یہ کئی سو سال پرانی بات ہے جب مدینہ میں عمر بن خطابؓ نام کا ایک خلیفہ حکمراں ہوتا تھا۔ یہ بڑا انصاف پسند اور رعایا پرور انسان تھا۔ حق پسندی اور انصاف اس کا شیوہ تھا۔ اپنی رعایا کے حالات اور مشکلات جاننے کے لیے وہ بھیس بدل کر نکل جاتا اور آبادیوں میں گشت کرتا کہ لوگوں کی پریشانیوں اور حالات کو جان سکے۔ ایک روز رات کو گشت کے لیے نکلا اور گھومتا رہا۔ صبح صادق سے کچھ پہلے ایک گھر کے قریب سے گزرا تو کچھ آواز سنائی دی۔ وہ غور سے سننے لگا۔ ایک عورت اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی: ’’بیٹی اٹھو اور دودھ میں پانی ملا دو۔‘‘
بیٹی نے کہا: ’’امی جان میں یہ نہیں کرسکتی۔ کیا آپ کو معلوم نہیں خلیفہ نے اعلان کیا ہے کہ کوئی دودھ میں پانی نہ ملائے۔‘‘
ماں نے کہا: ’’بیٹی کوئی خلیفہ دیکھ تو نہیں رہا۔ اٹھو اور پانی ملادو۔‘‘
بیٹی نے جواب دیا: ’’امی جان خلیفہ نہیں دیکھ رہا تو کیا ہوا، اللہ تو دیکھ رہا ہے، وہ تو ہر جگہ ہے۔‘‘
خلیفہ نے اپنے دائیں بائیں دیکھا اور گھر کو اچھی طرح سمجھ کر واپس چل پڑا۔ صبح کو اس نے اپنے کارندوں کو بھیجا اور ماں بیٹی کو طلب کیا۔ دونوں ماں بیٹی خوف زدہ تھیں کہ معلوم نہیں خلیفہ کیا سزا دے گا۔ وہ دربار میں پہنچیں تو خلیفہ نے بڑے ادب سے سلام کیا اور خیر و عافیت معلوم کی۔ لڑکی یتیم تھی اور اس کے والد کا انتقال ہوچکا تھا۔
خلیفہ کو لڑکی کی حق پسندی اور خدا خوفی نے بے حد متاثر کیا تھا۔ اس نے لڑکی کی ماں سے کہا کیا تم اپنی نیک بخت لڑکی کی شادی میرے بیٹے عاصم سے کرو گی؟ ماں حیران تھی۔ بالآخر اس کی لڑکی کا نکاح خلیفہ کے بیٹے سے ہوگیا۔ پھر اس لڑکی کی نسل چلی اور اس کا ایک نواسہ ہوا جس کا نام عمر بن عبدالعزیز تھا۔ اس طویل مدت میں مدینہ کی سیاست میں تبدیلیاں ہوئیں۔ خلافت راشدہ ختم ہوگئی۔ دھیرے دھیرے حکمرانوں میں بھی تبدیلیاں آنے لگیں۔ خلافت بادشاہت میں بدلنے لگی اور بہت سی خرابیاں پیدا ہوگئیں۔ وہ رعایا پرور بننے کے بجائے اقربا پرور ہونے لگے۔ ایسے حالات میں اسی لڑکی کا نواسہ عمر بن عبدالعزیز خلیفہ ہوا اور پھر اس نے عمر بن خطابؓ کا طریقہ اپنا شروع کردیا۔ گھر اور خاندان والوں کو بے انصافی سے ملی رعایتیں ختم کرنا شروع کردیں تو وہ بہت خفا ہوئے۔ ایک بڑھیا نے جو حق و انصاف کے نسلوں میں چلنے والے اثرات کو جانتی تھی اپنے غصہ کا اظہار ان الفاظ میں کیا: ’’میں نہ کہتی تھی کہ عمرؓ کے خاندان کی لڑکی مت لاؤ مگر تم لوگوں نے میری بات نہ مانی اس لیے اب وہ کچھ دیکھو جو تم دیکھنا نہیں چاہتے۔‘‘
حضرت عمر نے اپنے بیٹے کی شادی کے لیے نیک لڑکی کو پسند کیاجس کی تعلیم و تربیت کا اثر کئی نسلوں تک چلا۔ یہاں تک کہ جب اس کا نواسہ خلیفہ بنا تو اس نے خلیفہ ثانی عمر بن خطابؓ کا طریقہ اپنایا۔ یہ تھے حضرت عمر کی نیکی پسندی کے اثرات۔ اب آج کے سماج کی تصویر دیکھیے۔
لڑکے کے والدین ایک تعلیم یافتہ اور دیندار لڑکی کے خواہش مند تھے۔ بالآخر نظر انتخاب اس لڑکی پر رک گئی جوانگریزی میں ایم اے ہونے کے ساتھ خوبصورت بھی تھی۔ وہ انگریزی میں دینی مضامین بھی لکھتی تھی اور پابند شریعت بھی تھی۔ نکاح ہوا اور وہ دلہن بن کر سسرال کے لیے روانہ ہوئی۔ شام کا وقت تھا۔ عصر کی نماز کا وقت جارہا تھا۔ گھر دور تھا۔ یقین تھا کہ اگر نماز نہ پڑھی تو گھر پہنچنے تک قضا ہوجائے گی۔ دلہن نے گاڑی رکوائی اور راستہ میں ہی عصر کی نماز ادا کرلی۔ شوہر نامدار نے جو دیندار لڑکی کے خواہش مند تھی اس حرکت کو ناپسند کیا۔
لڑکی کے باپ نے استطاعت بھر جہیز دیا مگر دوچار روز بعد ہی ماروتی کار نہ ملنے کے چرچے شروع ہوگئے۔ ساری دین داری کی طلب پر کار کی طلب غالب آگئی۔ رشتوں میں دراریں پڑنے لگیں۔ میاں بیوی ہی نہیں دونوں خاندانوں کے درمیان بھی تناؤ شروع ہوگیا۔ ابھی چھ ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ ایک دیندار لڑکی کو اس کے طلب گار سسرالی گھر سے طلاق کے ساتھ رخصت کردیا گیا کیونکہ اس کی اعلیٰ تعلیم اور دینداری نامکمل تھی اور اس کی وجہ کار تھی جو اس کے والد نے اپنے داماد کو نہیں دی تھی۔ کیا زمانہ تھا جب لوگ اپنے قول وعمل میں یکساں اور اپنی دین پسندی میں خالص ہوتے تھے۔ دین کی بنیاد پر رشتے ناطے جوڑتے تھے اور پائیدار ہوتے تھے۔
ایک طرف عمر بن خطابؓ کا رویہ اور دین پسندی کی مثال ہے۔ دوسری طرف ہماری دین پسندی ہے جو ہوس اور جہیز طلبی کا لباس پہن کر لوگوں کو اور شاید خدا کو بھی دھوکہ دینے کی کوشش کررہی ہے۔اس کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟مگر کون سوچتا ہے ان باتوں پر۔ یہ تو دیوانگی جیسی باتیں ہیں!!!