زندگی کا سفر- مثبت اور تعمیری سوچ کے ساتھ

مریم جمال

ایک اندھا شخص باہر سڑک پر کھڑا ہے۔ وہ زور زور سے چلا کر اللہ اور بھگوان کا حوالہ دے کر راہ گیروں سے بھیک مانگ رہا ہے۔ دوسرا شخص بھی دونوں آنکھوں سے اندھا ہے۔ مگر اس فقیر سے کچھ دوری پر کھڑا ہے۔ اس کے گلے میں ایک جھولا ہے۔ اس میں مونگ پھلی اور بھنے ہوئے چنے کے پیکٹ ہیں اور وہ ’’ایک ایک روپیہ ، ایک ایک روپیہ‘‘ کی آواز لگا کر انہیں بیچ رہا ہے۔

راستے میں ایک لنگڑا اور دونوں پیروں سے معذور آدمی وہیل چیئر پر بیٹھا چلا آرہا ہے۔ ’اللہ کے نام پر بابا، بھگوان کے نام پر بابا، دونوں پیروں سے بیکار ہوں بابا۔‘‘ ٹھیک وہیں پر ایک اور آدمی ہے۔ اس کے دونوں پیر پولیو زدہ ہیں، وہ بھی وہیل چیئر سائیکل پر ہے مگر اس میں موبائل پی سی او لگا ہے۔ اور لوگ اس کے پاس آکر کال کرتے ہیں اور پیسہ دیتے ہیں۔ یہ دو مثالیں معذور لوگوں کی ہیں۔ ان دونوں مثالوں میں دو افراد نے اپنی معذوری کو بھیک مانگنے کا جواز بنایا۔ جو ایک سوچ کی علامت ہے۔ جبکہ ان کے مخالف افراد نے اپنی معذوری کے باوجود اپنی معاش کے لیے نئے راستے تلاش کیے اور دوسروں پر منحصر ہونے کے بجائے خود روزی کمانے کی فکر کی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

مثبت سوچ کی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔ افراد اور خاندانوں کی زندگی میں بھی اور فرقوں اور اقوام کی زندگی میں بھی۔ زندگی میں منفی سوچ رکھنے والے گلے شکوے، بغض حسد، نفرت و دشمنی اور لوگوں میں برائیاں، کوتاہیاں اور خرابیاں نکالنے کی بیمار سوچ سے نہیں نکل پاتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے حصہ میں ناکامی و نفرت کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا۔

منفی سوچ ہماری زندگی کی ترقی ہی کو متاثر نہیں بلکہ ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ماہرینِ نفسیات اگرچہ کم ہی باتوں پر متفق ہیں مگر یہ بات سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ مثبت سوچ رکھنے والے لوگ منفی رویہ رکھنے والوں کے مقابلے میں عموماً زیادہ صحت مند ہوتے ہیں اور ان میں توانائی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے منفی سوچ اور منفی رویے ہماری جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو کم کرنے اور انہیں برباد کرنے کا ذریعہ بنتے۔ اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم اس بیماری سے اپنی حفاظت کریں کیونکہ یہ ایسی بیماری ہے جس سے نہ صرف ہماری ذات اور ذاتی صلاحیتیں برباد ہوتی ہیں بلکہ سماج و معاشرہ بھی اس کے برے اثرات سے متاثر ہوتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بارہا مثبت سوچ اختیار کرنے کی تلقین کی ہے اور یہ تلقین منکرین توحید کی ہٹ دھرمی اور منفی سوچ کے بیان سے واضح ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب فرعون کے دربار میں معجزات پیش کرکے اسے الٰہ واحد پر ایمان لانے کی دعوت دی تو اس کی منفی سوچ نے ہی فرعون کو جادوگروں سے مقابلہ کرانے کے لیے مجبور کیا۔ اس کی یہ سوچ اس پر اس قدر حاوی ہوچکی تھی اس نے فرعون پر حق کے دروازے اس وقت بھی نہ کھلنے دئیے جب جادوگرجو خود اپنے فن کے ماہر تھے موسیٰ پر ایمان لے آئے اور پکار اٹھے کہ یہ جادو نہیں اللہ کا معجزہ ہے۔دیکھئے اس واقعہ کے بعد بجائے اس کے فرعون موسیٰ کے ذریعہ پیش کردہ حق کو قبول کرتا کہتا ہے:

اِنَّہٗ لَکَبِیْرَکُمُ الَّذِیْ عَلَّمَکُمُ السِّحْرَ۔

’’یہ تمہارا بڑا استاد ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔‘‘

اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ بَدَّلُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ کُفْراً وَاَحِلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ۔

(ابراہیم: ۲۸)

’’کیا تم نہیں دیکھتے ان لوگوں کو جنھوں نے اللہ کی نعمت کو انکار میں بدل دیا اور اپنی قوم کو تباہی سے دوچار کیا۔‘‘

حضرت عائشہؓ پر افک مبین کے سیاق میں تو قرآن نے واضح طور پر اس بات کا اعلان کیا ہے کہ اہلِ ایمان کو ہمیشہ مثبت سوچ رکھنی چاہیے اور یہ کہ منفی سوچ کے، افراد ہی پرنہیں، سماج و معاشرہ پر بھی برے اثرات پڑتے ہیں۔ فرمایا:

لَوْلَا اِذْ سَمِعْتُمُوْہٗ ظَنَّ الْمُوْمِنُوْنَ وَالْمُوْمِنٰتُ بِاَنْفُسِہِمْ خَیْراً وَّقَالُوْا ہٰذَا اِفْکٌ مُّبِیْنٌ۔ (نور:۱۲)

’’مومن مردوں اور عورتوں اس کے سنتے ہی اپنے دلوں میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا اور یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ کھلا ہوا الزام ہے جو گڑھا گیا ہے۔‘‘

اور

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْراً مِنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضُ الظَّنَّ اِثْمٌ۔

’’اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔‘‘

کہہ کر تو اہل ایمان کو صاف بتادیا کہ بدگمانی جو منفی سوچ ہی کا مظہر ہے تمہارے اعمال نامے کو بگاڑنے والی اور ایمان کو خطرے میں ڈالنے والی ہے۔

انسان اور معاشرہ پر اس کے اثرات

منفی سوچ و فکر کا سب سے پہلا اثر خود انسان کی اپنی زندگی پر پڑتا ہے اور اس کے سبب وہ بہت سی اخلاقی برائیوں اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح منفی سوچ کے اثرات اجتماعی سطح پر گھر، خاندان اور معاشرپر بھی پڑتے ہیں۔ گھریلو تنازعات، رشتوں میں تناؤ، تعلقات میں بگاڑ اس کے نتائج ہیں جبکہ بدظنی، بغض وحسد، صحیح بات کا غلط مفہوم نکالنا، غیبت و بہتان اور اعتماد کی فضا کا درہم برہم ہونا وہ صفات ہیں جو منفی سوچ رکھنے والے انسانو ںکے اندر پیدا ہوجاتی ہیں۔

مثبت فکر سے محروم لوگ مایوسی، کم ہمتی اور تنہائی کا شکار رہتے ہیں۔ عملی زندگی میں مواقع سے فائدہ اٹھانا ان کے بس کا روگ نہیں ہوتا، کیونکہ ان کی نظر ہمیشہ کسی بھی چیز اور معاملہ کے صرف کمزور پہلوؤں پر جاتی ہے اور مضبوط پہلو ان کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ افراد اور چیزوں میں وہ صرف نقائص اور خرابیاں ہی تلاش کرتے ہیں اور خوبیوں اور اچھائیوں پر سے محض ان کی سوچ کے سبب ان کے لیے پردہ نہیں اٹھ پاتا۔

منفی سوچ روز مرہ کی زندگی اور اس کی ترقی کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔ اور انسان خواہ مخواہ لوگوں کو اپنا مخالف اور دشمن تصور کرکے خود کو ایک ایسی جنگ میں مستقل جھونکے رکھتا اور اپنی ذہنی و جسمانی قوتیں اس میں برباد کرتا رہتا ہے جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں۔

محترمہ دتّا ایک ریٹائرڈ فارسٹ آفیسر ہیں۔ ان کے بیٹے امریکہ میں اعلیٰ عہدوں پر ہیں اور وہ خود ستر سالہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ ایک نہایت دین دار اور بے لوث مسلم خاندان سے وہ بہت قریب ہوتی گئیں۔ اس خاندان نے محض اس لیے کہ وہ ایک تنہا خاتون ہیں اور انہیں سہارے کی ضرورت ہے، ان کی دیکھ بھال اور بیماری میں تیمارداری کی۔ اچانک وہ غائب ہوگئیں، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اس گھر سے الگ ہوگئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’وہاں کے سب لوگ بہت اچھے ہیں اور مجھ سے محبت بھی کرتے ہیں مگر وہ تو مجھ سے میرا مال ہتھیانا چاہتے ہیں۔‘‘ یہ ایک موہوم خطرہ ہے جو عدم تحفظ کے احساس کے سبب پیدا ہوا۔ اور اس احساس کی جڑ میں ان کی منفی سوچ چھپی ہے جو انہیں کسی پر بھی اعتماد کرنے نہیں دیتی۔ ان کا حال یہ ہے کہ وہ کسی بھی مکان میں ایک دو ماہ سے زیادہ نہیں رہ سکتیں اس کا سبب وہ یہ بتاتی ہیں کہ پڑوس کے لوگوں کو جب یہ پتا چلے گا کہ یہ بڑھیا اکیلی ہے تو اسے دن میں ہی آکر لوٹ لیں گے۔

ایک چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کے اپنی بہو اور بیٹے کے جھگڑوں سے تنگ آکر ایک روز سمجھانا چاہا اور ان کے رویے پر انہیں تنبیہ کی کہ اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ تمہیں یہ اور یہ نہیں کرنا چاہیے کہ گھر کاسکون قائم رہے اور لڑائی جھگڑے نہ ہوں۔ بھائی نے نہایت خلوص و محبت کے ساتھ نیک نیتی کی باتیں اس لیے کی تھیں کہ خو دبھائی کو روز مرہ کی ٹینشن سے نجات مل جائے۔ مگر بڑے بھائی نے پہلے تو یہ کہا کہ تم بہو اور بیٹے کی حمایت نہ کرو۔ اور آخر کار انھوں نے یہ کہہ دیا کہ ’’تم تو میرے ان دونوں سے بھی بڑے دشمن نکلے۔‘‘ آخر ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ دونوں واقعات میں لوگ کوئی اچھی بات یا اچھا گمان کرنے کی صلاحیت کھوچکے ہیں اور ہر مشورہ اور ہر خلوص میں انہیں دشمنی اور مفاد پرستی نظر آتی ہے۔ اسی چیز نے ان کی زندگی کا سکون و چین چھین لیا ہے۔

جاپان اس وقت صنعت و تجارت میں دنیا میں تقریباً سب سے آگے ہے۔ یہ وہی ملک ہے جس پر جنگ عظیم کے دوران نیوکلیر بم گرا کر تباہ و برباد کردیا گیاتھا۔ عالمی طاقتوں نے اس پر پابندی لگادی تھی کہ وہ دفاعی تجربات اور ایجادات نہیں کرے گا۔ یہاں تک کہ جنگی فوج بھی نہیں رکھے گا۔ جاپان کے ارباب سیاست نے تباہ شدہ جاپان کی تعمیر جدید کے لیے مثبت پالیسی وضع کی اور پھر ملک کی صنعت و تجارت کو ترقی دینے میں جٹ گئے۔ پھر پچاس سال سے بھی کم مدت میں انھوں نے ایک نیا اور عالمی اقتصادیات میں ناقابل شکست جاپان کھڑا کردیا۔

دوسری طرف سوویت روس کی مثال ہے جو دنیا کی دوسپر طاقتوں میں سے ایک تھا۔ مگر استعماری عزائم اور اقوام کو غلام بنانے کی منفی سیاسی پالیسی نے اسے تباہ کردیا اور جدید دنیا کے سامنے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ عظیم طاقتیں بھی کس طرح صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ اس وقت امریکہ اپنی منفی سیاسی پالیسیوں کے سبب نت نئے مسائل میں گرفتار ہے اور تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اس کی بھی تباہی قریب ہے۔

افراد، خاندان اور اقوام پر انفرادی و اجتماعی مثبت یا منفی سوچ کا کیا اثرہوتا ہے اس کی چند مثالیں تھیں۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اپنی انفرادی زندگی میں مثبت سوچ کیسے پیدا کریں۔

خود کو تبدیلی کے لیے تیار کیجیے

شہلا ایک بائیس سالہ خوبصورت اور سلیقہ مند لڑکی تھی۔ جو بھی اس سے ملتا اس کے حسن اور سلیقہ مندی تعریف کرتا۔ مگر اسے اس بات سے بڑی شرمندگی تھی کہ وہ ان پڑھ ہے۔ دراصل گھریلو ماحول اور والدین کی بے توجہی کے سبب وہ اسکول ہی نہ جاسکی تھی۔ اس کی شادی ہوگئی اور جب اس کی پہلی بچی پیدا ہوئی تو اسے اپنی جہالت کا شدید احساس ہوا۔ وہ سوچنے لگی کہ جب اس کی بچی اس سے کہانی سنانے یا پڑھتے وقت کسی مدد کا مطالبہ کرے گی تو وہ کیسے کرپائے گی۔

خوش قسمتی سے اس کے محلہ میں تعلیم بالغات کا سنٹر قائم ہوگیا اور اس کے اندر پڑھنے کا شوق بیدار ہوگیا۔ اور اس نے سنٹر جوائن کرنے کا ارادہ کرلیا۔ وہ خود کہتی ہے:

’’پہلے پہل مجھے اس مرکز تک جانا بہت مشکل معلوم ہوا۔ میں سوچتی تھی کہ ان سے کیسے کہوں گی کہ میں پڑھنے کے لیے آئی ہوں۔ کیا وہ مجھے اور میری عمر کو دیکھ کر میرا مذاق نہیں اڑائیں گے۔ مگر میں نے اس قسم کے منفی جذبات پر قابو پالیا اور تہیہ کرلیا کہ میں پڑھ لکھ کر تعلیم یافتہ بنوں گی۔ اور میں ایک روز مرکز جاپہنچی۔ وہاں ایک لڑکی نے میرا استقبال کیا اور میرے تمام اندیشے رفع ہوگئے۔ صرف چھ ماہ کی مدت میں میری دنیا بدل گئی اور میں لکھنا پڑھنا سیکھ گئی۔‘‘

شہلا مزید کہتی ہے:

’’اب میرے لیے دنیا بالکل بدل گئی ہے۔ میں اخبارات اور کتابیں پڑھتی ہوں، اپنے بچوں کو اچھی اچھی کہانیاں پڑھ کر سناتی ہوں، تعلیم میں ان کی مدد کرتی ہوں اور سب سے اہم بات یہ کہ جب ڈاکیہ خط لے کر میرے دروازہ پر آتا ہے تو میں پہلے کی طرح سہم نہیںجاتی بلکہ پورے اعتماد کے ساتھ خط کھول کر پڑھتی ہوں۔‘‘

اس نے بتایا کہ ایسا صرف اس وجہ سے ممکن ہوسکا کہ میں نے اپنے موہوم اندیشوں اور منفی خیالات پر قابو پالیا جو تعلیم بالغات کے سنٹر جانے سے پہلے میرے ذہن کو جکڑے رہتے تھے۔

ایک انگریز مصنف نے لکھا ہے کہ کنیڈا کی روز کو پولیس غیر قانونی شراب کے دھندے اور شراب پی کر لوگوں کو تنگ کرنے کے الزام میں جیل بھیج دیا۔ دوسروں کو تنگ کرنا اسے بہت پسند تھا، چنانچہ جیل میں ایک بڑھیا اس کا تختۂ مشق رہتی، ایک روز بڑھیا نے تنگ آکر کہا:

’’روز میں نے آج تک تم سے برا انسان نہیں دیکھا، تم اس قدر خراب ہو کہ ہر شخص تم سے نفرت کرتا ہے۔‘‘

بڑھیا کی یہ بات اس کے دل کو چھوگئی اور اسے احساس ہوا کہ اس نے ’’خود کو کیوں قابل نفرت بنالیا ہے۔‘‘ پھر اس نے زندگی بدلنے کا فیصلہ کرلیا۔ شراب سے توبہ کرلی۔ اور جیل سے رہائی کے بعد ایک کمپنی میں نوکر ہوگئی۔ اب وہ اپنے بال بچوں کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزار رہی ہے۔

دراصل تبدیلی کے لیے خود کو تیار کرنا سب سے اہم ہے۔ اس مرحلہ میں بھی منفی سوچ قدم قدم پربزدلی کے طعنہ دیتی ہے اور سمجھاتی ہے کہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ بس اسی سے نجات حاصل کرلینا منفی سوچ کے جال سے نکل جانا ہے۔

نکتہ چینی سے گریز کیجیے!

دوسروں پر نکتہ چینی، نقائص کی تلاش اور مزاق اڑانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ قرآن مجید اس سلسلہ میں واضح رہنمائی کرتا ہے:

’’اے ایمان والو! کوئی گروہ دوسرے کا مزاق نہ اڑائے ۔ہوسکتا ہے وہ اس سے بہتر ہوں۔ اور نہ مومن عورتیں دوسری مومن عورتوں کا مزاق اڑائیں ہوسکتا ہے وہ ان سے اچھی ہوں۔‘‘

یہاں نہ صرف ہمیں لوگوں کا مزاق اڑانے اور برائیوں کی تلاش سے روکا جارہا ہے بلکہ دوسروں کے اندر ایسی خوبیاں تلاش کرنے کی تلقین کی جارہی ہے جو اب تک ہماری نظر میں نہ آئی ہوں۔ نکتہ چینی اور مزاق اڑانے کا نقصان کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں اسی طرح لوگوں کو ہر وقت ٹوکتے رہنا بھی درست نہیں کہ فوراً اصلاح پر اتر آئیں۔ غلطی پر دوسروں کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرنا منفی سوچ کی علامت ہے البتہ خلوص و محبت کے ساتھ سمجھانا اسلام کا بھی تقاضا ہے اور مثبت سوچ کا بھی۔

یاد رکھئے

٭ حسن اخلاق بیش قیمت سرمایہ ہے اور منفی سوچ اسے ضائع کردیتی ہے۔

٭ برائی کے اندر سے اچھے پہلو تلاش کرنا اعلیٰ سوچ ہے، اسے حاصل کیجیے۔

٭ اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنا اور دوسروں میں خوبیاں تلاش کرنا کامیاب شخصیات بڑی خوبی ہوتی ہے۔

٭ معاف کرنا اور حسنِ ظن سکون قلب سے ہمکنار کرتے ہیں۔ ان سے فیضیاب ہوئیے۔

٭ اپنی شخصیت کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کو تلاش کیجیے اور نوٹ کیجیے۔

٭ اپنا وقار بنائے رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ دوسروں کے وقار کی حفاظت کی جائے۔

٭ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اپنے وقار کا مسئلہ ہرگز نہ بننے دیں۔

٭ اچھی کتابیں اور اچھے دوست تلاش کریں۔

٭ دوسروں کی مذمت اور برائی ہرگز نہ کریں۔ اگر کوئی شکایت ہو تو طنز کے بجائے واضح الفاظ میں اظہار کریں۔

خود اعتمادی

خود اعتمادی بھی منفی سوچ کے خاتمہ میں کلیدی رول ادا کرتی ہے۔ جو لوگ اپنی صلاحیتوں کے ادراک سے قاصر رہتے ہیں وہ اکثر دوسروں پر نقد و تبصرہ کرنے میں وقت برباد کرتے ہیں۔ اس لیے اپنی خوبیوں کو پہچان کر تعمیری اور مثبت رخ دینا آپ کا سب سے اہم کام ہے۔ اگر آپ کو اپنی ذات پر اعتماد ہے تو آپ کو اس کی قطعی فکر نہ ہوگی کہ لوگ آپ کے بارے میں کیا کہتے اور سوچتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو اپنی ذات اور اپنی صلاحیتوں پر بھر پور اعتماد نہ ہو تو لوگو ںکے نقد و تبصرے آپ کی سوچ کے تعمیری اور مثبت بننے میں رکاوٹ پیدا کریں گے۔

اور یہ ہرگز نہ بھولیں کہ اگر آپ زندگی کو بھر پور سکون و اطمینان سے گزارنا چاہتے ہیں تو اچھا سوچیں، اچھا کریں اور ذہن کو پاک و صاف افکار و خیالات سے آراستہ کریں۔ کیونکہ دنیا سے لینا اور دنیا کو کچھ دینا دونوں صرف اچھی، تعمیری اور مثبت سوچ کے ساتھ ہی ممکن ہے۔

اختیار کریں

دور رہیں

٭ذہن وفکر میں وسعت پیدا کریں۔

٭جسمانی قوت اور خود اعتمادی بڑھائیں۔

٭جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھیں۔

٭کام کریں اور خاص میدان میں شناخت بنائیں۔

٭زندگی بھر علم میں اضافے اور سیکھنے پر زور دیں۔

٭وقت کا صحیح استعمال اور پابندی سیکھیں۔

٭ عزم اور ایمانداری کو زندگی کی بنیاد بنائیں۔

٭اچھی صحبت اور اچھی کتابیں منتخب کریں۔

٭ پیسے کا صحیح استعمال کریں۔

٭ آسان راستہ چنیں اور رکاوٹوں کو دورکریں۔

٭تنگ دلی، حسد اور عداوت سے دور رہیں۔

٭ناکامی کا خوف اور اپنی کمزوری کے احساس کو ترک کریں۔

٭جسمانی اور ذہنی قوتوں کو منفی راستوں سے محفوظ رکھیں۔

٭ کاہلی چھوڑیں اور جیک آف آل بننے کی کوشش نہ کریں۔

٭تجربات اور مطالعے سے جی نہ چرائیں۔

٭وقت کی بربادی اور غیر منظم زندگی سے توبہ کریں۔

٭بزدلی اور بے ایمانی کا ہرگز سہارا نہ لیں۔

٭بری صحبت اور غیر تعمیری لٹریچر سے دور رہیں۔

٭بخل اور فضول خرچی کو قریب نہ آنے دیں۔

٭مشکلات اور آزمائشوں کو دعوت نہ دیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146