استاد: (شاگرد سے) فورڈ کسے کہتے ہیں؟
شاگرد: سر ایک گاڑی کا ماڈل ہے۔
استاد: اچھا یہ بتاؤ آکسفورڈ کسے کہتے ہیں؟
شاگرد: جی بیل گاڑی کو۔
٭٭٭
دکاندار: (گراہک سے) کیا یہ بندوق آپ کو اپنے دفاع کے لیے چاہیے؟
گراہک: جی نہیں، دفاع کے لیے تو میں وکیل کرلوں گا۔
٭٭٭
مالک: (ملازم سے) کل تم نے پودوں کو پانی کیوں نہیں دیا؟
ملازم: جی کل بارش ہورہی تھی۔
مالک: تو کیا ہوا۔ چھتری لگا کر پانی دے دیتے۔
٭٭٭
ڈاکٹر (نرس سے) میںنے یہ آپریشن ٹھیک وقت پر کردیا ورنہ…
نرس: ورنہ کیا مریض مرجاتا۔
ڈاکٹر: نہیں وہ بغیر کسی آپریشن کے ہی ٹھیک ہوجاتا۔
٭٭٭
ببلو اپنی دادی کو پریشان کررہا تھا۔
دادی: ببلو اگر تم نے زیادہ پریشان کیا تو کچا چبا جاؤں گی۔
ببلو: چبائیں گی کیسے؟ آپ کے تو منہ میں دانت ہی نہیں ہیں۔
٭٭٭
استاد : (شاگرد سے) درجن کسے کہتے ہیں؟
شاگرد: درزی کی بیوی کو۔
٭٭٭
بیٹا: ابو کل رات ایک بجے تک میں پڑھائی کرتا رہا۔
باپ: مگر کل رات تو دس بجے لائٹ چلی گئی تھی۔
بیٹا: میں پڑھائی میں اتنا گم تھا کہ مجھے لائٹ کے جانے کا پتہ ہی نہیں چلا۔
٭٭٭
جج: (چور سے) کیا یہ سچ ہے کہ تم ریلوے کا پنکھا کھولتے ہوئے گرفتارکیے گئے تھے؟
چور: جی حضور، کیا کرتا، ڈبے پر لکھا تھا: ریلوے کی ملکیت آپ کی ملکیت ہے۔
٭٭٭
باپ: (بیٹے سے) تم نے اخبار والے کا بل تو نہیں دیکھا۔
بیٹا: کیا اس شہر میں جگہ اتنی تنگ ہوگئی ہے کہ لوگ بلوں میں رہنے لگے ہیں۔
٭٭٭
سرفراز: (نواز سے) تم ایک ساتھ دو دو روٹیاں کیوں کھا رہے ہو؟
نواز: کیونکہ مجھے ڈاکٹر نے ڈبل روٹی کھانے کو کہا ہے۔
٭٭٭
عظمی: (سلمیٰ سے) گھڑی میں کتنے بجے ہیں؟
سلمیٰ: مجھے گھڑی دیکھنا نہیں آتا۔
عظمیٰ: جاؤ دیکھ کر آؤ کہ گھنٹہ، منٹ اور سکینڈ کی سوئیاں کہاں ہیں؟
سلمیٰ: یہ تینوں سوئیاں گھڑی کے اندر ہیں۔
٭٭٭
والد (بیٹے سے) اس ٹیسٹ میں تمہارے نمبر کم کیو ںآئے؟
بیٹا: غیر حاضری کے سبب۔
والد: کیا مطلب؟ کیا تم اس دن اسکول نہیں گئے تھے؟
بیٹا: جی نہیں، دراصل وہ لڑکا جو میری بغل میں بیٹھتا ہے وہ غیر حاضر تھا۔
جو کبھی ڈاکو تھے
محمد ریحان خالد
شہر کی تمام آبادی نیند کی خاموشی اور رات کی تاریکی میں گم تھی۔ ویران گلیوں اور سنسان راستوں پر اندھیرے رینگ رہے تھے۔ اچانک تاریکی میں ایک متحرک سایہ نمودار ہوا اور آہستگی سے چلتا ہوا گلیوں میں سفر کرنے لگا۔ وہ ایک گلی سے مڑ کر دوسری گلی میں پہنچا اور ایک مکان کے سائے تلے کھڑے ہوگا۔ یہ بدنام زمانہ ڈاکو فضیل تھا جس کا نام سن کر بڑے بڑے جی داروں کے دل کانپ جاتے۔ اور اگر کہیں سے خبر آتی کہ آگے ڈاکو فضیل کے حملے کا خطرہ ہے تو مسافر واپس پلٹ جاتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے خطرناک ڈاکو کا رات کے اس پہر ایک مکان کے سامنے کھڑے ہونے کا کوئی نیک مقصد تو ہرگز نہ تھا؟ فضیل گھر کی دیوار پر چڑھا اور اندر پھلانگنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ اچانک قرآن پاک کی تلاوت کی آواز آئی۔ قریب کے کسی گھر میں کوئی شخص رات کے اس پہر یادِ الٰہی کے چراغ جلائے تلاوتِ کلام پاک میں مشغول تھا۔ اس نے یہ آیت پڑھی: ’’کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی نصیحت کے آگے جھک جائیں۔‘‘ قرآن کی اس پکار میں نہ معلوم کیا سوز تھا کہ یہ آیت تیر بن کر فضیل کے سینے کے پار ہوگئی۔ وہ بے اختیار کہہ اٹھا: ’’ہاں میرے رب! کیوں نہیں۔‘‘ پیغام ربانی کانوں کے راستے سے اس کے دل میں اتر گیا اور آنکھوں سے ندامت کے آنسو بہنے لگے۔ فضیل اسی حالت میں واپس اپنے ٹھکانے گیا اور بارگاہِ ایزدی میں گڑگڑا کر توبہ کی۔ جب دل کی کثافتیں دھل گئیں تو پھر اس نے اپنی آئندہ زندگی کے شب و روز عبادت و تلاوت اور علمِ دین کے حصول میں صرف کیے۔ آخر وہ وقت بھی آیا کہ ماضی کا یہ خطرناک ڈاکو حضرت فضیل بن عیاضؓ کے نام سے مشہور ہوا۔حضرت فضیلؒ نہ صرف ولایت کے بلند مرتبے پر فائز ہوئے بلکہ وقت کے محدث اور زمانے کے امام بھی کہلائے۔آپؒ عبادت و تقویٰ میں ضرب المثل تھے۔ آپ کے شاگردِ رشید ابراہیم بن اشعث فرماتے ہیں: ’’میں نے اللہ کی جتنی عظمت آپ کے دل میں دیکھی اتنی کسی کے دل میں نہ دیکھی۔‘‘
فضیلؒ بن عیاض کو قرآن کریم سے بے پناہ محبت تھی۔ اندازہ اس واقعہ سے لگائیے کہ ایک بار امام احمد بن حنبلؒ چند رفقا کے ہمراہ آپ سے ملنے آئے لیکن اندر آنے کی اجازت نہ ملی۔ کسی نے امام احمد سے کہا کہ اگر قرآن پڑھا جائے تو حضرت فضیلؒ ضرور باہر آجائیں گے۔ چنانچہ امام صاحب کے ایک ساتھی جن کی آواز بلند تھی، قرآن پاک پڑھنے لگے۔ چند لمحوں کے بعد فضیلؒ بن عیاض واقعی باہر آگئے۔ انکی حالت یہ تھی کہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔