عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ حَیْدَۃَ الْقُشَیْرِیِّ قَالَ بِمَ بَعَثَکَ رَبُّنَا اِلَیْنَا؟ قَالَ بِدِیْنِ الْاِسْلَامِ، قَالَ وَمَادِیُن الْاِسْلَامِ؟ قَالَ اَنْ تَقُوْلَ اَسْلَمْتُ وَجْہِیَ لِلّٰہِ وَتَخَلَّیْتُ، وَتُقِیْمَ الصَّلوٰۃَ وَتُؤْتِیَ الزَّکوٰۃَ۔
(الاستیعاب لابن عبدالبر)
’’معاویہ بن حیدہؓ اپنے اسلام لانے کا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں رسول خدا ﷺ کے پاس (مکہ) پہنچا، میں نے پوچھا اللہ نے آپ کو کیا چیز دے کر بھیجا ہے؟ آپؐ نے فرمایا میں دین اسلام کے ساتھ بھیجا گیا ہوں۔ میں نے کہا: دین اسلام کیا ہے، اس کی تعلیمات کیا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اپنے پورے وجود کو اللہ کے سپرد کرو اور اپنی ہر چیز سے دست کش ہوجاؤ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔‘‘
یہ مکی دورِدعوت کا واقعہ ہے اس میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ اپنے آپ کو، اپنے جسم و جان کو اپنی ساری قوتوں اور صلاحیتوں کو غرض اپنی ہر چیز کو اللہ کے حوالے کرنے کا نام اسلام ہے۔ یہ مثبت پہلو ہوا، اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ آدمی اپنے کو، اپنے جسم و جان کو، اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو، غرض اپنی پوری زندگی کو دوسروں کے حوالے کرنے سے انکار کردے۔ دوسرے لوگوں کو اپنی کسی چیز میں ذرا بھی شریک نہ کرے، دوسرے لفظوں میں اس کو یوں سمجھئے کہ اپنی کسی چیز کو ’’اپنی‘‘ نہ جانے بلکہ خدا کی امانت سمجھے۔ اسی کا دوسرا نام توحید ہے اور توحید کی عملی شکل نماز ہے۔ اس کو قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی پہلو سے اس میں ٹیڑھ نہ رہے اور اپنا مال خدا کے محتاج بندوں پر خرچ کیا جائے۔