یہ ایک ایسی اطالوی دوشیزہ کے اسلام لانے کا واقعہ ہے جس نے آرٹ اور ماڈلنگ کو ایک باضابطہ فن اور سبجیکٹ کی حیثیت سے سیکھا تھا اور پھر اس میں ترقی کر کے اٹلی کی مشہور ہیرونیوں میں شمار کی جانے لگی تھی۔مسحور کن حسن و جمال کی مالک اس دوشیزہ کی شہرت بام عروج پر پہنچنے لگی اور ایک ماڈل،ہیروئین اور آرٹسٹ کی حیثیت سے دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے حسن اورفن کے مظاہرے کے لیے طلب کی جانے لگی۔اسی کے ساتھ ساتھ وہ ان تمام مفاسد اور برائیوں میں بھی مبتلا ہونے لگی جواس کلچر کا خاصّہ ہوا کرتا ہے۔مارشیلا نے بتایا کہ شروع شروع میں تو اسے یہ سب کچھ بہت اچھا لگا،رقص وسرود کی محفلیں،شراب وکباب کا مشغلہ،دنیا کے مشاہیر کی بانہوں میں جھولنا، دولت مندوں کے ساتھ شب گزاری اسے اپنی ترقی کی معراج معلوم ہوتی تھی۔ مارشیلا کے الفاظ میں جب میں کھڑی ہوتی یا بیٹھتی تو دنیا کے بڑے بڑے صنعت کاروں اور سیاست دانوں کی نگاہوں اور دلوں کا مرکز ہوتی۔ جب قدم بڑھاتی تو سنجیدگی اور متانت کے بڑے بڑے پہاڑوں کی نگاہوں کو اپنے قدموں میںسجدہ ریزپاتی تھی۔اس کے شب وروز ان ہی مشاغل میں گزر نے لگے،اسی دوران ایک شب خیال آیا کہ کیا زندگی یہی ہے؟اس کی انتہا کیاہے؟آخر وہ ذات کون ہے جس نے اس خوبصورت دنیا کو بنایا ہے اور کیاوہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کے حضور دنیا والے اپنی جانیں نچھاور کریں،مارشیلا کے مطابق بس اسی رات میرے دل کی دنیا بدل گئی۔ اس کے بعد میںجب بھی کسی شویا پروگرام میں جاتی تو لوگوں کی میری طرف مرکوز وہی نگاہیں جو میرے دل میں فخر کا احساس پیدا کرتی تھیں، چبھتی ہوئی معلوم ہونے لگیں۔اس رات کے بعد اگرچہ میں عرصے تک محفلوں،کلبوں اور پروگواموں میں شریک ہوتی رہی مگر دل بجھا بجھا تھااور کسی ایسی راہ کی تلاش میں رہنے لگا جومجھے صحیح منزل تک پہنچا دے،اس دوران میں نے عیسائیت سمیت کئی مذاہب کابھی مطالعہ کیا لیکن دل کہیں مطمئن نہ ہوسکا اور آخر کار محسوس ہونے لگا کہ شاید ایک عورت کی زندگی یہی ہے ’’دوسروں کی خوشی کے لیے جینا اور خاک میں مل جانا‘‘اگرچہ دل کی چبھن باقی رہی مگر میں نے چارونا چار خود کو پھراسی ڈگر پرڈال لیا۔
مارشیلا کے بقول میں ایک انتہائی درجے کے متعصب عیسائی خاندان میں اپنے اطالوی ماں باپ کے یہاں پیدا ہوئی تھی۔میںنے ابتدائی تعلیم اپنے شہر ’’ جنوا‘‘ کے اسکولوں میں حاصل کی۔ پھر اپنے خاندان کے ساتھ اٹلی کی راجدھانی روم میںمنتقل ہوگئی۔ یہاں میںنے آرٹس اکیڈمی میں داخلہ لیا۔ میں اکیڈمی میں طالب علمی کے زمانے میں ہی اپنی خوبصورتی کے باعث لوگوں کی نظروں کا مرکز بننے لگی تھی۔ روم کے مشہور آرٹسٹوں نے مجھے اپنے فن پاروں اور تجارتی کاموں میں ماڈل کی حیثیت سے کام دینا شروع کر دیاتھا۔ میں اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ماڈلنگ بھی کرتی تھی۔’’فیشن شو‘‘ کے پروگراموں میں بھی حصہ لیتی تھی۔ان کاموں سے میری شہرت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہا۔اب مجھے فلموں میں بھی کام ملنے لگا تھا جس سے شہرت کے ساتھ ساتھ مال و دولت کے دروازے بھی واہونے لگے تھے۔میں نے شہرت ودولت کی چھائوں میں آرٹس اکیڈمی میں اپنی تعلیم مکمل کی۔
اسی دوران میرا آخری مقصد اطالوی سینما پر چھا جانا اور دیگر ہیرونیوںکو اپنے پیچھے دھکیل دینا تھا۔اسی عرصے میں میری ملاقات اٹلی کے ایک بڑے اور مشہور پر وڈیوسر ’’بیٹرو جرائس‘‘ سے ہوئی۔ انہوں نے مجھے اپنی ایک فلم میں ہیروئین کے لیے منتخب کرلیا جس میں مجھے زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور پھر میں کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کرتی گئی یہاں تک کہ اطالوی ہیروئنیوں کو مجھ پر رشک وحسد ہونے لگا۔میری زندگی اطالوی سنیما کے پردے پر شہرت، مال اوردنیاوی عزت کے سائے میںگزرنے لگی۔ ان دنوں میں اپنے فنی اور پیشہ وارانہ کام کے سواء کچھ اور نہیں سوچتی تھی یہاں تک کہ میں نے کچھ دوسرے ہیرو اور ہیروئنوں کے ساتھ مصر میںدوسری عالمی جنگ پر بننے والی فلم میں ہیروئین کا کردارادا کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے اور مصر کے ایک معروف شہر ’’ مرسی مطروح‘‘ کا سفر کیا جہاں ہمیں مذکورہ فلم پر کام کرنا تھا۔شہر میں گزرتے ہوئے ایک بار مجھے ایک مقام پر کچھ دیر کے لئے رکنا پڑا۔میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ایک چھوٹی سی عمارت کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اندر پہنچ کر اپنے جوتے اتارتے ہیں۔ ہاتھ منھ دھوتے ہیں اور پھر نشست وبرخاست کاساعمل کرتے ہیں۔پہلے تو مجھے یہ ایک بے معنی سا عمل محسوس ہوا لیکن پھر میری دلچسپی بڑھی اور میں گاڑی میں بیٹھے بیٹھے دیکھنے کے بجائے اسی عمارت میں کچھ اندر تک چلی گئی۔ میں نے دیکھا کہ وہاں میری طرف کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ لوگ بڑی سادگی اور انکساری سے عمارت کے صحن میں پہنچتے اورپہلے سے صف بہ صف کھڑے کچھ لوگوں میںشامل ہوجاتے۔یہ لوگ سب کے سب ایک ساتھ جھکتے۔ایک ساتھ زمین پر ماتھا ٹیکتے اور ایک ساتھ کھڑے ہوتے۔ میں کھڑی ہوئی سوچتی رہی کہ ان لوگوں کے یہ لمحات کتنے پر سکون ہیں۔یہ لمحات مجھے اپنی پوری زندگی میں کبھی میسر نہ آئے تھے۔میںنے باہر آکرلوگوں سے عمارت اور ان لوگوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ عمارت مسجد ہے اور یہ لوگ مسلمان ہیں جو اپنے خالق کی عبادت کررہے ہیں۔یہ میری زندگی کاپہلا موقع تھا جب میں نے کسی مسجد کو دیکھا تھا۔ اسی طرح یہ بھی پہلا موقع تھا جب میں نے کسی مسجد میں عبادت کرتے ہوئے مختلف عمروں، لباسوں اور سماجی اعتبار سے مختلف سطح کے لوگوں کو ایک ساتھ کھڑے ہوکر عبادت کرتے ہوئے دیکھا تھا یہاں تک کہ میں نے ’’ مسلمان‘‘ نام کی کسی جماعت ہی کو پہلی بار دیکھاتھا،ان کے سکون،برابری اور پاک بازی پر مجھے رشک آیاتھا،اسی منظر کو دیکھنے کے بعد جگر پگھلادینے والی وہ راتیں اور یادیں پھر میرے دل کا دروازہ کھٹکھٹانے لگی تھیں جن میں میں کسی منزل کی تلاش میں سرگرداں رہی تھی۔
میں دوسرے دن پھر اسی مسجدمیں گئی،کچھ دیر اس کے دروازے کے سامنے کھڑی رہی اورنمازیوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتی رہی،نماز ختم ہونے کے بعد میںنے ان میں سے ایک دو لوگوں سے تھوڑی بات چیت کی۔ میںنے پایا کہ یہ نیک طبیعت اور سادہ مزاج لوگ ہیں بغیر ہیر پھیر کے بات کرتے ہیں، جو ان کے دل میں ہے وہی اپنی زبان پر لاتے ہیں،وہ مجھ سے ’’ بیٹی اور بہن کہہ کر ہم کلام ہوئے، مجھے ان کی گفتگوسے اپنے لیے تحفظ کاسا احساس ہوا کیونکہ ابھی تک میں نے اپنی زندگی میں مفاد بھری اور جھوٹی محبت کامشاہدہ کیاتھا یہاں تک کہ ’’بیٹی‘‘ اور’’ بہن‘‘ جیسے خلوص بھرے الفاظ میںنے اپنی پوری باشعور زندگی میںاپنے لیے نہ سنے تھے۔فلم کی شوٹنک ختم ہوئی اور ہم سب اٹلی لوٹ آئے۔ اٹلی میں مَیں نے اپنے ایک دوست کو منھ بولا شوہر بنا رکھا تھا۔ یہ دوستی اور شوہری بھی ہم دونوں کے مفادات پر مبنی ایک تحریری معاہدہ کی روشنی میں آگے بڑھ رہی تھی جیسے دو تاجر آپس میں معاہدہ کر کے کوئی کمپنی بنالیں۔ میںنے گھر آکر اس معاہدے کو ایک بار پھر پڑھا، اس کے ہر ہر پوائنٹ پر غور کیا۔میں جس قدر بھی اس پر غور کرتی،اپنی حماقت اور بے عقلی کا حساس فزوں تر ہوتا جاتا۔میں نے اسی کاذکر اپنے شوہر اور دوست سے بھی کیا۔ان کو میری یہ باتیں پسند نہ آئیں۔ رشتہ میں درار سی پڑگئی جس میں ہر روزاضافہ ہوتا گیا۔میرے کچھ خیر خواہوں نے ہم دو نوں میںمصالحت بھی کرانے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکی۔اس مصالحت کے ناکام ہونے میںمیری بدلی ہوئی سوچ کو زیادہ دخل تھا۔آخرکار ہم دونوں علیحدگی پرمتفق ہوگئے یہاں تک کہ عملاً علیحدہ ہوگئے۔
مارشیلا اب فلموں کے معاہدوں پر دستخط کرنے سے گریز کرنے لگی کیونکہ وہ اپنے گھر کے کسی حصے میںتنہائی میں بیٹھ کر گھنٹوں سوچتی رہتی،اسی کے ذہن کی تختی پر ان سادہ سے مسلمانوں کااخلاق،ان کی عبادت کی سادگی،نماز کے د وران چھوٹے بڑے میںبرابری،ان کے دلوں اور اخلاق کی پاکیزگی کچھ اس طرح نقش ہوگئی تھی کہ گھوم پھر کر مصر کے محلے کی اسی چھوٹی سی مسجد کی تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی تھی۔مارشیلاکے مطابق ایک دن میںاپنے شہر میںکچھ ضروریات کے لیے نکلی،گاڑی چلاتے ہوئے میری نظر ایک بورڈ پر پڑی جس پر انگریزی اورعربی زبان میں لکھا ہوا تھا’’ مرکزاسلامی روم‘‘۔میں نے گاڑی روکی۔ نیچے اتری،مسلمانوں سے ملاقات ہوئی،میں نے انہیںاپنے یا اپنے ’’درد‘‘ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا،ہاں صرف ان سے اطالوی زبان میںقرآن کریم کاترجمہ مانگا۔ان میں سے جو صاحب میرے پاس قرآن کریم کا ترجمہ لے کر آئے وہ ایک پیکٹ اور ساتھ میںلائے جس پر لکھا ہوا تھا ھدیۃ خالصۃ من الاخرۃ الی اختھم المکرمۃ ‘‘یعنی بھائیوں کی جانب سے اپنی محترم بہن کی خدمت میں ایک ہدیہ۔ میں نے پیکٹ کو گھر آکر کھول کر دیکھا تو اس میں اطالوی زبان میںکچھ کتابچے تھے جو اسلام اورنبی اسلام کے بارے میں بتاتے تھے،خاص طور سے عورتوں کے بارے میں نبیؐ رحمت کے نظر یات، تفکرات اور اعمال پر کسی قدر تفصیل سے روشنی ڈالتے تھے۔ میں قرآن کریم کے اسی نسخے اور ان کتابچوں کو ایک بیش بہاخزانہ سمجھ کر چھپا چھپاکر رکھتی اور تنہائیوں میںگھنٹوں تک ان کا مطالعہ کرتی۔ یہ کتابچے اورکتاب ہدایت ہر بار مجھ پر نور وہدایت کاایک نیا باب روشن کرتے۔ایک دن خود بخود اور اچانک دل میں خیال آیا کہ جب ایک چیز پر دل جم گیا ہے تو اب تذبذب اور تامل کے کیامعنیٰ؟میں اسلامی مرکز پہنچی اوراپنی خواہش کا اظہار کیا۔میںسمجھتی تھی کہ ایمان لانے کی کارروائی میںچند ہفتے یا چنددن توضرورلگیں گے اور نہ جانے اسی کارروائی کے دوران کن مشکلات سے دوچار ہونا پڑے۔ ایمان کی بنیادی باتیں یا عقائد میں پہلے ہی دل سے مان چکی تھی۔اسلامی مرکز کے برادران نے جو کہ بعد میںمعلوم ہوا کہ وہ اسلام کی گہری سوچ اوروسیع مطالعہ رکھتے ہیں،کہا کہ بس یہی باتیں زبان سے اور دہرالو۔ میںنے ایسا ہی کیا اور پھر ان میں سے ایک بزرگ صورت شخص نے مجھے کلمۂ شہادت بھی کہلوایا۔مجھے اس دن جو قلبی سکون اورراحت محسوس ہوئی وہ میں الفاظ میںبیان نہیں کرسکتی۔اس کے بعد مرکز اسلامی مصر کی ایک اہم ممبر اور کارکن بن گئی۔
مارشیلا کے بقول جب میںنے اپنے دوست اورمنہ بولے شوہر علیحدگی اختیار کی تھی توانہوں نے بوقت رخصت مجھ سے کہا تھا: مارشیلا کبھی کبھی فون کرتی رہنا، تقریباً دوسال کے عرصے کے بعد مجھے خیال آیا کہ انہیں فون کرکے اپنے فیصلے سے آگاہ کروں اور دین اسلام کی خوبیاں ان کے سامنے بھی پیش کروں کیونکہ میںجانتی تھی کہ وہ مجھ سے بے حد محبت کرتے ہیںاگرچہ وہ جوانی کے جذبات پر مبنی ہے۔ اسی طرح وہ ایک مثبت سوچ کے شخص بھی ہیں۔شام کے چار بجے ہوںگے۔میں نے نمبر ڈائل کیا: ہیلو! آواز آئی۔ہیلو! مارشیلا واپسی مبارک ہو۔میںنے کہا! میںصرف ملنا چاہتی ہوں،ایک خبر دینے کے لیے،آواز آئی! میںمنتظرہوں۔میں نے اسی خرافات کی دنیا میںبرسوں گزارے تھے۔ میںنے دوست کو اپنے فیصلے کے بارے میں بتایا اور اسلام کے بارے میں بھی کچھ موٹی موٹی باتیں بتائیں۔ کہنے لگے یہ مذہب بڑھا پے کے لئے بڑا منا سب معلوم ہوتا ہے۔ کیوں نہ ہم ۳۰؍سال بعد اس کو اختیار کریں، میںنے کہا کہ آپ مجھے یہ لکھ کر دے دیجئے کہ تیس سال بعد تک آپ اور ہم ضرور زندہ رہیں گے۔ بولے ہاں،یہ توکوئی گارنٹی نہیں دے سکتا لگتا ہے کہ تم نے کافی سوچ سمجھ کر اور پڑھ لکھ کر یہ قدم اٹھایا ہے؟میںنے کہا:ہاں! وہ بولے کہ کسی مذہب کوقبول کرنے کے لیے میں ابھی خود کو آمادہ نہیں پاتا ہوں لیکن یہ یقین ہے کہ تم نے میرے لیے وہی سوچا ہوگا جواپنے لیے اچھا سمجھتی ہو اور جو تمہارے لیے اچھا ہے میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ میرے لیے ضروراچھا ہے دوسری بات یہ ہے کہ (ہنستے ہوئے) میںیہ بھی یقین رکھتا ہوں کہ اگر پہلے مارشیلا جائے تو پھر خدا بھی ضرور مل جائے گا۔میںنے ہنستے ہوئے کہا کہ:اس کاالٹا ممکن ہے۔
وہ کہنے لگے (نہایت سنجیدگی کے ساتھ) کہ اچھا اسلام لانے کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا۔میں نے کہا کہ: ایک تو اللہ کو ایک ماننا ہوگا تو انھوں نے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ ویسے میں جب کبھی اس بارے میں سوچتا ہوں تو اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ اللہ کو ایک ہی ہونا چاہئے۔میںنے کہا کہ اسلام اللہ کو ایک ہی مانتا ہے، کہنے لگے کہ مجھے اور کیا کرنا ہوگا؟ میںنے کہا کہ آخرت کو ماننا ہوگا۔بولے تم جانتی ہو یہ تو میںتم سے پہلے سے مانتاہوں، میںنے کہا محمد کو آخری نبی تسلیم کرنا ہوگا۔ پلٹ کر بولے ،لیکن میں نے ان کے نظریات اور لائف کو نہیں پڑھا ہے۔ کیا تم نے پڑھا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں وہ پوری انسانیت کی بات کرتے ہیں۔بولے لیکن قتل وغارت گری کی بھی تو بات کہی جاتی ہے،میں نے کہا کہ سب جھوٹ ہے، کہنے لگے کہ اور کیا کرنا ہوگا،میںنے کہا کہ بس ان ہی باتوں کا زبان سے اقرار کرنا ہوگا، کہنے لگے! کہاں؟ میڈیا میں؟ میں نے کہا کہ نہیں میرے ہی سامنے اقرار کر لیجئے۔ کہنے لگے کہ(ہنس کر) تمہارے سوا ایک گواہ اور ہونا چاہئے۔ میں نے کہا کہ اچھا چلواسلامی مرکز چلتے ہیں وہاں ہمارے دیگر مسلم دوست ہیں۔وہاں تفصیل سے بات ہوجائے گی،گاڑی میںنے ہی ڈرائیو کی،راستے میںہنس کرکہنے لگے کہ اس پر یکٹس سے اتنا فائدہ ضرور ہوگا کہ خدا ملے نہ ملے، مارشیلا ضرور مل جائے گی۔میںنے کہا کہ نہیں مارشیلا کو پانے کے لیے پہلے خدا کو پاناضروری ہے۔
آخرکار ہم مرکز پہنچے۔ وہاںذمہ داران سے ملاقات ہوئی۔ معمولی سی گفتگو کے بعد جیسا کہ مجھے تو قع تھی میرے دوست مرکز والوں کی باتوں سے بہت متاثر ہوئے اور کلمۂ شہادت پڑھ لیا۔ میرے دوست نے کہا کہ میرے لئے کوئی اچھا سا اسلامی نام بھی تجویز کردیجئے،انہوں نے’’عبداللہ‘‘ تجویز کیا،پھر میںنے بھی یہی مطالبہ کیا۔انہوں نے میرا نام ’’فاطمہ‘‘ تجویز کیا۔
مرکز کے میرے ایک ساتھی نے کہا کہ میری دعا ہے کہ آپ دونوں پہلے کی طرح ایک ساتھ رہیں۔میرے دوست مسکرا کر بولے کہ میں ابھی فوراً یہ معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہوں،میںنے بھی آمادگی ظاہرکی۔مرکزہی کے ایک بزرگ نے ہمارا نکاح پڑھا دیا اور اس طرح میںمارشیلا انجلوسے فاطمہ عبد اللہ ہوگئی۔
میرے شوہر اس کارروائی کی سادگی سے بہت متأثر ہوئے۔ وہ کہا کرتے ہیںکہ میں سمجھتا تھا کہ اگر مجھے کبھی اسلام لانا پڑا تومسلمانوں کی طرف سے کم ازکم سو دو سو عیسائیوں کو قتل کرنے کا مطالبہ ضرور کیا جائے گا۔ یہ بیان کر کے وہ بہت ہنستے ہیں۔