مہاجر ہوں
مرا مسکن کہاں باقی!
کبھی جنگل بیاباں میں مری راتیں گزرتی ہیں
کبھی صبحیں مری ہوتی ہیں دامن میں پہاڑوں کے
کبھی تپتا ہوا صحرا مرا ہم راز بنتا ہے
کبھی کیمپوں میں روز و شب گزرتے ہیں
کبھی سرحد پہ میں بھٹکوں
مگر جنبش کسی جانب بھی کرنا جرم کہلائے
نظر جائے جہاں تک وحشی ہی وحشی دکھائی دیں
جو بندوقوں کا رخ ہر دم مری جانب ہی کرتے ہیں
صدائیں عورتیں بچوں کی اٹھنے بھی نہیں پاتیں
کہ سنگینوں کی نوکیں کام کرتی ہیں
ہزاروں زخم سینوں میں ابھرتے ہیں!
غرض یہ کہ
مرے سب درد و غم
تازہ ہی رہتے ہیں
کوئی رُت ہو، کوئی موسم
مرا افسانہ کہتے ہیں
جسے سننے کبھی کوئی نہیں آتا!
کبھی کوئی نہیں آتا!
مگر میں پھر بھی پُر امید ہوں غم خوار آئیں گے
مدینہ (پھر سے) دہراتے ہوئے انصار آئیں گے!