مجھ سے یہ بھی پوچھا کہ ’’اسامہ بن لادن کہاں چھپا ہوا ہے؟‘‘
یہ درست ہے کہ مسلمان عورت سے اس کے مذہب کا تقاضہ ہے کہ اپنے لیے مناسب لباس استعمال کرے لیکن جن مسلمان عورتوں کو میں جانتی ہوں ان کی اکثریت حجاب پہننا پسند کرتی ہے جس سے چہرہ کھلا نظر آتا ہے، جب کہ کچھ مسلمان خواتین نقاب کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہ میرا ذاتی طریقہ اظہار ہے۔ میرے لباس سے آپ کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اور میں خود کو عزت و احترام پر مبنی سلوک کی مستحق سمجھتی ہوں۔ جس طرح بینک کا ایک افسربزنس سوٹ پہن کر یہ اظہار کرتا ہے کہ اسے ایک ایگزیکٹیو سمجھا جانا چاہیے۔ خاص طور پر مردوں کا عورتوں کی طرف نا مناسب اور ہوس بھری نظروں سے گھورنا میری جیسی نومسلم خواتین کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔
میں برسوں تک مغرب میں خواتین کی آزادی کی علم بردار رہی لیکن اب مجھ پر یہ انکشاف ہوا ہے کہ اسلامی معاشرے میں آزادیِ نسواں کے حامی، اپنے سیکولر ساتھیوں کی نسبت زیادہ انقلابی ہیں۔ ہمیں ’مقابلہ ہائے حسن‘ سے کراہت محسوس ہوتی ہے۔ ہمیں ا س وقت اپنی ہنسی روکنا پڑی جب ۲۰۰۳ء میں ’حسینہ عالم‘ کے مقابلے کے موقع پر مختصر لباس میں حسینۂ افغانستان ویدہ سما دزئی کو آزادیِ نسواں کی طرف ایک عظیم الشان قدم قرار دیا گیا۔ سماد زئی کو ’حقوقِ نسواں کی فتح کی علامت‘ کے طور پر ایک مخصوص انعام بھی پیش کیا گیا۔
آزادیِ نسواں کی حامی کچھ نوجوان خواتین حجاب اور نقاب کو سیاسی علامت بھی سمجھتی ہیں جس کے ذریعہ مغربی تہذیب کی لعنتوں: بے تحاشا شراب نوشی، آزادانہ جنسی تعلقات اور نشہ آور ادویات کے استعمال کو مسترد کیا جاتا ہے۔ آزادیِ نسواں کا اظہار کس بات سے ہوتا ہے؟ اسکرٹ کی لمبائی اور چھاتی کے مصنوعی ابھار یا کردار اور ذہانت سے۔ اسلام میں عزت کا معیار حسن، دولت، طاقت، عہدہ یا جنس نہیں بلکہ تقویٰ اور پرہیز گاری ہے۔
میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ میں اٹلی کے وزیر اعظم پروڈی کے اس طرزِ عمل پر روؤں یا ہنسوں جس کے تحت انھوں نے اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ نقاب کو استعمال نہ کیا جائے کیونکہ اس سے باہمی میل جول زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔ کیا واہیات بات ہے۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر موبائل فون، ای میل اور فیکس کے استعمال کا کیا جواز ہے؟ اور پھر جب ریڈیو پر سامع کو بولنے والے کا چہرہ نظر نہیں آتا تو وہ ریڈیو بند تو نہیں کردیتا!
اسلام نے مجھے عزت دی ہے۔ میرے دین نے مجھے تعلیم حاصل کرنے کا حق بخشا ہے اور میں شادی شدہ ہوں یا کنواری، تحصیلِ علم میرے لیے فرض قرار دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی تعلیمات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ عورتوں کو لازمی طور پر اپنے شوہروں کے کپڑے دھونے چاہئیں، گھر کی صفائی کرنی چاہیے اور یا پھر کھانا پکانا چاہیے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مردوںکو اپنی بیویوں کی پٹائی کرنے کی اجازت دی گئی ہے، غلط ہے۔ اسلام کے ناقد قرآن مجید کی آیات اور احادیث کا حوالہ دیتے ہیں لیکن سیاق و سباق سے کاٹ کر۔ اگر کوئی اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھائے تو اس کو اس طرح سے مارنے کی اجازت نہیں جس سے اس کے جسم پر نشان پڑجائیں۔ قرآن کا یہ کہنے کا انداز ہے کہ احمق، اپنی بیوی کو مت مارو۔
عورت کے مقام اور اس سے سلوک سے متعلق صرف مسلمان مردوں ہی کا نام نہیں لینا چاہیے۔ حال ہی میں کیے گئے ایک سروے (گھریلو تشدد کا قومی ہاٹ لائن سروے) کے مطابق ۴ لاکھ امریکی خواتین، اوسطاً ۱۲ ماہ کی مدت کے دوران اپنے ساتھی مردوں کی طرف سے شدید حملوں اور مارپیٹ کا نشانہ بنتی ہیں اور ہر روز تین سے زائد عورتیں اپنے خاوندوں اور اپنے مرد دوستوں کے ہاتھوں ہلاک ہوجاتی ہیں۔ ۹؍ستمبر سے اب تک یہ تعداد تقریباً ۵۵۰۰ تک پہنچ چکی ہے۔
عورتوں پر تشدد کا یہ رجحان ایک عالمی المیہ ہے اور متشدد مردوں کا تعلق کسی خاص مذہب یا تہذیب سے نہیں ہے۔ ایک سروے کے مطابق، دنیا بھر میں تین میں سے ایک عورت مرد کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی ہے۔ اس میں مار پیٹ، جنسی زیادتی اور ذلت آمیز سلوک، سب شامل ہیں۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس کا مذہب، دولت، طبقاتی امتیاز، نسل اور تہذیب و ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عورتوں کی طرف سے احتجاج کے باوجو دمغرب میں مرد خود کو عورتوں سے برتر سمجھتے ہیں۔ وہ کسی شعبے میں بھی ہوں، عورتوں سے زیادہ بہتر معاوضہ اور تنخواہ پاتے ہیں اور عورتوں کو ابھی تک ایک جنسی شے سمجھا جاتا ہے جن کی کشش اور اثر آفرینی براہِ راست ان کی ظاہری حالت سے عیاں ہوتی ہے۔
اس طبقے کے لیے، جو ابھی تک یہ کوشش کررہا ہے کہ اسلام کو ایک ایسا دین ثابت کرے جو عورتوں پر ظلم و ستم روا رکھتا ہے، ۱۹۹۲ء میں پادری پیٹ رابرٹ سن کی طرف سے دیے گئے ایک بیان کو یاد کریں۔ اس نے ’با اختیار‘ عورت کے بارے اپنے خیالات کا اظہار درج ذیل الفاظ میں کیا: ’’آزادیِ نسواں کی تحریک ایک خاندان مخالف سوشلسٹ سیاسی تحریک ہے جو عورتوں کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنے خاوندوں کو چھوڑ کر چلی جائیں، اپنے بچوں کو ہلاک کردیں، جادو ٹونا کریں، سرمایہ داری کو تباہ کردیں اور ہم جنس پرست بن جائیں۔‘‘
اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ مہذب کون ہے اور غیر مہذب کون؟؟
(ترجمہ : How I Come to Love the Veil، واشنگٹن پوسٹ، ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۶ء)