میں جنوری ۱۹۴۵ء میں امریکہ کی ریاست لاس اینجلس کے علاقے ویسٹ میں پیدا ہوئی۔ میرے والدین پروٹسٹنٹ عیسائی تھے اور ننھیال و ددھیال دونوں طرف مذہب کا بڑا چرچا تھا۔ میں اسکول کے آٹھویں گریڈ میں تھا کہ میرے والدین کو فلوریڈا منتقل ہونا پڑا اور باقی تعلیم وہیں مکمل ہوئی۔ میری تعلیمی حالت بہت اچھی تھی، خصوصاً بائبل سے مجھے خاص دل چسپی تھی اور اس کے بہت سے حصے مجھے زبانی یاد تھے۔ اس سلسلے میں میں نے متعدد انعامات بھی حاصل کیے۔ میں غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی اور ویمن لبریشن موومنٹ (تحریکِ آزادیِ نسواں) کی پرجوش کارکن تھی۔
اسے خوش قسمتی ہی کہیے کہ مجھے ایک ایسی کلاس میں داخلہ مل گیا، جس میں سیاہ فام اور ایشیائی طالب علموں کی خاصی بڑی تعداد تھی۔ بڑی پریشانی ہوئی، مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ مزید گھٹن یہ دیکھ کر محسوس ہوئی کہ ان میں خاصے لوگ مسلمان تھے اور مجھے مسلمانوں سے سخت نفرت تھی۔ میرے نزدیک، عام یورپین آبادی کی طرح ’اسلام وحشت و جہالت کا مذہب تھا اور مسلمان غیر مہذب، عیاش، عورتوں پر ظلم کرنے والے اور اپنے مخالفوں کو زندہ جلادینے والے لوگ تھے۔‘ امریکہ اور یورپ کے عام مصنفین اور مؤرخ یہی کچھ لکھتے آرہے ہیں۔ بہرحال شدید ذہنی کوفت کے ساتھ تعلیم شروع کی، پھر اپنے آپ کو سمجھایا کہ میں ایک مشنری ہوں۔ کیا عجب کہ خدا نے مجھے ان کافروں کی اصلاح کے لیے یہاں بھیجا ہو، اس لیے مجھے پریشان نہیں ہونا چاہیے، چناںچہ میں نے صورتِ حال کا جائزہ لینا شروع کیا تو حیرت میں مبتلا رہ گئی کہ مسلمان طالب علموں کا رویہ دیگر سیاہ فام نوجوانوں سے بالکل مختلف تھا۔ وہ شائستہ، مہذب اور باوقار تھے۔ وہ عام امریکی نوجوانوں کے برعکس نہ لڑکیوں سے بے تکلف ہونا پسند کرتے، نہ آوارگی اور عیش پسندی کے رسیا تھے۔ میں تبلیغی جذبے کے تحت ان سے بات کرتی، ان کے سامنے عیسائیت کی خوبیا ںبیان کرتی تو وہ بڑے وقار اور احترام سے ملتے اور بحث میں الجھنے کے بجائے مسکرا کر خاموش ہوجاتے۔
میں نے اپنی کوششوں کو یوں بے کار جاتے دیکھا تو سوچا کہ اسلام کامطالعہ کرنا چاہیے، تاکہ اس کے نقائص اور تضادات سے آگاہ ہوکر مسلمان طالب علموں کو زچ کرسکوں، مگر دل کے گوشے میں یہ احساس بھی تھا کہ عیسائی پادری، مضمون نگار اور مؤرخ تو مسلمانوں کو وحشی، گنوار، جاہل اور نہ جانے کن کن برائیوں کا مرقع بتاتے ہیں، لیکن امریکی معاشرت میں پلنے بڑھنے والے ان سیاہ فام مسلمان نوجوانوں میں تو ایسی کوئی برائی نظر نہیں آتی، بلکہ یہ باقی سب طلبہ سے مختلف و منفرد پاکیزہ رویے کے حامل ہیں، پھر کیوں نہ میں خود اسلام کا مطالعہ کروں اور حقیقتِ حال سے آگاہی حاصل کروں۔میں نے قرآن پڑھا تو ان سارے سوالوں کے ایسے جواب مل گئے جو عقل اور شعور کے عین مطابق تھے۔ مزید اطمینان کے لیے اپنے کلاس فیلو مسلمان نوجوانوں سے گفت گوئیں کیں۔ تاریخِ اسلام کا مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ میں اب تک اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں میرا نقطۂ نظر صریحاً بے انصافی اور جہالت پر مبنی تھا۔
مزید اطمینان کی خاطر میں نے پیغمبرِ اسلام ﷺ اور ان کی تعلیمات کا مطالعہ کیا تو یہ دیکھ کر مجھے خوش گوار حیرت ہوئی کہ امریکی مصنفین کے پروپیگنڈے کے بالکل برعکس اللہ کے رسول ﷺ بنی نوعِ انسان کے عظیم محسن اور سچے خیر خواہ ہیں، خصوصاً انھوں نے عورت کو جو مقام و مرتبہ عطا فرمایا، اس کی پہلے یا بعد میں کوئی مثال نظر نہیں آتی۔ ماحول کی مجبوریوں کی بات دوسری ہے، ورنہ میں طبعاً بہت شرمیلی ہوں اور خاوند کے سوا کسی مرد سے بے تکلفی پسند نہیں کرتی، چناںچہ جب میں نے پڑھا کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ خود بھی بے حد حیادار تھے اور خصوصاً عورتوں کے لیے عفت و پاکیزگی او رحیا کی تاکید کرتے ہیں، تو میں بہت متاثر ہوئی اور اسے عورت کی ضرورت اور نفسیات کے عین مطابق پایا، پھر اللہ کے رسول ﷺ نے عورت کا مقام جس درجہ بلند فرمایا، اس کا اندازہ اس قول سے ہوا کہ ’’جنت ماں کے قدموں میں ہے‘‘ اور آپ کے اس فرمان پر تو میں جھوم اٹھی کہ ’’عورت نازک آبگینوں کی طرح ہے‘‘ اور ’’تم میں سے سب سے اچھا شخص وہ ہے، جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہے۔‘‘
قرآن اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کی تعلیمات سے میں مطمئن ہوگئی اور تاریخِ اسلام کے مطالعے اور اپنے مسلمان کلاس فیلو نوجوانوں کے کردار نے مسلمانوں کے بارے میں ساری غلط فہمیوں کو دور کردیا، اور میرے ضمیر کومیرے سارے سوالوں کے جواب مل گئے، تو میںنے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کا ذکر میں نے متذکرہ طالب علموں سے کیا، تو وہ ۲۱؍مئی ۱۹۷۷ء کو میرے پاس چار ذمے دار مسلمانوں کو لے آئے۔ ان میں سے ایک ڈینور (Denver) کی مسجد کے امام تھے، چناںچہ میں نے ان سے چند مزید سوالات کیے، اور کلمۂ شہادت پڑھ کر دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئی۔
میرے قبولِ اسلام پر پورے خان دان پر گویا بجلی گرپڑی۔ ہمارے میاں بیوی کے تعلقات واقعی مثالی تھے اور میرا شوہر مجھ سے ٹوٹ کر محبت کرتا تھا، مگر میرے قبولِ اسلام کا سن کر اسے غیر معمولی صدمہ ہوا۔ میں اسے پہلے بھی قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی اور اب پھر سمجھانے کی بہت سعی کی، مگر اس کا غصہ کسی طرح ٹھنڈا نہ ہوا اور اس نے مجھ سے علاحدگی اختیار کرلی اور میرے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔ عارضی طور پر دونوں بچوں کی پرورش میری ذمے داری قرار پائی۔
میرے والد بھی مجھ سے گہری قلبی وابستگی رکھتے تھے، مگر اس خبر سے وہ بھی بے حد برافروختہ ہوئے اور غصے میں ڈبل بیرل شاٹ گن لے کر میرے گھر آگئے، تاکہ مجھے قتل کرڈالیں، مگر اللہ کا شکر ہے کہ میں بچ گئی اور وہ ہمیشہ کے لیے قطعِ تعلق کرکے چلے گئے۔ میری بڑی بہن ماہرِ نفسیات تھی، اس نے اعلان کردیا کہ یہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہوگئی ہے اور اس نے سنجیدگی سے مجھے نفسیاتی انسٹی ٹیوٹ میں داخل کرانے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کردی۔ میری تعلیم مکمل ہوچکی تھی، میں نے معاشی ضرورتوں کے پیشِ نظر ایک دفتر میں ملازمت حاصل کی، لیکن ایک روز میری گاڑی کو حادثہ پیش آگیا اور تھوڑی سی تاخیر ہوگئی تو مجھے ملازمت سے نکال دیا گیا۔ فرم والوں کے نزدیک میرا اصل جرم یہی تھا کہ میں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی حالت یہ تھی کہ میرا ایک بچہ پیدائشی طور پر معذور تھا۔ وہ دماغی طور پر بھی نارمل نہ تھا اور اس کی عام صحت بھی ٹھیک نہ تھی، جب کہ بچوں کی تحویل اور طلاق کے مقدمے کے باعث امریکی قانون کے تحت مقدمے کے فیصلے تک میری ساری جمع پونجی منجمد کردی گئی تھی۔ ملازمت بھی ختم ہوئی تو میں بہت گھبرائی اور بے اختیار ربِّ جلیل کے حضور سربسجود ہوگئی اور گڑگڑا کر خوب دعائیں کیں۔ اللہ کریم نے میری دعائیں قبول فرمائیں اور دوسرے ہی روز میری ایک جاننے والی خاتون کی کوشش سے مجھے ایسٹرسیل پروگرام میں ملازمت مل گئی اور میرے معذور بیٹے کا علاج بھی بلامعاوضہ ہونے لگا۔ ڈاکٹروں نے دماغ کے آپریشن کا فیصلہ کیا اور اللہ کے خاص فضل سے یہ آپریشن کام یاب رہا۔ بچہ تن درست ہوگیا اور میری جان میں جان آئی، لیکن آہ! ابھی آزمائشوں کا سلسلہ ختم نہ ہوا تھا۔ عدالت میں بچوں کی تحویل کا مقدمہ دو سال سے چل رہا تھا، آخر کار دنیا کے اس سب سے بڑے ’’جمہوری‘‘ ملک کی ’’آزاد‘‘ عدالت نے فیصلہ یہ کیا کہ اگر بچوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہو تو اسلام سے دست بردار ہونا پڑے گا کہ اس قدامت پرست مذہب کی وجہ سے بچوں کا اخلاق خراب ہوگا اور تہذیبی اعتبار سے انہیں نقصان پہنچے گا۔
عدالت کا یہ فیصلہ میرے دل و دماغ پر بجلی بن کر گرا۔ ایک مرتبہ تو میں چکرا کر رہ گئی۔ زمین آسمان گھومتے ہوئے نظر آئے، مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس کی رحمت نے مجھے تھام لیا اور میں نے دو ٹوک انداز میں عدالت کو کہہ دیا کہ میں اپنے بچوں سے جدائی گوارا کرلوں گی، مگر اسلام اور ایمان کی دولت سے دست بردار نہیں ہوسکتی، چناںچہ بچی اور بچہ دونوں باپ کی تحویل میں دے دیے گئے۔
اس کے بعد ایک سال اسی طرح گزر گیا۔ میں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنا تعلق گہرا کرلیا اور تبلیغِ دین میں منہمک ہوگئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ساری محرومیوں کے باوجود میں ایک خاص قسم کے سکون و اطمینان سے سرشار رہی، مگر میرے خیر خواہوں نے اصرار کے ساتھ مشورہ دیا کہ مجھے کسی باعمل مسلمان سے عقدِ ثانی کرلینا چاہیے کہ عورت کے لیے تنہا زندگی گزارنا مناسب و مستحسن نہیں ہے، چناںچہ ایک مراکشی مسلمان کی طرف سے نکاح کی پیشکش ہوئی تو میں نے قبول کرلی۔ یہ صاحب ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ قرآن خوب خوش الحانی سے پڑھتے اور سننے والوں کو مسحور کردیتے۔ میں دین سے ان کے گہرے تعلق سے بڑی متاثر ہوئی اور ان سے نکاح کرلیا۔ عدالت نے میری رقوم واگزار کردی تھیں، چناںچہ میں نے اپنے خاوند کو اچھی خاصی رقم دی کہ وہ اس سے کوئی کاروبار کریں، مگر وائے ناکامی کہ شادی کو صرف تین ماہ گزرے تھے کہ میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی۔ اس نے کہا مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں، میں تمہارے لیے سراپا احترام ہوں، مگر اکتا گیا ہوں، اس لیے معذرت کے ساتھ طلاق دے رہا ہوں۔ میں نے اسے جو بھاری رقم دی تھی، چوںکہ اس کی کوئی تحریر موجود نہ تھی، اس لیے وہ بھی اس نے ہضم کرلی اور اس کی مدد سے جلد ہی دوسری شادی رچالی۔
طلاق کے چند ماہ بعد اللہ نے مجھے بیٹا عطا فرمایا۔ اس کا نام میں نے محمد رکھا۔ اب یہ بیٹا ماشاء اللہ دس برس کا ہے۔ وجیہ و شکیل اور بڑا ذہین ہے۔ اسے ہی دیکھ دیکھ کر میں جیتی ہوں۔ اب میں نے اپنے آپ کو اللہ کے فضل سے دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے وقف کردیا ہے اور جی چاہتا ہے کہ بقیہ زندگی اسی مبارک فریضے کی نذر ہو جائے۔ یہ بھی اللہ ہی کا فضل ہے کہ میں نے قرآن کو خوب پڑھا ہے۔ امریکہ میں اس وقت قرآن کے ستائیس ترجمے دست یاب ہیں، میں نے ان میں سے دس کا بالاستیعاب مطالعہ کرلیا ہے۔ عربی زبان بھی سیکھ لی ہے اور جہاں ترجمے میں کوئی بات کھٹکتی ہے ، فون پر عربی کے کسی اسکالر سے معلوم کرلیتی ہوں۔ الحمدللہ میں مختلف کتبِ حدیث یعنی بخاری، مسلم، ابوداؤد اور مشکوٰۃ کا کئی کئی بار مطالعہ کرچکی ہوں اور اسلام کو جدید ترین اسلوب میں سمجھنے کے لیے مختلف مسلمان علما کی کتابوں کابھی مطالعہ کرتی رہتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ جب تک ایک مبلغ قرآن، حدیث اور اسلام کے بارے میں بھر پور معلومات نہ رکھتا ہو، وہ تبلیغ کے تقاضوں سے کما حقہٗ عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔
ایک زمانہ تھا کہ میں اتوار کا دن آرام کرنے کے بجائے کسی سنڈے اسکول میں بچوں کو عیسائیت کے اسباق پڑھاتی تھی، آج اللہ کے کرم سے میں اتوار کا دن اسلامک سنٹروں میں گزارتی ہوں اور وہاں مسلمان بچوں کو دینی تعلیم دینے کے علاوہ دیگر مضامین بھی پڑھاتی ہوں۔ لاس اینجلس میں مختلف مقامات پر مختلف نوعیت کی نمائشوں، کانفرنسوں اور مجالسِ مذاکرات کا اہتمام کرکے غیرمسلموں تک دینِ اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں ان سے کہتی ہوں کہ میں نے آپ لوگوں کو تبدیلیِ مذہب کے لیے نہیں بلایا، بلکہ اس لیے زحمت دی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں اسلام سے کیوں وابستہ ہوں، زندگی کی کیا حقیقت ہے؟ اور انسان اور اللہ کا باہمی تعلق کیا ہے؟ میں بحمدللہ ریڈیو اورٹی وی پر بھی اسلامی تعلیمات پیش کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔
یہ بھی اللہ ہی کی توفیق سے ہے کہ میں نے مختلف مقامات پر مسلم وومن اسٹڈی سرکل قائم کیے ہیں، جن میں غیر مسلم خواتین بھی آتی ہیں۔ میں انہیں بتاتی ہوں کہ اسی امریکہ میں آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے عورتوں کی باقاعدہ خرید وفروخت ہوتی تھی اور ایک عورت کو گھوڑے سے بھی کم قیمت پر یعنی ڈیڑھ سو روپیے میں خریدا جاسکتا تھا۔ بعد کے ادوار میں بھی عورت کو باپ یا شوہر کی جائے داد میں سے کوئی حصہ نہ ملتا تھا، حتّا کہ اگر وہ شادی کے موقع پر ایک لاکھ ڈالر شوہر کے گھر میں لے جاتی اور چند ہی ماہ بعد اسے طلاق حاصل کرنا پڑتی، تو وہ ساری رقم شوہر کی ملکیت قرار پاتی تھی۔ تعلیم کے مواقع بھی اسے مناسب صورت میں حاصل نہ تھے اور اس ایٹمی و سائنسی دور میں بھی صورتِ حال یہ ہے کہ امریکہ میں عملاً عورت دوسرے درجے کی شہری ہے۔ وہ مردوں کے برابر کام کرتی ہے، مگر معاوـضہ ان سے کم پاتی ہے، وہ ہمیشہ عدمِ تحفظ کا شکار رہتی ہے۔ پندرہ برس کی عمر کے بعد والدین بھی اس کی کفالت کا ذمہ نہیںلیتے اور اسے خود ملازمت کرکے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ شادی کے بعد طلاق کا خوف اسے ہمہ وقت گھیرے رکھتا ہے اور طلاق کے بعد جو یورپین زندگی کا لازمہ بن گئی ہے، نہ والدین اور نہ بھائی اس کا غم بانٹتے ہیں۔ بچوں کی ذمے داری بھی اسی کے سر پڑتی ہے اور سابق شوہر بچوں کا بمشکل تیس فی صد خرچ برداشت کرتے ہیں، یعنی پچاس ڈالر ماہ وار کے حساب سے ادا کرتے ہیں، جس سے ایک بچے کا جوتا خریدنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
میں خواتین کو بتاتی ہوں کہ اس کے برعکس اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے خواتین کو جو حقوق عطا کیے تھے، اس کی انسانی تاریخ میںکوئی مثال نہیں ملتی۔ بحیثیت بیٹی، بہن، بیوی اور ماں اسے خاص احترام اور حقوق حاصل ہیں۔ باپ، خاوند، بھائیوں اور بیٹوں کی جائے داد سے اسے حصہ ملتا ہے اور طلاق کی صورت میں اولاد کی کفالت کا ذمے دار شوہر ہوتا ہے۔ شادی کے موقع پر خاوند کی حیثیت کے مطابق اسے معقول رقم (یعنی مہر) کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ خاوند کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی شریکِ حیات کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھے اور اس کی غلطیوں کو معاف کرے اور اس باپ کے لیے جنت میں اعلا ترین انعامات کی خوش خبری دی گئی ہے، جو اپنی بچیوں کی محبت اور شفقت سے پرورش کرتا اور ان کی دینی تربیت کرکے انہیں احترام سے رخصت کرتا ہے اور اس اعزاز کی تو کہیں ادنا سی بھی مثال نہیں ملتی کہ ماں کے قدموں میں جنت قرار دی گئی ہے اور باپ کے مقابلے میں اسے تین گنا واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے۔
میں جب یہ تقابلی موازنہ کرتی ہوں تو امریکی عورتوں کے منہ حیرت سے کھلے رہ جاتے ہیں۔ وہ تحقیق کرتی ہیں، مطالعہ کرتی ہیں اور جب انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ میں صحیح باتیں کرتی ہوں اور واقعتا اسلام نے عورت کو غیر معمولی حقوق و احترام عطا کیا ہے، تو وہ اسلام قبول کرلیتی ہیں، چناںچہ اللہ کا شکر ہے اب تک میرے ذریعے تقریباً چھے سو امریکی خواتین دائرۂ اسلام میں داخل ہوچکی ہیں۔