کرائے کے مکان کی بوسیدہ دیوار پر ٹنگی ہوئی گھڑی کی دونوں سوئیاں نیچے اوپر تھیں۔ سیکنڈ کی باریک سوئی ٹک ٹک کرتی ہوئی اپنے مخصوص انداز میں آگے بڑھی۔ وقت خود کو دوہرا رہا ہے۔ جو کل تھا وہی آج ہے۔
رمیش کی اداس اور بے نور آنکھیں، جن میں اب حسرت و یاس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا، اس گھڑی پر جمی ہوئی تھیں جو اس کی بیوی جہیز میں لائی تھی، رمیش اپنے بستر پر ساکت پڑا ہوا گھڑی کو دیکھ رہا تھا، اچانک اس کی نظروں میں گھڑی کی سوئیاں الٹی گردش کرنے لگیں۔
سجے سجائے منڈپ میں رمیش روایتی انداز میں دولہا بنا بیٹھا تھا۔ ’’شبھ مہورت‘‘ میں ابھی تھوڑی دیر باقی تھی۔ رمیش کے والد اٹھے اور ہونے والے سمدھی کو ایک طرف لے جاکر کچھ بات کرنے لگے۔ ان دونوں میں کیا بات ہورہی ہے اسی کی خبر پوری طرح رمیش کو بھی تھی لیکن وہ فرماں بردار اولاد کی طرح خاموش تھا پھر بھی اسے یہ بات عمر بھر کانٹے کی طرح کھٹکتی رہی جو اس کے باپ نے شادی کے منڈپ میں اپنی گلابی پگڑی کے سنہرے طرے کو لہراتے ہوئے اس کے ہونے والے سسر سے کہی تھی۔ رمیش چاہتا تھا کہ باپ کی بات سے انکار کردے لیکن ان کے غصے کی وجہ سے وہ خاموش رہا اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ سب کچھ برداشت کرتا گیا۔اس کو وہ منظر ہمیشہ یاد رہا جب اس کے باپ ایک فاتح کے انداز میں مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے اس کے پاس آئے تھے اور قریب ہی بیٹھے ہوئے پنڈت سے مسکرا کر کہا تھا:
’’پنڈت جی! اب دیر کا ہے کی ہے، شبھ گھڑی بیتی جارہی ہے۔‘‘
اس وقت بھلا رمیش کی عمر اور تجربہ ہی کیا تھا۔ اسکول کی چہار دیواری کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے کے بعد کپڑا مل کی چہار دیواری سے واسطہ پڑا۔ جو ہاتھ ابھی پوری طرح قلم کے بوجھ سے بھی واقف نہ ہوئے تھے، ان ہاتھوں کو لوہے کے بھاری اور بھدے اوزاروں سے برسرپیکار ہونا پڑا۔ اس نے دنیا میں کچھ بھی تو نہیں دیکھا تھا۔ بھلا اس کا ناپختہ شعور کوئی اہم اور بروقت فیصلہ کس طرح کرتا۔ مجبوراً رمیش نے وہ سب کچھ منظور کرلیا جو اس کے باپ کا فیصلہ تھا، گو کہ اس کے مدنظر سسر کی مجبوری اور بے بسی بھی تھی۔
موسمِ بہار کی آمد تھی، شام ڈھلے رمیش نے گھر میں قدم رکھا اور حسبِ عادت اپنی تنخواہ ماں کے ہاتھ پر رکھ دی، اور خود اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا جہاں اس کی بیوی منتظر تھی۔ تب ہی رمیش کی ماں کیلبوں کو جنبش ہوئی: ’’بہو کے لچھن بتارہے ہیں، بھگوان نے چاہا تو بہو کے لڑکا ہی ہوگا۔‘‘
’’رمیش کی ماں! لڑکی تو ابھاگوں کے یہاں ہوتی ہے۔‘‘ پاس ہی بیٹھے ہوئے رمیش کے باپ نے اپنی عینک کا ڈورا کان پر لپیٹتے ہوئے کہا: ’’دیکھا نہیں ہمارے چھ لڑکے ہوئے، لڑکی ایک بھی نہیں۔‘‘ اور ان کی آنکھوں میں بڑھتی ہوئی چمک ایک دم مایوسی میں بدل گئی۔ مری ہوئی آواز میں بولے:
’’یہ بھگوان کی اِچھّا کہ ان کو عمر نہیں دی۔ اگر آج سب زندہ ہوتے…‘‘ اور وہ آگے کچھ نہ بول سکے، ایک ٹھنڈی سانس بھر کر خاموش ہوگئے۔
’’ہے بھگوان یہ سب تری لِیلا ہے، چھ بیٹوں کی کمائی سے گھر بھر جاتا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے رمیش کی بوڑھی ماں کی آواز اور بوڑھی ہوگئی۔
ان دنوں رمیش کی بیوی سب کے لیے ہاتھ کا چھالا بنی ہوئی تھی۔ ساس تو ہل کر پانی بھی نہ پینے دیتی۔ رمیش کے والد بہو کو دیکھ دیکھ کر پھولے نہیں سماتے۔ ساس، سسر ہر وقت ناز برداری میں مصروف نظر آتے، اور بہو کو پھلتا پھولتا دیکھ کرایسے خوش ہوتے جیسے مہاجن سود کی کمائی سے تجوری کو بھرتا دیکھ کر اندر ہی اندر خوش ہوتا ہے۔ بہو بھی ان دنوں کسی تجوی کی طرح بھاری بھرکم ہورہی تھی لیکن اس تجوری کی چابی وقت کے ہاتھ میں تھی، جس میں رمیش سمیت اس کے والدین کی آرزوئیں بند تھیں۔ جو وقت کی چابی تجوری کے تالے میں گھومی تو سب سر تھام کر بیٹھ گئے۔
’’لڑکی مبارک ہو، آپ کی بہو کے یہاں لڑکی ہوئی ہے۔‘‘ نرس نے پیام مسرت دیا۔
’’ہے بھگوان…!‘‘ رمیش کی ماں پر جیسے بجلی گر پڑی۔ جہاں ڈھول اور تاشوں کا انتظام تھا، وہاں شمشان جیسی خاموشی چھا گئی۔ لڑکی کی خبر سن کر جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا۔
’’رمیش! اپنی سسرال کہلا بھیجو کہ چھوچھک کا پربندھ کرلیں۔‘‘ رمیش کے باپ نے جیسے پہلے ہی سود در سود کا حساب لگالیا تھا۔
رمیش کے گھر ایک کے بعد ایک چار لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ وہ ٹوٹ گیا، لیکن ہمت نہ ہاری۔ کبھی کبھی وہ سوچتا کہ چار لڑکیوں کا مطلب ہوا کم از کم چار لاکھ روپیہ اور یہ سوچ کر وہ بدحواس ہوجاتا۔ چار لاکھ تو کیا وہ تو ایک لاکھ روپیہ بھی پوری عمر میں جمع نہیں کرسکتا تھا۔ اولاد کی کثرت قلیل آمدنی اور روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے رمیش کو اپنی عمر سے کئی سال آگے دھکیل دیا تھا پھر بھی وہ حالات سے برابر لڑتا رہا۔ اس میں اب بھی حوصلہ باقی تھا، وہ کسی فرض شناس سپاہی کی طرح میدان میں ڈٹا ہوا تھا۔
رمیش کی ماں تو پوتے کا ارمان لیے پرلوک سدھار گئیں لیکن باپ کی موجودگی نے گھریلو حالات کو مزید تلخ بنادیا تھا۔جو بہو کبھی لکشمی تھی وہ اب ابھاگن ہوگئی۔رمیش کی بیوی کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ ابھی تک ایک بھی لڑکے کو جنم نہ دے سکی تھی اور اس جرم کی سزا میں اس کا معذور سسر اس کو اٹھتے بیٹھتے گالیاں دیا کرتا۔ یہ بہو کی ’’شرافت‘‘ یا پھر ’’بزدلی‘‘ تھی کہ وہ کبھی کسی گالی کا جواب نہ دیتی۔ وہ ایسا کرتی بھی کیسے؟ وہ تو بھارتیہ ’’آدرش ناری‘‘ تھی، جس کو ’’دان‘‘ کیا جاتا ہے اور دان کی جانے والی ہر چیز حقیر ہوا کرتی ہے۔ وہ تو گالیاں سن کر بھی خاموش رہتی، البتہ رمیش کبھی کبھی اس کی جانب سے بول اٹھتا: ’’لڑکے کو جنم دینا بھی کیا انسان کے ہاتھ میں ہے؟ کیا جن کے لڑکے نہیں ہوتے وہ سب ابھاگے ہیں۔‘‘
بیٹے کی بات سن کر اپاہج باپ کچھ نہ کہتا لیکن نفرت سے تھوک دیتا جیسے وہ کہہ رہا ہو ’’جورو کے غلام تیرے ہی ونش کا انت ہورہا ہے!‘‘ پھر رمیش باپ کو سمجھانے کی کوشش کرتا ’’ہمارے دیش میں عورت کو دیوی کہا جاتا ہے اورانیک روپ میں اس کی پوجا ہوتی ہے اور آپ کی نظر میں عورت کلٹا ہے۔‘‘ اتنا سن کر رمیش کا باپ چیخ اٹھتا اور کہتا:
’’مورکھ یہ ہمارا ہی دوش ہے جو تجھ کو دو کتابیں پڑھوا دیں۔ چلا ہے جورو کا پاٹ لینے۔‘‘
رمیش کی بڑی بیٹی سمن نے ہائی اسکول امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ وہ اس کی کامیابی پر بہت خوش تھا۔ سمن کا رجحان تعلیم کی جانب دیکھتے ہوئے رمیش بھی یہی چاہتا تھا کہ اس کی تعلیم جاری رہے، لیکن وہ حالات سے مجبور تھا۔ اس نے سوچاکیوں نہ اپنے فنڈ سے کچھ رقم نکلوالے اور سمن کی تعلیم جاری رکھے۔ وہ اسی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ اس کے گھر میں پہلا پتھر گرا تو اسے احساس ہوا کہ اس کے گھر میں جواں سال درخت بھی ہے۔ وہ سوچ وچار میں تھا کہ کیا کرے، کیا نہ کرے۔ کبھی وہ سوچتا کیوں نہ سمن کی تعلیم جاری رکھی جائے۔ پھر وہ زاویہ بدل کر غور کرتا، کیوں نہ فنڈ کی رقم سے سمن کے ہاتھ پیلے کردیے جائیں۔ فیصلہ کرنا اس کے لیے بیحد مشکل ہوگیا۔ وہ سوچتا عورت بھلے ہی دنیا کا بڑے سے بڑا معرکہ سر کرلے، علم و فن کے دریا بہادے لیکن اس کا آخری مقام؟ اس کا آخری مقام تو کسی سماجی دیوتا کے قدموں ہی میں ہوتا ہے۔ وہ چرنوں کی داسی ہی کہلائے گی۔ یہ سوچ صرف رمیش ہی کی نہیں بلکہ سماج کے ہر اعلیٰ اور باشعور فرد کا یہی خیال ہے کہ عورت کی آخری معراج کسی مرد کے پلّو سے بندھنا ہے۔ رمیش نے بھی اسی روشنی میں فیصلہ کیا۔ بھلا جو کام کل کرنا ہے وہ آج ہی کیوںنہ کرلیا جائے۔ لڑکا برسرِروزگار اور شکل و صورت کا بھلا ہے ہی۔ رمیش کو اپنے حالات بہتر ہونے کی کوئی امید نہ تھی، اس نے سُمن کے رشتے کی منظوری دے دی۔
گھڑی کا پنڈولم برابر ہل رہا تھا، اور سوئیاں اپنے محور پر ٹک ٹک کی آواز کے ساتھ گردش میں تھیں۔ سمن کی بارات آئی۔ منڈپ میں دونوں جانب کے مہمان موجود تھے۔ ابتدائی کارروائی جاری تھی۔ سب ہنسی خوشی چل رہا تھا۔ دولہا کے باپ نے رمیش کو ایک جانب لے جاکر کچھ کہا۔ پھر سب نے یہ دیکھا کہ رمیش کا ہنستا ہوا چہرہ ایک دم پیلا پڑگیا۔ لمحہ بھر میں رمیش پر کیا گذری یہ تو اسی کا دل جانتا ہے لیکن وہ یرقان کا مریض نظر آنے لگا ۔ وہ دولہا کے باپ کے آگے گڑگڑا رہا تھا۔
گھڑی جس کا کام صرف وقت کو دہرانا ہے، اس کی سوئیاں گردش کرتے کرتے ایک خاص مقام پر آگئی تھیں۔ رمیش نے اپنی پگڑی اتار کر ہونے والے سمدھی کے پیروں پر ڈال دی۔ ٹھیک اسی طرح جیسے رمیش کے باپ کے قدموں پر اس کے سسر نے اپنی پگڑی ڈالی تھی۔ رمیش اس وقت دولہا کے روپ میںبے بس خاموش کھڑا تھا۔ دولہا تو آج بھی خاموش تماشائی ہے۔ ’’لیکن کل کا دولہا آج لڑکی کے باپ کے روپ میں بے بس اور لاچار ہے۔‘‘
رمیش بھری محفل میں دولہا کے باپ سے منت سماجت کرتا رہا جیسے کوئی بھکاری کسی سنگ دل کے رو برو بار بار التجا کرتا ہے۔ وہ بدحواسی کے عالم میں کانپ رہا تھا۔ شاید اس کو علم تھا کہ اگلے پل کیا ہونے والا ہے۔ وہ آنے والے خطرے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف تھا جیسے تباہ شدہ کشتی کا مسافر ٹوٹے تختے کے سہارے سمندرپار کرنے کی آخری سانس تک جدوجہد کرتا ہے۔
مہورت کے حساب سے شبھ گھڑی ٹل گئی تھی۔ منڈپ میں چمکتی پوتر اگنی جو دو دلوں کے ملاپ کے واسطے ہوتی ہے، رمیش کی عزت اور ارمانوں کو بھسم کرکے شانت ہوچکی تھی۔ پنڈت کی زبان سے پوتر منتروں کا بہتا دھارا خشک ہوگیا تھا اور معصوم سمن کے بھاگیہ کی دھرتی چٹیل میدان کی طرح نظر آنے لگی۔
رمیش کی آنکھوں کے سامنے ماضی کا ایک ایک پل اس طرح گزر رہا تھا جیسے اسٹیشن چھوڑتے وقت سگنل کے پول سے ٹرین کا ایک ایک ڈبہ گزرتا ہے۔ اس کی قوت گویائی سلب ہوچکی تھی لیکن اس کا ضمیر اسے برابر کچوکے دے رہا تھا۔ کاش میں اس وقت ’’کایر‘‘ نہ بنا ہوتا! کاش میں نے بزرگوں کے احترام اور حالات سے چشم پوشی میں فرق کیا ہوتا!! مجرم تو میں خود ہی ہوں!!!
رمیش کی اداس آنکھیں جن میں اب حسرت و یاس کے علاوہ کچھ نہ تھا، دیوار پر ٹنگی اس گھڑی پر مرکوز تھیں جو اس کی بیوی جہیز میں لائی تھی۔ گھڑی کی سوئیاں ایک مقام پر آکر آپس میں گڈ مڈ ہوگئیں۔ وقت کسی پر رحم نہیں کرتا اور پھر رمیش کی آنکھیں شاید پتھرا گئیں… وقت اب اس کے لیے بے مقصد تھا۔ سیکنڈ کی سوئی ٹک ٹک کی آواز کے ساتھ آگے بڑھنے لگی۔ ہر پل ایک رمیش، ایک سمن اور پھر ایک نیا چیلنج۔