نعیمہ جو ام اسامہ کے نام سے معروف ہیں۔ جامعہ ازہر کے ایک بلند پایہ عالم شیخ محمد خطاب کی صاحبزادی اور اخوان المسلمون کے مرشد حسن ہضیبیؒ کی اہلیہ تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد کی شکل میں پانچ بچوں سے نوازا تھا۔ محمد المامون، اسماعیل، خالدہ، سعاد، علیۃ۔
وہ ایک نیک اور بہادر خاتون تھیں۔ انھوں نے جہاد اور ثابت قدمی کا بے مثال نمونہ پیش کیا۔ انھوں نے اپنے گھر کے ہر ہر فرد کو اسلامی طرز میں ڈھالا، اور گھر کو فرحت و سکینت کا گہوارہ بنایا۔ مامون ہضیبی کہتے ہیں کہ الحمدللہ ہمارا گھر وقار و سکینت کی مثال تھا۔ اور والدہ ادب و اخلاق کی مثال تھیں۔ والد ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ اور ہم کو بھی یہ چیز وراثت میں ملی۔
ان دونوں کا رشتہ بہت مضبوط تھا۔ ہماری والدہ نے صرف ابتدائی تعلیم باضابطہ حاصل کی تھی۔ بعد میں انھوں نے خود اپنی محنت اور لگن سے تعلیم کی تکمیل کی۔ یہاں تک کہ وہ قرطبی، ابن حزم اور تفاسیر بھی پڑھتی تھیں۔ اور فرانسیسی زبان میں گفتگو بھی کرلیتی تھیں۔
سیدہ علیۃ جو ام اسامہ کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں، کہتی ہیں: میری ماں پر اللہ کی رحمت ہو، وہ ایک بے نظیر خاتون تھیں، انھوں نے شجاعت کے بڑے عظیم کارنامے انجام دیے۔ اخوان کی نظر بندی کے بعد انھوں نے ان کی بیویوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے گھروں میں سلائی کڑھائی جیسے کام کریں، تاکہ وہ اپنے شوہروں کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے جانے کے بعد اپنے گھر کے لیے خوراک مہیا کرسکیں۔
حسن ہضیبی بیسویں صدی کی چوتھی دہائی کے آغاز میں تنظیم اخوان المسلمون میں شامل ہوئے۔ اور سیدہ نعیمہ اپنے شوہر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے ساتھ ہوگئیں ہر آزمائش کے وقت ان کو ہمت بندھاتی رہیں اور ان کے رازوں کی اس قدر حفاظت کی کہ وہ اخوان کے ممبر رہے اور بہت کم لوگ اس سے واقف تھے۔ تاآنکہ آپ حسن البنا کی شہادت کے بعد جماعت کے مرشد عام ہوگئے۔ ۳۰؍اکتوبر ۱۹۵۲ء کے بعد جب ان کے شوہر کی نظر بندی کا وقت آیا تو نہ صرف یہ کہ وہ صبر و عزیمت کا پیکر بنی رہیں، بلکہ انھوں نے اپنے شوہر کا بیگ تیار کیا اور زادِ راہ کا انتظام کیا اورمحبت بھری نگاہوں سے ان الوداعیہ کلمات کے ساتھ رخصت کیا:فکر نہ کیجیے … اللہ آپ کے ساتھ ہے۔ پھر انھوں نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی : فما کان جواب قومہ الا ان قالوا اقتلوہ اوحرقوہ فانجاہ اللّٰہ من النار ان فی ذلک لآیات لقوم یومنون۔ (عنکبوت)
ایک مرتبہ ان کے پاس ایک وزیر کی بیوی آئی اور اپنے شوہر کی طرف سے اسے یقین دلاتے ہوئے کہنے لگی، فکر نہ کرو، پوری کوشش کی جارہی ہے کہ عدالت تک مقدمہ نہ پہنچ سکے۔ ام اسامہ اس کی چال سمجھ گئیں اور یہ کہتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوئیں: کیا تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ احکام عدالت کی طرف سے صادر ہوتے ہیں اور یہ کہ ان کو سزائے موت ہونے کا اندیشہ ہے؟ سن لو! اپنے شوہر وزیر سے جاکر یہ کہہ دو کہ حسن ہضیبی نے جب اخوان المسلمون کی قیادت سنبھالی تھی، اس وقت وہ جانتے تھے کہ ان کے سلف حسن البنا کو دھوکے سے قتل کیا جاچکا ہے۔ اور ان کا خون علی الاعلان راجدھانی کی سب سے بڑی سڑک پر بہایا گیا۔ ہضیبی اس انجام کو جانتے بوجھتے ان کی جانشینی پر راضی ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنے نفس کو اللہ کی خوشنودی کے لیے قربان کردیا تھا۔
ان کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ وہ اپنے شوہر سے ملنے جیل گئیں۔ اور اپنے ساتھ کچھ کھانا اور کچھ کپڑے بھی لیتی گئیں۔ ایک افسر تفتیش کے لیے آگے بڑھا، گویا وہ کسی حملہ کی قیادت کررہا ہو۔ نعیمہ نے اس سے کہا: بھتیجے! نہ یہ تمہاری جگہ ہے اور نہ تمہاری مہم۔ یقینا تمہاری حقیقی جگہ محاذِ جنگ ہے اور تمہاری مہم دشمن سے دفاع کے لیے اور وطن کی حفاظت کے لیے ہتھیار اٹھانا ہے۔ نہ کہ روٹی، آلو کی تفتیش کرنا، یہ سن کر افسر بہت شرمندہ ہوا اور یہ کہتے ہوئے واپس ہوا ’’بالکل سچ کہا، سیدہ۔‘‘
ان کی اصول پسندی اور سادگی کے بارے میں عبدالحکیم عابدین کہتے ہیں کہ جب شیخ ہضیبی ۱۹۵۲ء میں سعودی عرب اور شام کے سفر پر نکلے تو اس گاڑی کا ڈرائیور آیا جو مکتب الارشاد کی طرف سے مرشد کے لیے مخصوص کی گئی تھی۔ شیخ نے دریافت کیا کہ گاڑی کا کیاہوگا؟ اخوان نے کہا: اسے مرشد عام کے اہلِ خانہ کے تصرف میں رکھ دو۔ ڈرائیور کچھ ہی دیر بعد واپس آیا اور کہنے لگا کہ سیدہ نے گاڑی کو قبول نہیں کیا، ان کا کہنا ہے کہ انھیں گاڑی کی نہ ضرورت ہے اور نہ اسے استعمال کرنے کاانھیں کوئی حق ہے۔ میں نے ڈرائیور سے کہا: واپس جاؤ اور اپنے آپ کو اور گاڑی کو سیدہ فاضلہ کے تصرف میں رکھ دو۔ البتہ اس نے درخواست کی کہ ان سے ہم ٹیلفیون پر رابطہ قائم کرکے کوئی بات طے کرلیں۔ تاکہ اسے بار بار وہاں سے یہاں اور یہاں سے وہاں جانے کی مشقت نہ اٹھانی پڑے۔ میں نے اس کی اس تجویز سے اتفاق کیا اور انھیں فون کیا تاکہ انھیں اس گاڑی کو قبول کرنے کے لیے آمادہ کروں۔ سیدہ نعیمہ نے فرمایا: یہ گاڑی مرشد عام کے لیے خاص کی گئی ہے، نہ کہ حسن ہضیبی کی ذات کے لیے۔ اب اگر مرشد عام کہیں چلے گئے ہیں، تو ان کے گھر والوں میں سے کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اسے چند قدم جانے کے لیے بھی استعمال کرے۔ مجھے جب اخوان کی مختلف یونٹوں کے جائزے کے لیے نکلنا ہوگا، تو میں اپنا پورا شیڈول بھیج دوں گی۔ وہ شیڈول ہیڈ آفس کی طرف سے منظور ہوجائے تو میرے پاس گاڑی بھیج دی جائے۔ اس کے علاوہ کسی اور کام کے لیے میں وہ گاڑی نہیں استعمال کرسکتی۔
ام اسامہ کی شجاعت اور ثابت قدمی اس واقعہ میں بھی جھلکتی ہے کہ جس وقت ملک سعود بن عبدالعزیز، صدر عبدالناصر کے پاس مرشد عام کی سزائے موت میں تخفیف کی سفارش کررہے تھے، سیدہ ام اسامہ نے بادشاہ کے پاس اپنے اور اپنی بیٹیوں کے دستخط کے ساتھ ایک پیغام بھیجا، جس میں انھوں نے لکھا۔ اے سلطان معظم! اس وقت جب کہ ہم آپ کی بلند اور پاکیزہ خدمات پر اظہار تشکر کرتے ہیں، اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم نے تحریک کے ساتھ جو عہد کیا ہے، او رجہاد کی جو بیعت کی ہے، اس پر مضبوطی سے قائم ہیں۔ ہضیبی شہید ہوجائیں یا باقی رہیں، یہ مزاحمت کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ یہ جنگ ہضیبی اور عبدالناصر کی جنگ نہیںہے۔ نہ اخوان اورحزب انقلاب کی ۔ یہ حق و باطل کی جنگ ہے، کفر وایمان کی جنگ ہے۔ ہدایت اور گمرہی کی جنگ ہے۔ حزب اللہ اور حزب الشیطان کی جنگ ہے۔ یہ دعوت ہی کا پرچم ہمیشہ لہراتا رہے گا، او ریہ جدوجہد ہمیشہ جاری رہے گی۔ اگرچہ ہزاروں شہداء اس کی راہ میں کام آجائیں اور ہزاروں مرد عورتیں اس کی بھینٹ چڑھ جائیں۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہوجائے تاکہ اللہ تعالیٰ حق کو حق کردکھائے اور باطل کو باطل۔ خواہ مجرموں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
آخر کار وہ سیدہ فاضلہ صبرو جہاد کے زہرہ گداز مراحل طے کرتے ہوئے ۹؍مارچ ۱۹۷۶ء مطابق ربیع الاول ۱۳۹۹ھ کو اپنے مولائے حقیقی سے جاملیں۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔