نصیبن نے جیسے ہی آنکھیں کھولیں سعیدہ کو قریب ہونے کا اشارہ کیا۔ سعیدہ آگے بڑھی تو نصیبن نے پوری قوت سے سعیدہ کا سر پکڑلیا اور دیر تک اس کی پیشانی چومتی رہی یہاں تک کہ اس کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے نصیبن کی گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی۔ گھر میں کہرام مچ گیا آناًفاناً ساری کالونی میں خبر پھیل گئی آپا نصیبن کا انتقال ہوگیا۔ جس کو دیکھئے آپا نصیبن کی تعریف کررہا تھا۔ بڑی اچھی تھیں بہن نصیبن۔ دل ہو تو آپا نصیبن جیسا بڑا صاف، نہ چھل نہ کپٹ۔ جو بھی نصیبن کے یہاں آتا کوئی نہ کوئی صفت بیان کرتا ویسے بھی مرنے والے کی تعریف ہی کرنی چاہیے۔ چیخ و پکار کا ماحول کچھ کم ہوا تو میت کی آخری رسوم کی بات ہوئی۔ سعیدہ اور دوسری خواتین نے مل کر میت کو اٹھایا اور دوسری چارپائی پر لٹادیا۔ سعیدہ نے پرانا پراگندہ بستر تہہ کیا اور اس کو الگ کونے میں ڈال دیا تاکہ باہر پھکوادیا جائے لیکن چادر کے اندر سعیدہ نے کوئی چیز محسوس کی کونا ہٹا کر دیکھا تو ایک بڑا سا لفافہ پایا۔ اس کی پیشانی پر لکھا تھا کہ میری بیٹی سعیدہ کو ملے۔ سعیدہ حیرت زدہ تھی اتنی شدید بیماری کے ہوتے ہوئے امی جان کو یہ خط لکھنے کا موقع کیسے مل گیا اور پھر یہ کہ کسی کو خبر تک نہیں ہوئی۔ سعیدہ نے بڑی راز داری کے انداز میں لفافے کو چھپاتے ہوئے اندر اپنے کمرے میں لے جاکر اپنی سیف میں رکھ دیا۔ تکفین وتدفین کے بعد بہت رات گئے لرزتے کانپتے ہاتھوں سے سعیدہ نے لفافہ کھولا۔ لکھا تھا:
میری پیاری سعیدہ دعائیں اور بے شمار دعائیں تمہارے لیے۔ تمہارے خاوند کے لیے تمہارے سب بچوں کے لیے۔ آج جبکہ میری تکلیف میں کچھ افاقہ ہے میں تمہیں یہ خط لکھ رہی ہوں۔ اللہ نے تکلیف دی یہ بھی اس کا شکر ہے اور یہ تو بہت ہی بڑا شکر ہے کہ اس نے میرا داہنا ہاتھ محفوظ رکھا ورنہ زبان تو چلی ہی گئی تھی یہ داہنا ہاتھ بھی چلا جاتا تو میں کس طرح اپنے دل کی باتیں تم سے کہہ سکتی۔ آج مجھے تم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں واقعہ یہ ہے کہ میں نے تمہیں بہت ستایا، بہت دکھ دیے، خود بھی دیے اور دوسروں سے بھی دلائے مگر شاباش ہے تمہارے نفس کو وہ سب کچھ جھیلتا رہا اور تمہاری پیشانی پر کوئی بل نہیں آیا۔ تم نے جیسے ہی میرے گھر میں قدم رکھا تھا میرا گھر خوشیوں سے بھر گیا۔ ہر شخص چھوٹا بڑا قریب کا دور کا تمہاری گفتگو، تمہارا برتاؤ، تمہارا اخلاق دیکھ کر متاثر تھا۔ اس پر تمہارے معمولات وہ تو اس دور میں عجوبہ تھے۔ نمازوں کی پابندی، تلاوتِ کلام پاک، مطالعہ، تمہارا اپنی نندوں کو لے کر بیٹھ جانا اور ان کو قرآن وحدیث کی تعلیم دینا۔ سیرت کے واقعات بیان کرنا اور پھر یہ کہ امورِ خانہ داری میں پوری دلچسپی۔ خاوند تمہارا دیوانہ تھا۔ لیکن نہ جانے کیوں مجھے تمہارے یہ اوصاف اور تمہاری اچھائیاں کھلنے لگیں۔ جس زبان پر ہروقت میرا گیت رہتا تھا اس پر تمہارا زبردست رنگ چڑھ گیا تھا باتیں بہت ہیں مختصر یہ کہ مجھے یہ برا لگنے لگا کہ کوئی تمہارا ذکرِ خیر کرے۔ آخر ایک دن میں نے موقع پاکر اسلم کے کان بھرنے کی ابتدا کر ہی دی۔ ’’یہ تیری بیوی سعیدہ پہلے تو سعیدہ ہی تھی مگر اب تو اس کا الٹا ہوگئی۔ اب تو ہفتہ بھر میں ایک بار بھی دو انگلی کے سلام کی توفیق نہیں ہوتی۔ سویرے سوجاتی ہے ، دیر سے اٹھتی ہے تو نے کپڑے، برتن صاف کرنے والی نوکرانیاں کیا لگادیں، اس کے تو دماغ ہی خراب ہوگئے۔ ان خادماؤں سے ایسے بولتی ہے جیسے کوئی نواب زادی ہو۔سدا نہ اوڑھے بورئیے سینے میں آئی کھاٹ۔ شادی کے بعد اپنی اوقات ہی بھول گئی۔ میں اور بھی کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن آج یہ پہلی خوراک بس اتنی ہی مناسب سمجھی۔ اور اگلے روز میں نے دیکھا واقعی تم دیر سے اٹھی تھیں۔ تمہارے چہرے پر اداسی چھائی ہوئی تھی ، آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ مارے غم کے تم مجھے سلام بھی نہیں کرسکی تھیں۔ مجھے تمہاری حالت دیکھ کر کچھ تسلی ہوئی اور پھر اس وجہ سے بھی کہ نافرمان بیٹے نے کچھ فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا تھا۔ اور پھر ایک دن یہ بھی ہوا تھا کہ چائے کی ٹرے لیے تم میرے میکے کی خواتین کو چائے پلانے کے لیے جیسے ہی چلیں ہاتھ سے ٹرے گرگئی تھی اور دوسرے ہی لمحے اسلم کا چپت تمہارے پھول جیسے گال پر پڑا تھا۔ اس وقت میں نے اپنی خوشی چھپانے میں بہت زیادہ تصنع سے کام لیا تھا۔ اب آہستہ آہستہ گھریلو فضا بدلنی شروع ہوگئی۔ تمہارے سسر اب پورے طور سے میرے ہوگئے تھے۔ کھانے پینے کی جو چیز آئی اب وہ میری ہی تھی۔ ایک دن اسلم سے میں نے یہ بھی کہا کہ دنیا انگریزی کی طرف بھاگ رہی ہے تیرے بچے بھی انگریزی اسکول میں پڑھ رہے ہیں اور تیری بیوی سے انگریزی کا ایک لفظ بھی نہیں آتا کیا حاصل ایسی پڑھائی کا جو اپنے بچوں کو بھی نہ پڑھا سکے۔ تیر نشانے پر بیٹھا اور پھر میں نے ایک دن تمہاری اور اسلم کی اس تعلق سے تکرار بھی سنی اور سسکیوں کی آواز بھی۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ تم اپنے منہ کو سینک رہی ہو اور جب میں نے ڈانٹ کر کہا تھا کہ کوئی باورچی خانے میں بیٹھنے کا وقت ہے تو تم جلدی سے کپڑا ایک طرف پھینک کر باہر آگئی تھیں۔ تم ڈینٹسٹ کے پاس جانا چاہتی تھیں اور میں نے اسلم کو منع کردیا تھا کہ شریف زادیاں اپنا چہرہ غیر مرد کو نہیں دکھاتیں چاہے کیسی بھی تکلیف ہو اور تم کلیجہ مسوس کر رہ گئی تھیں۔ میں نے اپنی حکمتِ عملی سے تمہارا اپنے رشتے داروں سے ملنا جلنا بھی بند کرادیا تھا۔ اب تم ایسی چڑیا تھیں کہ اس میں چاہے حسرتِ پرواز ہو مگر قوتِ پرواز ختم ہوچکی تھی۔ ایک دن تو کمال ہی ہوگیا تمہیں کسی شادی میں جانا تھا اور تمہیں تمہارے میکے کی بریوں پر خوب ہی تو سننا پڑی تھیں۔ ایک دن تو میری خوشی کی انتہا نہیں رہی جب میری بیٹی اور داماد کی موجودگی میں میرے بیٹے نے تمہاری خوب خبر لی تھی۔ لیکن تم نے میری بیٹی سے اس کے بھائی کی کوئی شکایت نہیں کی اور نہ اپنے میکے کے کسی بھی رشتہ دار کو اس کی بھنک ہی لگنے دی۔
اور سعیدہ! میری بیٹی سعیدہ! مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب تم صبر و رضا کی بلندیاں طے کررہی تھیں رات کے تین بجے مجھے دورہ پڑا۔ میں چارپائی سے نیچے گرپڑی۔ میں نے چلانا چاہا تو زبان سے کوئی لفظ نہ نکل سکا، اٹھنا چاہا تو اٹھ نہیں سکی۔ میرے جسم کے بائیں حصہ پر فالج پڑچکا تھا۔ میں نہیں جانتی کون کب میرے پاس آیا؟لیکن جب مجھے کچھ سنبھالا نصیب ہوا اور میں نے آنکھ کھولی تو میرا سر تمہاری گود میں تھا۔ اب میرا علاج بڑی تیزی سے ہونے لگا۔ بایاں ہاتھ جو لٹک سا گیا، جب اکسرے کرایا تو اس کی ہڈی میں کریک پایا گیا یہ اور نئی مصیبت تھی۔ مجھے قریب و دور کے تمام ڈاکٹروں کو دکھایا گیا ایک سے ایک بڑھ کر ٹانک دیا مگر مرض میں افاقہ نہ ہوا۔ جو جمع پونجی تھی وہ تو خرچ ہوئی ہی۔ کاروبار بھی پٹ ہونے لگا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اور میں بے بسی کے عالم میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھی۔ تمہارے سسر اپنی بیٹیوں سے اخراجات اور کاروبار پر گفتگو کررہے تھے تو تم نے بغیر کچھ کہے اپنے ہاتھوں کے طلائی کنگن نکال کر اپنے سسر کے سامنے رکھ دیے تھے اور اندر چلی گئی تھیں۔ اپنی بیماری کے بعد میں نے تمہارا نمازوں میں انہماک بھی دیکھا۔ میں یہ بھی دیکھتی تھی کہ تم ہر نماز میں دیر تک مالکِ دو جہاں کے سامنے ہاتھ پھیلائے رہتی تھیں۔ میں روزِ اول سے یہ بھی دیکھ رہی ہوں کہ تم قرآن کریم کی تلاوت کے بعد مجھے دم کرکے پانی پلاتی ہو۔
سعیدہ میری بچی سعیدہ! اللہ تمہیں اس کی جزائے عطا فرمائے میں دیکھ رہی ہوں کہ میرے بستری زخموں کو تم کتنی توجہ سے صاف کرتی ہو اور ذرا بھی تمہارے دل پر میل نہیں آتا۔ اس بیماری کے عالم میں میں نے تمہارے کتنے ہی روپ دیکھے ہیں۔ کبھی فرمانبردار بہو کے، کبھی وفا شعار دلہن کے۔ کبھی فکر مند بیٹی کے اور کبھی فرض شناس نرس کے۔ بیٹی! اللہ تمہیں ان سب کا اجر عطا فرمائے۔ بیٹی خط لکھتے ہوئے مجھے محسوس ہورہا ہے جیسے آج مجھے کچھ بھی بیماری نہیں ہے۔ میرا داہنا ہاتھ میرا پورا ساتھ دے رہا ہے۔ عقل بھی کام کررہی ہے، یادداشت میں ساری باتیں صاف اور تازہ ہیں۔ میری بیٹی! سعیدہ بیٹی میںتم سے بس ایک ہی التجا کرتی ہوں۔ تم مجھے معاف کردو۔ تمہارے لیے خار میں ہی بوئے تھے۔ تمہاری صاف شفاف تصویر کو میں نے ہی دھندلا کیا تھا۔ تمہارے خاوند کو میں نے ہی اکسایا تھا۔ میری بیٹی، میری اچھی بیٹی سعیدہ! مجھے معاف کردو، معاف کردو، مجھے سعیدہ! میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ اس بیماری میں لوگ شفا یاب نہیں ہوتے پھر وہ جبکہ ایک سزا کے روپ میں ہو۔ بیٹی! تم نے ایک مومنہ، ایک وفاشعار بیوی ایک گھر کی عزت و آبرو کی پاس دار بہو کا کردار ایسا ادا کرکے دکھایا اور جتایا کہ جس کی مثال ملنا محال ہے۔ میری بیٹی میں خط ختم کرتی ہوں۔ یہ خط میرا پہلا اور آخری بھی ہے۔ مجھے جو افاقہ اس وقت نصیب ہے وہ بالکل گل ہونے سے پہلے چراغ کے بھڑکنے کی کیفیت کا مصداق ہے۔ میری تم سے آخری التجا یہی ہے کہ اس گھر کو اجڑنے مت دینا۔ اس کی عزت و آبرو کی پوری حفاظت کرنا اپنی نندوں شہلہ اور سہلہ پر ہمیشہ شفقت کا ہی ہاتھ رکھنا۔ اچھا اب خط ختم کرتی ہوں۔ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔
اپنی کرتوتوں اور خطاؤں کی معترف اور تم سے درگزر چاہنے والی تمہاری دلی خیر خواہ
بدنصیب’’ نصیبن‘‘