آمنہ اخبار پڑھتے پڑھتے چونک پڑی۔ ’’کیا؟ عورت بیچ دی! صرف بیس روپئے میں! وہ اڑیسہ ہو یا بنگال، بات تو ایک ہی ہے۔‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ’’ایک عورت کی قیمت بس یہی ہے۔ یہی ہماری ترقی ہے۔ جس ملک میں کسی فرد کو کھانا نہ ملے وہ بھوک سے تڑپ کر اپنی بہو بیٹیاں بیچنے لگے؟‘‘ آمنہ پھر سچ مچ بے قرار ہوکر رو پڑی۔ اندر ہی اندر وہ کانپ رہی تھی۔
کبھی کبھی اور کوئی کوئی بات ہمارے وجود کو اس طرح ڈھانپ لیتی ہے کہ موجود خوشیوں کی قندیلیں گل ہوجاتی ہیں۔ بیتے لمحوں کا قافلہ بجھتے چراغوں کا جلوس اور اڑتے ستاروں کا کارواں گزرنے لگتا ہے۔ ٹوٹے کانٹوں کی کھٹک سے سارے وجود میں درد کی روشنی پھیل جاتی ہے اور ذہن، ماضی کا آشیانہ بن جاتا ہے۔ماضی… چار لفظوں میں سمتیں سماگئی ہوں۔ ماضی ہی تو سب کچھ ہے۔ حال تو لمحوں کی ایک پتلی سی دھار ہے جو ہمارے جسم کو چھوتی ہوئی ماضی کے سمندر میں کھوجاتی ہے اور مستقبل وہ خواب ہے جو دن میں دیکھا جاتا ہے اور جس کے معدوم ہاتھ پر خدا کے وجود سے انکار کرنے والے منطقی ذہن بیعت کرلیتے ہیں۔ بیس روپوں میں بکنے والی اڑیسہ کی عورت کی رات کی طرح ایک رات اپنے تمام ستاروں سمیت اس کے سینے میں اتر آئی تھی۔
’’تم رو رہی ہو! آخر کیا بات ہے جو تم اکثر رویا کرتی ہو۔‘‘
اس نے چونک کر تکیے سے سر اٹھایا۔ لانبی چمکیلی نم سرخ آنکھوں پر سیاہ دراز پلکوں کا مورچھل ہلنے لگا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی اس کے وجود میں گھس گیا ہو۔ اس نے خوبصورت خیالوں کے ضدی بچوں کو بہلا پھسلا کر ذہن کے باہر نکال دیا۔ ایک ایک دریچہ بند کرلیا۔ ابھی وہ الفاظ کا انتخاب کررہی تھی کہ خود اس نے اپنی اجنبی سی آواز سنی… ’’آپ اتنی خاموشی سے آجاتے ہیں…‘‘
’’ہاں! بدنصیبی بھی ایسی ہی خاموشی سے آتی ہے۔‘‘
اس نے پوری آنکھیں کھول کر احمد کو دیکھا جو سرمئی سوٹ میں سجا بنا اس پر جھکا کھڑا تھا۔ سرخ و سفید چہرے پر فکر کا ہلکا ہلکا دھواں لرز رہا تھا اور ہاتھوں سے سگار کی خوشبو ٹپک رہی تھی۔ اس نے اپنا ہاتھ احمد کے ہاتھ کی گرفت میں چھوڑ دیا۔
’’تم کچھ اداس ہو کیا بات ہے؟‘‘ آمنہ پھیکی ہنسی سے مسکرادی۔
’’احمد! ہمارا ملک ترقی کی بات کرتا ہے یہ کیسی ترقی ہے کہ عورتیں کوڑیوں کے دام بک رہی ہیں؟ عورت کی کوئی حیثیت نہیں؟‘‘
’’آمنہ! عورت تو ترقی پذیر ملکوں میں بھی بکتی ہے مگر اس کی نوعیت دوسری ہوتی ہے مگر ہمارے ملک میں عورت کے بکنے کی وجہ انسانی مجبوریاں ہیں۔ غربت ہے مگر تم …‘‘ آمنہ نے شوہر کی بات کاٹ دی …’’نہیں احمد چھوڑو، تم بیٹھو میں چائے لاتی ہوں۔‘‘ انسانی مجبوریاں یہ دو الفاظ آمنہ کے وجود کی آخری تہہ تک اترتے چلے گئے۔ یہ شخص کیوں مجھے کمزور بنادینا چاہتا ہے؟ میرے زخموں پر اپنی محبت کے پھول رکھ کر درد کی شدت اور لہولہان خوابوں کی ٹیس کو کم کرنا چاہتا ہے؟ کیوں میری حرکات و سکنات کا تعاقب کرتا رہتا ہے؟ اسے اپنے چہرے پر چڑھا ہوا خول چٹختا محسوس ہوا، پھر جیسے آنکھوں کے زخم رسنے لگے، اس نے اپنے آپ پر طاری ہوتی ہوئی خود فراموشی کو پوری قوت ارادی سے روک لیا۔ چونک کر بنٹی کی طرف دیکھا جو سامنے پالنے میں سورہا تھا۔ اس کی لڑکھڑاتی نظروں کو سہارا مل گیا۔ وہ کھڑی ہوگئی اور مسکرا کر احمد کی طرف دیکھا۔ ’’تم کپڑے بدلو میں چائے بناتی ہوں۔‘‘ اور وہ باورچی خانے میں چلی گئی۔
چائے پینے کے بعد احمد نے آمنہ کا ہاتھ ہاتھ میں لے کر پوچھا: ’’آمنہ! آج تم سے ایک بات پوچھوں؟‘‘ وہ اندر ہی اندر کانپ گئی۔ جیسے پولیس قاتل سے پوچھنے والی ہو کہ یہ لاش کس کی ہے؟ اس نے احمد کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ چند لفظوں کا چھوٹا سا جملہ اس کے کانوں پر کنکجھورے کی مانند رینگنے لگا۔ وہ اس وقت بھی ایسی ہی جان لیوا بے قراری میں مبتلا ہوئی تھی جب اس نے ابو اور امی کے غمزدہ چہرے دوہری بتیوں کے پرانے لیمپ کی زرد روشنی میں پڑھے تھے۔ دور تک پھیلا ہوا سنگین آبائی مکان ان گنت نوکروں کے ہجر میں ویران پڑا تھا اور اسے اپنے آپ پر کسی دوسری ہستی کا گمان ہورہا تھا۔ ابو اور امی کسی المیہ فلم کے کرداروں کی مانند سامنے بیٹھے تھے۔ وہ چوروں کی طرح کھڑی تھی۔ سالخوردہ چاندنی کے گوشے پر رکھے ہوئے بدقلعی خاصدان سے آخری سوکھا ہوا پان نکال کر ابو نے بغیر دانتوں کے سرخ منھ میں رکھ لیا۔
’’بیٹی! آج تم سے ایک بات کہوں۔‘‘
پہلی بار اسے اپنے وجود کا احساس ہوا تھا۔ ساری قوت گویائی کا سہارا لے کر وہ صرف ایک لفظ کہہ سکی:’’جی‘‘
ابو نے اس کے چہرے سے نگاہیں اٹھا کر سامنے کے طاق میں رکھ دیں اور ان کی آواز سے لفظوں کے آنسو ٹپکنے لگے۔
’’خوش نصیب باپ جب اپنی بیٹیوں کی شادی کرتے ہیں تو جہیز دیتے ہیں اور بدنصیب باپ جب اپنی بیٹیوں کو رخصت کرتے ہیں تو قیمت وصول کرتے ہیں۔ میں ایسا ہی بدنصیب باپ ہوں بیٹی۔‘‘
پھر وہ دیر تک ہانپتے رہے۔ پان چباتے رہے اور وہ ان کے الفاظ کی آنچ میں پگھلتی رہی۔ میں اگر تمہاری شادی کردوں تو قرض کے دلدل میں ایک ہاتھ اور دھنس جاؤں اور رخصت کردوں تو نکل کر زمین پر آجاؤں۔‘‘
احمد سیدھا کھڑا تھا۔ پیالی میں سگار بجھا کر جب وہ اپنے کمرے میں جانے لگا تو اس کے ہونٹ ہل رہے تھے، لیکن آمنہ کے کانوں میں تو زہر ٹپک رہا تھا۔
’’بیٹی! میں احمد انصاری کا مقروض ہوں اور اس کے گھر سے تمہارا پیام آیا ہے۔‘‘
جیسے سماعت کی ساری طاقت سلب ہوکر رہ گئی۔ سارا وجود سن ہوگیا۔ پھر جیسے الفاظ کے تازیانے پڑنے لگے اور اس کے حواس بیدار ہوگئے۔
’’میں تمہاری ماں کا بھی مقروض ہوں۔‘‘ اس کی سوتیلی ماں اس کو گھور رہی تھیں۔ سرخ سوئیوں کی طرح تیز نظریں اس کو داغ رہی تھیں۔ پھر اچانک اس پر جیسے نشہ سا چھا گیا۔ نسائیت کا وہ نشہ جو قربانی کو عبادت میں رنگ دیتا ہے۔ جو موت کو خوبصورت اور چتا کو گلزار بنادیتا ہے۔ پہلی بار اسے موقع ملا کہ اپنی سوتیلی ماں پر ایک چھوٹے خاندان کی معمولی عورت پر اپنی شرافت اور نجابت کا اظہار کرسکے۔ اس کے ہونٹ کانپنے لگے۔ وہ سر سے پاؤں تک لرزنے لگی۔
’’ابا! میں آپ کے تمام قرضے ادا کردوں گی۔ آپ ذرا سی فکر بھی نہ کیجیے۔‘‘
اور وہ اس طرح بھاگی جیسے کسی کا خون کردیا ہو۔ جیسے اپنا خون کرلیا ہو۔ وہ اپنے کمرے میں داخل ہونے لگی تو مرحوم ماں کی تصویر نے اسے اپنی گود میں لے لیا۔ ساری رات وہ ایسی کہانیاں سنتی رہی جو لڑکیوں کی قربانیوں اور وفا شعاریوں سے لبریز تھیں۔اسے اپنی بربادی سے زیادہ اس اندازِ بربادی کے پرانے پن کا افسوس تھا۔ کاش اس کی تباہی کی داستان میں کوئی اچھوتا پن ہوتا۔ پھر اس کو ایک کہانی یاد آئی اور اس کے اعصاب ڈھیلے پڑگئے۔
ماضی کے کہانی کار نے جب کسی خاص جسم میں کسی خاص روح کو دیکھنا چاہا ہوگا اور اس کام کو بشریت سے بعید جانا ہوگا، تو ایک طلسم کے ذریعے ایک بدن کی روح دوسرے بدن میں ڈال دی ہوگی۔ یہ ماورائی اور طلسمی کام میں بھی تو انجام دے سکتی ہوں۔ اپنی روح کو جس پر یاور کا حق تھا اپنے بدن کی پابند بنادوں، جسے احمد انصاری نے خرید لیا۔وہ اپنے خیال کی ندرت پر مسکرادی جیسے اپنی کچی قبر کے لیے زر کار کتبہ میسر آگیا ہو۔ اسی رات اس نے اپنا آپ بدل ڈالا، اپنے چہرے پر ایک اور چہرا چڑھالیا۔
’’آمنہ! آج سونے کا ارادہ نہیں ہے۔‘‘ وہ اٹھنے لگی تو احمد نے بڑے پیار سے سہارا دے کر اٹھایا۔
’’یہ کیا کرتے ہیں آپ!‘‘
’’آمنہ! کاش میں کچھ کرسکتا۔‘‘ اس نے سر اٹھایا تو آنکھیں احمد کی آنکھوں میں سماگئیں۔ آنکھیں جن کی بولی ہر زبان بولنے والا سمجھ لیتا ہے۔ آنکھیں جو کبھی جھوٹ نہیں بولتیں اور جن کی سچائی کے سمندر میں بڑی بڑی زبانیں ڈوب جاتی ہیں۔
’’آمنہ! تم کہتی ہو کہ تم میرے گھر میں خوش ہو۔ ذرا اپنی آنکھیں تو دیکھو؟‘‘
’’آنسو! ارے یہ تو تمہاری چاہت کے آنسو ہیں۔ خوشی کے آنسو ہیں۔‘‘
’’لیکن آمنہ مجھے ایسی محبت نہیں چاہیے میں تو مسکراتی ہنستی قہقہے لگاتی محبت چاہتا ہوں۔‘‘
’’اوں … ہاں لو میں ہنس پڑی‘‘ اور آمنہ نے ہنس کر دونوں بانہیں شوہر کے گلے میں ڈال دیں اور وہ تھوڑی دیر بعد قد آدم آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔ اسے اپنے جسم پر دو بانہیں نظر آئیں اور آنکھوں پر گرم گرم بھاپ سی محسوس ہوئی۔ اس کی پلکیں جھپکنے لگیں۔ ماضی کے ورق الٹنے لگے روشن ہونے لگے۔
مہمان آنا شروع ہوگئے تھے۔ میراثنوں کی ڈھولک بج رہی تھی۔ وہ اوپر اپنے کمرے میں مانجھے بیٹھی تھی۔ چاروں طرف ماں کی مشکوک نگاہوں کا چہرا کھڑا تھا۔ وہ کہانیوں کی شہزادی کی طرح قید تھی۔ اس رات بھی وہ آنسوؤں کے چراغ جلائے اپنے مستقبل کی وہ کتاب پڑھ رہی تھی جو اس کے ہاتھ سے چھین لی گئی تھی۔ سب سورہے تھے۔ اس کے پاس صرف ادھیڑ رات جاگ رہی تھی۔ یادوں نے ہڑدنگی لڑکیوں کی طرح سارے ذہن کے آنگن میں دھما چوکڑی مچا رکھی تھی۔ کہیں آنسو لڑھکا دیے، کہیں ہنسی بکھرادی، کہیں پرانے خواب اچھال دیے کہیں ٹوٹی تعبیریں!
اچانک کمرے میں زمرد بوا آگئیں۔ جنھوں نے اسے دودھ پلایا تھا اور دودھ بڑھائی کی تقریب میں سونے کے کڑے پائے تھے۔
’’کیا ہے بوا؟‘‘
’’بڑا گجب ہوئے گوا بیٹا؟‘‘
’’کیا ابھی کوئی اور غضب باقی ہے۔‘‘
’’یاور بھیا آئے گئے ہیں!‘‘
’’یاور!‘‘ جیسے اس کی سماعت کو بجلی کے ننگے تار نے چھولیا۔
’’کہاں ہے…‘‘ وہ گھبرا کر بوا کے ساتھ ہوئی۔ پورے مکان پر نیند کا غلبہ تھا۔ پائیں باغ میں وہ شہتوت کے درخت کے نیچے کھڑا تھا۔
’’آمنہ! ہم تمہیں لینے آئے ہیں۔‘‘
’’یاور! تم نے اس طرح چوری چھپے آنے کی جرأت کیسے کی؟‘‘
’’یہ سب اچانک ہوگیا، کیسے ہوا؟ میں تمہیں اس طرح جانے نہ دوں گا۔ چلو میرے ساتھ‘‘ یاور نے آمنہ کی طرف ہاتھ بڑھایا ’’دور سے بات کرو۔ تم نے کیا سمجھ کے یہ بات کی؟ میں تمہارے ساتھ بھاگ جاؤں اور اپنے بوڑھے ضعیف باپ کے نام پر داغ لگادوں۔ تم نے یہ جسارت اس لیے کی کہ میرے باپ بوڑھے، ضعیف اور کنگال ہوگئے ہیں؟ تم نے مجھے کوٹھے کی طوائف سمجھ رکھا ہے کہ جب جی چاہے آدمی بھیج کر بلوالیا۔‘‘
’’آمنہ! تم کس سے کیا کہہ رہی ہو! میں تو سمجھا تھا کہ یہ شادی چچی جان کی زبردستی سے ہورہی ہے۔ مگر پتہ چلا کہ آمنہ خاتون یہ شادی تو آپ کی مرضی سے ہورہی ہے۔‘‘
’’ہاں! میری شادی میری مرضی سے ہورہی ہے۔‘‘
’’لیکن آمنہ! تم تو…‘‘
’’ہاں میں تم سے محبت نہیں کرتی۔ تم ہو کیا… ایک معمولی سے زمین دار! وہ بھی صرف نام کے! تم مجھے کیا دے سکتے ہو؟ میں ایک محتاج خانے سے نکل کر دوسرے محتاج خانے میں بند ہونا پسند نہیں کرتی۔ میں آرام سے زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’آمنہ! ہم نے اگر تم کو نہ بھی چاہا ہوتا، تم تم ہمیں چاہتی تھیں۔ ارے! تم نے اپنی قیمت مانگی ہوتی اور اگر تمہارا بھاؤ بڑھ گیا ہے تو ہم اپنا ایک ایک تنکا بیچ کر تم کو خرید لیتے۔ ایک ایک دروازے پر اپنی زمین داری کا واسطہ دیتے کہ ہماری ہونے والی بیگم نیلام ہورہی ہے۔ مگر تم نے تو ہمیں بولی تک لگانے کا موقع نہ دیا۔ ہم نے تو جانا تھا کہ ہمارے گھر کی بیویاں چنے بھی چبائیں گی تو زعفران کی ڈکار لیں گی۔ٹاٹ پہنیں گی تو بھی رانیوں کی طرح جگمگائیں گی… ہم نے تو روپے کو ہاتھ کا میل جانا تھا کہ معلوم ہوا کہ وہ تمہارا خدا ہوچکا ہے۔ خدا کے لیے آمنہ کچھ تو بولو…؟‘‘
’’فوجداری اور مقدمے تو تمہارے لیے معمولی سی بات ہے۔ مان لو کہ تمہاری زمینداری ایک بار فیل ہوگئی۔ تم قتل کا ایک اور مقدمہ ہار گئے۔ آمنہ مرگئی اب میں زندہ ہوں، احمد انصاری کی ہونے والی بیوی! اب تم جاسکتے ہو۔‘‘ آمنہ مڑگئی۔
’’ٹھہرو! ہم نے سوچا تھا کہ جب تم ہماری حویلی میں آؤ گی تو ہم اس کی چابیاں تمہارے حوالے کریں گے، لیکن یہ تمہاری تقدیر میں نہ تھا… لو یہ کارتوس لے جاؤ، معلوم نہیں کس پر تمہارے ہونے والے شوہر کا نام لکھا ہے۔ اس نے کارتوس ہوا میں اچھال دیے اور خاموشی سے جس طرح آیا چلا گیا۔ زمرد بوا آئیں، پتھر بنی آمنہ کو سہارا دے کر کمرے میں لے گئیں۔
آمنہ نے دانتوں تلے نچلا ہونٹ داب لیا۔ جب گرم گرم آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے تو اس نے گھبرا کر اپنے چاروں طرف دیکھا۔ کمرے میں زیرو بلب جل رہا تھا۔ مسہری پر احمد سینے تک چادر اوڑھے سو رہا تھا۔ بنٹی کی آیا آئی اور اسے ٹہلانے لے گئی۔ وہ اٹھی اور خالی پالنا جھلانے لگی۔ جیسے اپنے سرکش خیالات کو بہلا کر سلارہی ہو۔
گلابی جاڑوں کی صبح سونے کی ڈلی کی طرح دمک رہی تھی۔ چھٹی کا دن تھا۔ احمد چہل قدمی کرکے واپس آیا تھا اور اخبار لیے کھڑکی سے آتی دھوپ میں بیٹھا تھا۔ آیا ابھی تک بنٹی کو گھما کر لوٹی نہیں تھی۔ آمنہ ناشتے کا بندوبست کرنے باورچی خانے کی طرف جارہی تھی کہ اچانک چونک پڑی…
’’آمنہ! یار آج پارک میں تمہارے ایک بہت قریبی جاننے والے سے ملاقات ہوئی۔‘‘
احمد نے مسکراتے ہوئے شوخی بھری نگاہوں سے آمنہ کی طرف دیکھا۔
’’میرے جاننے والے…! وہ بھی قریبی، میں جانتی نہیں۔‘‘
’’آمنہ! یاد کرو… اچھا ایک بات پوچھوں؟‘‘
’’کون سی بات پوچھو؟‘‘
’’واقعی پوچھوں؟‘‘
’’ارے احمد! تم مجھ سے کچھ جھوٹ بھی کہو گے، دیکھنا میں سچ مان لوں گی۔ کہو تو بنٹی کو اس کی شہادت میں پیش کروں!‘‘
’’ارے بنٹی کو بیچ میں کیوں لاتی ہو آمنہ! تم میری قسم کھالو، جھوٹی قسم!‘‘
’’افوہ! بتائیے نا کون ملا تھا؟‘‘
ہوا یہ کہ چہل قدمی کے دوران ایک صاحب میرے سامنے آگئے۔ سلام علیکم ہوئی تو پتہ چلا کہ بھئی وہ تو تمہارے بہت قریبی جاننے والے نکل آئے… بھلا سا نام تھا … یاور … ہاں یاور علی۔‘‘
اچانک آمنہ کو لگا کہ کمرہ گھوم رہا ہے۔ اس کے ہاتھ پیر سنسنانے لگے۔ کانوں میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں۔ اعصاب کی کمان ٹوٹنے لگی، اندر جانے کو مڑی تو لڑکھڑا گئی ایک دم احمد کے دراز ہاتھوں نے اسے سنبھال لیا۔
جب ہوش آیا تو وہ اپنے کمرے میں مسہری پر تھی۔ کرسی پر ڈاکٹر بیٹھا تھا اور اس کے تکئے کا سہارا لیے احمد کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر وحشت برس رہی تھی۔ نگاہ ملتے ہی وہ اس کے قریب آگیا۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد آیا نے بنٹی کو ماں کے سامنے کردیا۔ بیٹے کو دیکھ کر آمنہ کے چہرے پر رونق سی جاگ اٹھی۔ اسے لگا کہ وہ گہرائیوں میں ڈوبی جارہی تھی کہ بیٹے کی مسکان نے اسے ہاتھ پکڑ کر دھنسنے سے بچالیا۔ اس میں ایک عزم اور حوصلہ پیدا ہوا۔ کچھ لمحوں بعد اس نے احمد کی طرف دیکھا۔ احمد نے پریشان ہوکر پوچھا: ’’آمنہ! کیا ہوا تھا؟ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم یاور علی کو اس حد تک ناپسند کرتی ہو۔ مگر وہ تو…‘‘
’’نہیں احمد! نہیں آج تم نے میری مشکل آسان کردی۔ احمد! یاور علی میرا منگیتر تھا۔ انسانی مجبوریوں اور غربت کے سبب میرے غریب باپ نے اپنی بیٹی بیچ دی اور تم میرے خریدار ہو۔ احمد مجھے اپنی بانہوں میں چھپالو…‘‘