مذاق اور اس کی حدود

مخدوم منہاج الدین نوری

بسا اوقات مزاح وخوش طبعی سے ایسے نتائج برآمد ہوتے ہیں جو دل شکستگی اور بغض و عناد کا باعث ہوجاتے ہیں۔ درحقیقت ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم تفریح طبع کے لیے ان طریقوں کو اپناتے ہیں جو برائی کا سبب اور اسلام میں منع ہیں۔

اسلام نے مذاق میں بھی بیہودگی، فحش گفتاری، طعن و تشنیع،طنز و استہزاء، غیبت و بہتان، کذب و افترا پردازی اور کسی طرح سے بھی اذیت دینے سے سختی سے روکا ہے۔ مومنین کے نمایاں اوصاف بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اہلِ ایمان لغو و لایعنی گفتگو سے دور رہتے ہیں ۔ اسلام جہاں بھلی بات کہنے اور اس کے فروغ کے لیے سرگرداں رہنے کا حکم دیتا ہے وہیں وہ غیر ضروری اور نامناسب گفتگو کے بجائے خاموش رہنے کی ہدایت کرتا ہے۔ حضور سرورِ کائنات ؐ نے یہاں تک فرمایا کہ تم دو چیزوں کی مجھے ضمانت دے دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں یعنی شرمگاہ اور زبان۔

کسی کا مذاق اڑانے، کسی کی تضحیک اور کسی طرح تنقیص کرنے کے تعلق سے ارشاد ربانی ہے: ’’اے ایمان والو کوئی گروہ کسی گروہ کا مذاق نہ اڑائے ہوسکتا ہے کہ وہ تم سے بہتر ہو۔‘‘ اور یہ نصیحت عورتوں کو علیحدہ طور پر کی گئی اور کہا گیا کہ ’’نہ مومن عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔‘‘

اسی طرح غیبت کرنے والوں کو اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے والوں کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ اور کسی کو اذیت دینے کسی کی کوئی چیز غائب کردینے سے بھی روکا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کوئی اپنے بھائی کی لاٹھی نہ چھپائے نہ مز اح میںنہ قصداً اگر ایسا کرے تو جلد واپس کردے۔ اسی طرح کسی کی ٹوپی چھپا دینے، کسی کا جوتا غائب کردینے، کسی کا دوپٹہ چھین لینے سے حتی الامکان احتراز کرنا چاہیے اور اگر بہت زیادہ بے تکلفی ہو تو بھی جلد واپس کردینا چاہیے۔

مذاق کرنے والے کو یہ بنیادی اصول ہر وقت پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ یہ مذاق سننے والے کے لیے خوشی و دل لگی کا ذریعہ ہو نہ کہ افسوس اور تکلیف کا۔ اسی طرح ہنسی مذاق کے وقت بہت زیادہ گلا پھاڑ پھاڑ کر ہنسنے اور فلک شگاف قہقہے لگانے سے بھی بچناچاہیے۔ آپؐ اکثر خوشی کے مواقع پر تبسم فرمایا کرتے تھے یا بہت زیادہ ہنسی کی صورت میں آپ کے اگلے دانت ظاہر ہوتے تھے۔ آپؐ نے زیادہ ہنسنے سے روکا ہے۔ اور فرمایا کہ اس سے دل مردہ ہوجاتا ہے۔

آپ اپنی خانگی، خارجی اور ازدواجی زندگی میں بھی خوش طبع تھے۔ حتی کہ بچوں سے بھی خوش طبعی فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ صحابہ نے حیرت و استعجاب سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! آپ بھی ہم سے خوش طبعی فرماتے ہیں تو آپؐ نے اپنا اصولی موقف واضح کیا فرمایا کہ میں مزاح میں حق بات ہی کہتا ہوں یعنی میرا مذاق بھی کذب و افترا اور خود ساختہ داستانوں پر مبنی نہیں ہوتا۔ ایک مرتبہ آپ کی رضاعی ماں تشریف لائیں آپ نے پرجوش استقبال کیا۔ آمد کی وجہ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ انھیں سواری کے لیے اونٹ درکار ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے میں آپ کو اونٹنی کا بچہ دوں گا۔ انھوں نے پریشان ہوتے ہوئے کہا کہ میں اونٹنی کے بچے کو لے کر کیا کروں گی؟ مجھے تو سواری کے لیے ضرورت ہے۔ پھر یہ کہا کہ میں آپ کو اونٹنی کے بچہ پر سوار کروں گا۔ اور ایک تندرست و توانا اونٹ دینے کا حکم صادر فرمایا اور فرمایا کہ ہر اونٹ اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔

ایک بڑھیا کو مخاطب کرتے ہوئے آپ نے کہا کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی۔ وہ بے چاری پریشان ہوکر وجہ دریافت کرنے لگی۔ آپؐ نے جواب میں اللہ کا ارشاد تلاوت فرمایا کہ ہم انھیں خاص طریقے سے پیداکریں گے، اور انھیں باکرہ بناڈالیں گے۔

آپؐ نے اپنے خادم حضرت انسؓ کو مزاحاً ایک مرتبہ ’’اے دوکان والے‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ ایک مرتبہ آپ نے اپنے ایک اعرابی صحابی کو پیچھے سے جادبوچا اور انھیں اٹھاتے ہوئے یہ صدا لگائی کون خریدے گا اس غلام کو؟ کون خریدے گا اس غلام کو؟ شروع میں وہ پریشان ہوئے لیکن جب معلوم ہوا کہ حضور اقدس کی ذات گرامی ہے تو وہ آپ کے جسد اطہر سے چمٹ گئے۔ آپ کی ہدایات اور نمونے سے یہ بات واضح ہے کہ مزاح و خوش طبعی کا صحیح اور پاکیزہ ذوق بھی آپ سے ہی ملتا ہے۔ لیکن جن لوگوں میں جدوجہد کا واحد مقصد متاع دنیا اور یہاں کے وقتی عیش و عشرت کا حصول ہوا کرتا ہے وہ لوگ تفریح طبع کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے۔ چاہے انہیں انسانیت کو عریاں اور ذلیل ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ العیاذ باللہ۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں