(۱)
بڑی بھابھی بیاہ کر آئیں۔ ابھی ان کے ہاتھ کی مہندی بھی نہیں اُتری تھی کہ ایک روز والدہ محترمہ غرّائیں۔ ’’اری اوسہ جادی (شہزادی) دن رات دن پلنگ توڑتی رہتی ہے۔گھرکا کام کاج تیری میّا کرے گی آن کر۔‘‘
دراصل بات یہ تھی کہ بھابھی کے میکے سے دان دہیج ماں جی کی امیدوں سے بہت کم ملا تھا حتیٰ کہ شگن کے موقع پر رسم ورواج کے مطابق انھیں ساڑی بھی نہیں ملی تھی اور وہ جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لئے اتاولی ہورہی تھیں ۔
بھابھی جدّی پشتینی رئیس گھرانے سے آئی تھیں۔ بھلاوہ کس سے دبنے والی تھیں۔ماں جی کے تیروتفنگ کے جواب میں انہوں نے یوں زبان کھولی جیسے سان پر لگی لگائی میرٹھ کی قینچی ہوتی ہے۔
’’ میری میّا نے نوکرانی بناکر نہیں بھیجا تھا تمہارے گھر۔ ڈیڑھ لاکھ کا جہیز لائی ہوں۔تمہارے جھوٹے برتن مانجھنے نہیں آئی۔نوکر چاکر رکھنے کی توفیق نہیں تھی تو کہیں چھوٹی موٹی جگہ رشتہ ڈھونڈا ہوتا۔‘‘
ماں جی نے تیر تفنگ سے کام نہ چلتے دیکھا تو انھوں نے گویا اپنی دونالی میں کارتوس بھر کر داغنے شروع کردئیے۔
’’اری بڑی آئی دھنا سیٹھ کی ساہب جادی۔(صاحب زادی )تن پر نہیں لتّہ۔ پان کھائے البتہ۔ (بنارسی کے کلکتہ )بڑی آئی ڈیڑھ لاکھ کا دہیج لانے والی۔میّا کی شادی کے سمے کے چار لتڑے (پھٹے پرانے کپڑے )کیا لے آئی لوٹن کبوتر بنی اکڑ اکڑ پھرتی ہے بڑی آئی مسٹنڈی کہیں کی۔‘‘
بھابھی نے ماں جی کی دونالی کے جواب میں اپنی توپ میں بارود بھرا اور ماں جی کی طرف رُخ پھیرا۔
’’چار لتڑے نہیں۔پورے اکیاون جوڑے لائی ہوں۔اکیاون ۔اکیاون کی گنتی آتی ہے کیا۔؟ اور پانچ سیٹ سونے کے زیوروں کے اور دو سیٹ ہیروں کے اور یہ تیرے کانوں کے ٹیٹکے۔میرے ڈیڈی نے پورے پانچ سو خرچ کئے ہیں،ان پر۔انھیں پہن کر مٹکتی پھرتی ہے۔ کبھی زیور کی شکل بھی دیکھی تھی کیا۔؟
’’اری جابڑی آئی ٹیٹکوں والی۔‘‘ ماں جی نے کانوں سے ٹیٹکے کھول کر بھابھی کے منہ پر پھینکنے کے خیال سے ہاتھ کانوں کی طرف بڑھائے،لیکن یہ سوچ کر کہ غنیم کا مال اسے سیدھے سیدھے لوٹا دینا جنگی مصلحتوں کے خلاف ہے انھوں نے ہاتھ کھینچ لئے اور انگلیاں نچا نچا کر کہنے لگیں۔ایسے ٹیٹکے (پھٹ پاتھ (فٹ پاتھ )پر دوئی دوئی روپے میں بکتے پڑے ہیں۔تیرے باپو نے کبھی پانچ سوکی شکل بھی دیکھی ہے جو میرے لئے پانچ سو کے ٹیٹک لے آیا۔‘‘
بھابھی نے لوہا گرم دیکھ کر ہتھوڑا چلایا۔‘‘ہاں لے آنا فٹ پاتھ سے دوئی دوئی روپئے میں۔ یہ نقلی مال ہے تو کانوں میں کاہے لٹکائے پھرتی ہو۔لااُتار۔کبھی زیوردیکھا زندگی میں۔‘‘
بھابھی نے ماں جی کے آن کو للکارا تھا۔ماں جی نے ٹیٹکے اُتار بھابھی کے منہ پر دے مارے۔‘‘لے کمینی سنبھال اپنے ٹیٹکے۔ ہمارے زیوروں سے ٹرنک بھرے پڑے ہیں۔ توہی نگوڑی بھک منگوں کے گھر سے آئی ہے۔
بھابھی نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔’’پھٹ پاتھ سے لئے ہوںگے زیوردوئی دوئی روپئے میں۔‘‘ بھابھی نے ماں جی کے لہجے کی نقل اتارتے ہوئے ناک سکوڑکر کہا۔
’’ارے ہم تو خاندانی رئیس ہیں۔تمہاری طرح بڑھا پے میں دولت کا منہ نہیں دیکھا کہ آنکھیںپھٹنے لگیں۔ کپڑوں سے باہر ہونے لگیں۔سیر میں سواسیر کیسے سمائے۔!‘‘
بھابھی کی گھن گرج نے مکان کے درودیوار تک ہلادیئے۔والدہ صاحبہ نے یتیم کی سی بے بسی سے گھر کے ایک ایک فرد کی طرف (حتیٰ کہ اپنے پر میشور کی طرف بھی) التجا بھری نظروں سے دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں سب سے کمک کی درخواست کی،لیکن سبھی کے سبھی آنکھیں پھیر گئے اور میدان جنگ میںغداری کرگئے۔ہائے جن پتوںپہ تکیہ تھا وہی پتیّ ہوا دینے لگے۔
بھابھی فتح کے پھریرے لہراتی،کامرانی و نصرت کے ڈنکے بجاتی پھرتی رہیں اور ماں جی پسپائی کاداغ ماتھے پر لگائے اپنے کمرے میں ٹسوے بہاتی پھریں۔
اس شکست کے بعد ماں جی بھابھی سے کنّی کاٹنے لگیں اور گھر کے ایک ایک فرد پر لعن طعن اور پھٹکاروں کی وہ مار ماری کہ تو بہ بھلی۔ وہ زخمی ناگن کی طرح من میں بدلے کی بھاؤنا لئے موقع کی تلاش میں پیچ وتاب کھاتی رہیں۔
دوسری بھابی آئیں تو انہوں نے ماں جی کا دل اس طرح رام کیا کہ سب حیران رہ گئے۔ دراصل وہ ایسے گھرانے سے آئی تھیں کہ جہاں ہر کام چرب زبانی اور مسکاپالِش سے نکالا جاتاتھا، یعنی پانی بلوکر مکھن نکالا جاتا تھا۔ سات بہنوں اور تین بھائیوں کالمبا چوڑا پریوار تھا۔ اتنی بڑی قبیل داری اور آمدنی کے ذرائع محدود۔ چنانچہ بھابی کے والد نے زبان سے ہی سب لڑکیاں بڑے بڑے امیر گھرانوں میں بیاہ ڈالی تھیں اور غالباً اُنہوں نے بدائی کے سمے بھابھی کو یہ شکشا دی تھی کہ ساس سسر کی سیوا کرتے رہنا، ان کے جوتے بھی سیدھے کرنا تاکہ وہ تم سے سیدھے رہیں۔ چنانچہ چھوٹی بھابھی نے ماں جی کی جی حضوری اور مٹھی چاپی کرکرکے انہیں اتنا بس میں کرلیا تھا کہ اگر (نعوذ باللہ) انہیںزہر بھی دے دیتیں تو ماں جی اسے امرت سمجھ کر پی لیتیں۔
ماں جی نے جب دیکھا کہ دوسری بہو ان کی حمایت میں ہے تو انہوں نے ایک اور ایک گیارہ سمجھتے ہوئے اپنے مورچے پھر سے جمانے شروع کردیئے۔ دوسری بہو کو چوری چھپے دودھ ملائی کھلاکھلا کر جنگ میں کودنے کے لئے ہٹا کٹا کرنے لگیں۔ دوچارساڑیاں بلاؤز اور ایک آدھ زیور بھی خرید کر دے دیئے۔
(۲)
آخر کا ایک دن شبھ مہورت دیکھ کر ماں جی نے لڑائی کا بگل بجادیا۔ ہوایوں کہ ماں جی صحن میں بیٹھی کدو چھیل رہی تھیں۔ چھوٹی بھابھی ان کے قریب پیڑھی پر بیٹھی سرسوں کا ساگ کاٹ رہی تھیں۔ بڑی بھابھی کو دن رات پلنگ توڑنے اور بنتے سنورنے کے سوا کوئی کام بھی نہ تھا۔ بھگوان کی دَیا سے تھیں بھی بہت خوبصورت اس لئے جب کبھی وہ بن سنور کر نکلتیں تو چھوٹی بھابھی جل بھن کر راکھ ہوجاتیں کہ وہ شکل وصورت میں بڑی بھابھی کے بالکل برعکس تھیں۔ اُس روز بڑی بھابھی غسل خانے سے بال دھوکر نکلی تھیں۔ ساون کی گھٹا کی طرح سیاہ بال،ا نہیں جھٹکتی پھٹکتی چلی جارہی تھیں۔ نہ جانے پانی کی کوئی چھینٹ اُڑ کر ماں جی پر گری یا انہوں نے بہانہ بناڈالا۔
’’اری اونباب جادی (نواب زادی) اندھی ہے کیا؟ بالوں سے پانی کی چھینٹ اُڑا اُڑا کر ہمارے اوپر پھینک رہی ہے۔ رام رام رام ہمیں اب پھر نہانا پڑے گا۔‘‘ ماں جی نے بھُس میں چنگاری پھینک کر چھوٹی بہو کی طرف یوں دیکھا کہ گویا انہیں کہہ رہی ہوں کہ بنوّ تیار ہوجا مورچے سنبھالنے کے لئے۔
چھوٹی بھابھی نے ماں جی کی شہ پائی تو انہوں نے بھی وار کردیا۔’’اور نہیں تو کیا مہارانی کی آنکھوں پر چربی چڑھی ہوئی ہے۔ دِکھے جب نا۔‘‘ چھوٹی بھابھی نے اناڑی تیر انداز کی طرح ہوا میں الٹا سیدھا تیر چھوڑا۔ اگر ماں جی کی شہ نہ ہوتی تو وہ سرے سے وار ہی کرنے کے قابل نہ تھیں۔ زندگی بھر ماں باپ سے مسکا پالش لگانے کی مشق کرتی آئی تھیں۔ میدان کار زار میں کود پڑنا ہی ان کے لئے کارے دارد والا معاملہ تھا۔
بڑی بھابھی نے چھوٹی بھابھی کی طرف دیکھ کر یوں ناک سکوڑی جیسے مردہ چوہیاّ کو دیکھ کر سکوڑی جاتی ہے۔‘‘ اری اوبھک منگے کی اولاد، چونچ سنبھال اپنی ورنہ چار دن میں جتنے پر پُرزے نکالے ہیں سب کترکے رکھ دوں گی اور دیکھو اس بُڑھیا کی طرف ۔ صبح سویرے رام کا نام لینے کے بجائے مرنے مارنے پر تُل رہی ہے۔ ارے پانی کی بوندگری ہے کوئی پرنالا تو نہیں گرا۔ ہم کوئی ملیچھ ہیں، اچھوت ہیں کہ جو نہانے کو جاؤگی۔ ہَے رام بُڑھیا ہے کہ آفت کی پُڑیا۔‘‘
بڑی بھابی نے دونوں ہاتھ کو لہوں پر جماتے ہوئے جملہ مکمل کرلیا۔
’’اری جابڑی آئی کوئین بکوڑیا۔ کیا کولہے مٹکا مٹکا کر بات کرتی ہے۔ بے شرم کہیں کی۔ بڑے چھوٹے کا بھی لحاظ نہیں۔‘‘ چھوٹی بھابھی نے بڑی بھابھی پر ایک اور وار کیا۔
’’اری اوبجّو کی آنکھ والی مردار چوہیا۔‘‘ بڑی بھابھی نے چھوٹی بھابھی کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’اس بُڑھیا کی شہ پر میرے منھ لگتی ہے۔ بھوکے گھر کی چھوکری لگی اڑانے خاک۔‘‘
بڑی بھابھی کی ایک ہی پٹخنی سے چھوٹی بھابھی اوندھے منھ جاپڑی تھیں اور ٹسوے بہاتی میدان سے بھاگ کھڑی ہوئیں۔
اب ماں نے مورچہ سنبھال لیا’’اری اوندیدی نکھٹو۔ مجھے بڑھیا کہتی ہے۔ بڑھیا ہوگی تیری میّا جس نے تیری جیسی آفت کی پرکالاہمارے پلّے باندھ دی۔
ارے اوبِشن کے بچے تیری جورو کی یہ ہمت کہ مجھے بڑھیا کہتی ہے۔ میں اس کی زبان نہ کاٹ کے رکھ دوں تو میرا نام بدل دینا۔‘‘
’’مرگئے میری زبان کاٹنے والے۔‘‘
’’ارے مرے تیری میّا۔‘‘
بڑی بھابھی نے اپنی ماں کے نام گالی سنی تو تِلمِلا اُٹھیں۔’’اجی اوسنتے ہو۔ کہاں ہو ذرا باہر تو نکلو، یہ تمہاری میّا میری ماں کو گالی دے گی تو میں ایک کی دس سناؤں گی۔ تمہاری ماں کی زبان کاٹ کے رکھ دوں گی۔ پھر نہ کہنا۔‘‘
بِشن بھیّا پوری طرح بھابھی کے بس میں تھے۔ پڑھی لکھی سُندر ناراوپر سے لکھ پتی باپ کی اکیلی اولاد۔ اب اگر وہ بھابھی کی ناز برداری اور طرف داری نہ کریں تو پھر کس کی کریں۔ بیوی کی للکار سن کر طوعاً وکرہاً باہر نکلے۔ بیوی کی طرف کا مورچہ سنبھالنے کہ کہیں بعد میں ان پر چاند ماری نہ ہوجائے۔
ماں! صبح سویرے بھگوان کا نام لو۔ لڑائی جھگڑالے بیٹھی ہو۔‘‘ بِشن بھیّا نے ہکلاتے ہکلاتے بات شروع کی۔ آخر دوسری طرف بھی ماں کا معاملہ تھا۔
’’ارے او رانڈ کے سانڈ، مجھی کو جھوٹا کرتا ہے۔ میری بلی اور مجھے ہی میاؤں۔ جھگڑا میں نے شروع کیا ہے کہ تیری اس ہوتی سوتی نے۔‘‘ ماں جی بِشن بھیّا کی طرف دیکھ کر گرجیں۔
کس کی بلی۔ کس پر میاؤں۔‘‘ بڑی بھابھی نے بِشن بھیّا کی طرف یوں للکارا جیسے کہہ رہی ہوں کہ بلی کے بجائے ماں کو شیرببر بن کر دکھادو۔ چنانچہ بشن بھیّا ببر شیر کی طرح دہاڑے۔ ماں بَس اب چپ رہو۔ بہت ہوچکا۔ روز روز کی بم چخ ۔ میں بیزار ہوگیا ہوں۔‘‘
ارے اوجوروکے گلام – بڑے آئے بے جار ہونے والے۔ کبھی اُس کتیا کا منہ بھی بند کیا۔ لترلتربولے چلی جاتی ہے۔‘‘
ماں زبان سنبھال کر بات کرو۔‘‘ اب تو بِشن بھیّا سچ مچ اس زور سے دہاڑے کہ غسل خانے کے دروازے سے جھانکتے ہوئے بابو جی بھی سہم گئے۔
’’ارے چپ کیوں رہوں۔ تیرے سُسر کا دیا کھاتی ہوں کیا۔ میرے گھر میں رہنا ہے تو میرا حکم چلے گا۔ نہیں تو منہ کالا کرو یہاں سے۔ اور اس چڑیل کو بھی لے جاؤ ساتھ میں۔‘‘
بڑے بھیّا بھی تاؤ میں آکر بولے۔ میں نہیں جانے والا یہاں سے۔ میرا بھی اس گھر میں ادھیکار ہے۔ جانا تو تمہیں چاہئے۔ ہری دوار میں جاؤ۔ جاکر گنگاجی کے کنارے مالا جپومالا۔‘‘
’’اجی اوسن رہے ہو کیا۔ سن لیا کیا کہہ رہا ہے تمہارا لاڈلا۔‘‘ ماں جی کی للکار سن کر پتا جی نے چھپاک سے غسلخانے کے دروازے کے اندر سر کیا اور چٹخنی چڑھا کر پھر سے نل کے نیچے بیٹھ گئے۔
بِشن بھیّا بڑی بھابھی کو بازو سے پکڑ کر اندر لے گئے۔باہر ماں جی بکتی جھکتی اور ٹسوے بہاتی رہ گئیں۔
………………
یکے بعد دیگرے جس طرح ہم لوگ پیداہوتے چلے گئے تھے۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے سب کی شادیاں بھی ہوتی گئیں۔ بہنیں اپنے اپنے سسرال سدھارگئیں اور نئی نئی بہوؤں نے آآکر گھر کی رونق بڑھانا شروع کردی۔ گھر میں چار چھ بچے بھی آگئے تھے جن سے گہما گہمی بھی بڑھ گئی۔
بڑی بھابھی نے تکڑم بازی سے سبھی بہوؤں کو اپنے جھنڈے تلے اکٹھاکرکے ماں جی اور چھوٹی بھابھی کی سنڈیکیٹ کے مقابلے میں اپنی انڈی کیٹ تیار کرلی تھی۔ نوجوان ترکوں کی ٹولی کے سامنے ماں جی اور چھوٹی بھابھی کی سنڈیکیٹ کی ایک نہ چلی اور ایک ترکوں کی ٹولی بڑی بھابھی کی قیادت میں ایک کے بعد ایک مورچہ فتح کرتی گئی۔انڈی کیٹ کا پلڑا بھاری دیکھا تو چھوٹی بھابھی بھی دَل بدل کرینگ ترکوں کے محاذ میں شامل ہوگئیں۔ ماں جی سنڈی کیٹ میں اکیلی رہ گئیں۔
والد صاحب ماں جی کے لئے ایک مالا (تسبیح) خرید لائے اور انہیں پوجا کے کمرے میں لابٹھایا۔ رام نام جپنے کے لئے۔‘‘