دہشت گردی

ملکہ افروز

وہ صبح بے سبب ہی گھر سے نکل کھڑا ہوا تھا یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک لیڈر نے تین روزہ سوگ کااعلان کرکے سانس لیتے شہر کی شہ رگ پر پاؤں رکھ دیا ہے۔ نزاعی کیفیت میں تڑپتے شہر کی رونقوں کو تو وہ پہلے ہی اپنی آنکھوں سے دم توڑتے دیکھ چکا تھا جب اس کے اپنے سات سالہ بیٹے نے اس کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا تھا۔

موموبچ جاتا، اگر چار سال پہلے دہشت گردی نے اس کے علاقہ کا محاصرہ نہ کیا ہوتا۔ موموکو تیز بخار تھا، وہ تڑپ رہا تھا، اس کی بیوی بچے کی پیشانی پر ٹھنڈی پٹیاں رکھتی اور بے بس نظروں سے بار بار اس کی طرف دیکھتی ، اس کی ماں کا سرسجدے سے نہیں اٹھ رہا تھا، اور وہ خود جلے پاؤں والی بلی کی طرح پورے گھر میں چکراتا پھر رہاتھا، کانوں میں مسلسل گولیوں کی تڑتڑاہٹ گونج رہی تھی، وہ دہلیز سے قدم باہر کیسے نکالتا! اڑتالیس گھنٹے ہوچکے تھے۔ پولیس ، آرمی، رینجرز کوئی بھی تو ان کی مظلومیت اور بے گناہی تک نہیں پہنچ پارہا تھا۔ دوبدو مقابلہ تھا، دہشت ان کی محافظ بنی، محافظوں سے برسرپیکار تھی، گھن کے ہاتھوں گیہوں پس رہے تھے، مومو کے جسم کی حرارت نے موت کی سردی کو اپنے اندر اتارلیا، اس کی آنکھ سے ایک آنسو نہیں گرا، وہ بے بسی سے اپنی بیوی کو بین کرتے اور ماں کو روتے ہوئے دیکھتا رہا۔مومو کی زندگی ہی اتنی تھی! اس نے خود کو سمجھایا۔

’’اگر ہمارے بیٹے کو دوائی مل جاتی تو وہ بچ جاتا۔‘‘

’’میرے پوتے کو اس شہر کی سیاست نے ماردیا۔‘‘

’’نہیں تقدیر میں یہی لکھا تھا۔‘‘ وہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی قائل کرتا مگر اس واقعہ نے اس کی روح کو بوجھل سا کردیا۔ وہ گھنٹوں لایعنی باتوں پر سوچتا رہتا۔ اسے یہ شہر، یہ علاقہ ، یہ گلی، یہ محلہ اوریہ راستہ کتنا عزیز تھا۔ وہ جب بہت چھوٹا سا تھا، ماں اس کی انگلی پکڑ کر اسے گھر سے جو پہلے ایک جھونپڑی کی شکل میں تھا تین میل پیدل چل کر اسکول چھوڑ کر آتی، واپس وہ اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ خود ہی آجاتا، تب یہ بستی اتنی گنجان نہ تھی، سہولتوں اور آسائشوں کا دور دورہ نہ تھا، اس کا باپ پانی کا کنستر لے کر چار میل دور جاتا، بسوں اور تانگوں کا اڈہ بھی خاصا دور تھا۔ اسے اپنے خالہ کے ہاں جانا ہوتا تو وہ رات ہی سے جوش وخروش سے تیاری شروع کردیتا اور صبح سویرے ہی ماں کے ساتھ پیدل بسوں کے اڈے کی طرف چل دیتا، یہ سب مشکلیں، پریشانیاں بھی کتنی راحت بخش تھیں۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدلتا گیا۔ بانسوں اور چٹائیوں سے ڈھکے اس جھونپڑے میں اینٹ گارے نے جگہ بنائی تو رفتہ رفتہ کچی دیواریں پکی دیواروں اور کنکریٹ کی چھت میں بدلتی گئیں۔ علاقہ پھیلتا گیا، راستے تنگ ہوتے گئے۔ اس کی ماں کے قویٰ میں ضعف اور اس کے جسم میں جوانی کی قوت آتی گئی، ماں نے اس کی تنہائی میں رضیہ کو حصہ دار بنادیا۔ رضیہ بہت سیدھی اور معقول عورت تھی، وہ اس کی اچھی شریک زندگی ہی نہیں بنی بلکہ اچھی بہو بھی ثابت ہوئی۔ ماں اس کی بڑی تعریف کرتی، شادی کے دوسرے سال ہی ان کے ہاں مومو نے جنم لیا، تو وہ دونوں ہی خوشی کے ہنڈولے میں جھولنے لگے، ماں کو بڑھاپے میں ایک کھلونا ہاتھ آگیا۔

وہ دفتر کے لئے نکلتا تو مومو اپنے ننھے منے ہاتھوں سے اسے ٹاٹا کرتا، اس کے رخساروں پر اپنے نرم اور ننھے ہونٹوں سے پیار کرتا تو گہری طمانیت اس کی روح میں اتر جاتی۔ رضیہ باپ بیٹے کی محبت کو چمکتی آنکھوں، مسکراتے لبوں سے دیکھتی رہتی، مگر اب ان چمکتی آنکھوں میں مومو کی جدائی کا رنگ ہمیشہ کے لئے ٹھہرگیاتھا۔ مسکراتے لبوں کی شمع کب کی بجھ چکی تھی جو اسے راتوں کو سونے نہیں دیتی تھی۔ اس کے دل کی طرح شہر کی گلیاں بھی سونی ہوتی جارہی تھیں۔ پہلے وہ دفتر سے آکر رات کے کھانے سے فارغ ہوکر اپنے دوست کلو کے ہوٹل پر گھنٹہ دوگھنٹہ بیٹھ جاتا تھا، امریکی صدر کے انتخاب سے لے کر میونسپلٹی کے انتخابات تک جیسے موضوعات پر ان دوستوں کے درمیان خوب بحثیں ہوتیں، زورو شور سے اختلاف رائے کااظہار ہوتا، سچ مچ وہ مل کر ایک چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتے ، ان کا دوست کلو مسکراتے ہوئے دلچسپی سے انہیں الجھتے ، سلجھتے پھر الجھتے دیکھتا رہتا۔

جس دن اس کے یہ دوست نہ آتے اسے یوں لگتا کہ جیسے اس کے ہوٹل کی رونق اجڑگئی ہو، کاؤنٹر پر دھری اسے اپنی تجوری بھی خالی لگتی کیونکہ اس میں اس کے دوستوں کی حلال کمائی کے اخلاص سے ڈالے ہوئے چند پیسے جو نہ پڑتے۔

پھر اس نے مغرب کے بعد گھر سے نکلنا کم کردیا۔ اس کے دوستوں پر بھی ان کے گھروالوں نے روک ٹوک شروع کردی۔ کلونے اپناہوٹل مغرب کی اذان کے ساتھ بند کرنا شروع کردیا، وہ بوجھل دل کے ساتھ دن بھر کی چھوٹی موٹی آمدنی جاکر بیوی کو دے دیتا، وہ نیک بخت یہ بھی نہ پوچھتی کہ پہلے جو بٹوے بھرے ہوتے تھے وہ اب خالی کیسے ہونے لگے۔ ہیں لیکن اس سوال کا کلو کے پاس بھی کوئی جواب نہ تھا کہ اب شہر کی رونقوں نے میلے ٹھیلے، ہوٹلوں اور تفریح گاہوں کے بجائے گھروں میں گھس کر وی سی آر اور ڈش میں کیسے پناہ لے لی ہے۔ کلو نے سوچا کہ وہ بھی اپنے ہوٹل میں ڈش لگا لے، خوب ہلا گلا تماشہ رہے گا لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے کانوں کو ہاتھ لگائے، نہیں مائی باپ ، اپنے سے یہ دھندہ نہیں ہوگا، یہ تو سراسر شیطانی آلہ ہے۔ ہاں یہ روز جو شہر میں قتل ہورہا ہے لاشیں گررہی ہیں یہ سب کہیں اس کا عذاب نہ ہو، اپن اس میں شریک نہیں ہوسکتا۔‘‘

کلو کی باتیں سن کر وہ اس کی سادگی پر مسکرادیا تھا، شہر پر یہ عذاب اس لئے تو نہیں آرہے ، سائنس کی ترقی کا پہیہ تو آگے اور آگے کی طرف ہمیشہ بڑھتا رہا ہے اور بڑھتا جائے گا۔ آج ایک ڈش ہے کل پورا سیل سیٹ گھروں میں اترآئے گا۔ ایک بٹن دبانے سے ایک مشین ایک سیارے کی سیر کرائے گی تو دوسری مشین دوسری دنیا میں پورے وجود کے ساتھ لے جائے گی، زمان ومکان کی وسعتیں سمٹ کر ایک نکتہ بنیں گی تو پھیل کر آسمان!

جس دفتر میں وہ کلرک تھا وہ حکومت کابہت اہم اور حساس ادارہ تھا، وہ اپنی ملازمت سے مطمئن تھا، ایک بوڑھی ماں، ایک بیوی اور تین بچے… نہیں، تین نہیں دو بچے، موموکو وہ کیوں ابھی تک گنتی میں شمار کرتا ہے، مومو اس کے چمن کا پہلا غنچہ تو بن کھلے ہی مرجھا گیا تھا۔ اس کی تنخواہ پوری ہوجاتی۔ ہوس سے وہ دونوں میاں بیوی ہی پاک تھے۔ صبروشکر ان کی گھٹی میں پڑا تھا اسی لئے انہوں نے مومو کی اندوہناک جدائی کو بھی اسی صبر وشکر کی چادر میں لپیٹ لیاتھا۔

مومو کی موت اور شہر میں امن وسلامتی کی موت ایک ساتھ ہوئی تھی، دہشت گردی کا وہ پہلا راؤنڈ تھا جس نے مومو کی جان لی تھی، پھر تو یہ راؤنڈ ہر دوسرے تیسرے مہینے کھیلے جانے لگے، امن وسکون کا وقفہ گھٹتے گھٹتے مہینوں ہفتوں سے دنوں پر آگیا، ہنگاموں کی جلتی ہوئی چتا پرسکون وسلامتی کے چھینٹے آگ کو مزید بھڑکادیتے۔

اس کی ماں فرمائش کرکے اس سے شام کا اخبار منگواتی، وہ سوچتا کہ ماں کو خبروں سے اتنی دلچسپی کب سے ہوگئی ہے لیکن پھر اسے خیال آتا ہے کہ ماں کو دلچسپی خبروں سے نہیں، شہر کی صورتحال سے ہے۔ کوئی بھی واقعہ بہانہ بن جاتا اور شہر میں خون کی بارش ہونے لگتی۔ میونسپلٹی کی طرف سے چلائی جانے والی کتامار مہم کی طرح شہر کے گلی کوچوں، راستوں سڑکوں پر انسانی لاشیں پڑی نظر آتیں، لیکن انسان مار مہم چلانے والوں کے ہاتھوں کے پیچھے چہروں کی شناخت دھندلی ہی رہی۔ کون اپنا ہے، کون رہزن ، گھر کی آگ گھر ہی کیوں جلا رہی ہے اپنوں کو ہاتھ تاپنے کے لئے اپنوں ہی کی چتا چاہئے؟ یہ کیسا انصاف ہے؟ یہ کونسا حق ہے؟ جسم کیوں لہولہان ہے، یہ سب سوال اس کے اندر جنم لیتے اور مرجاتے۔ اس نے اپنے باطن کی آنکھیں بند کرلیں۔ اسے سکون دل حاصل نہ تھا۔ وہ اپنی روح کی گہرائیوں میں اترنا بھی نہیں چاہتا تھا، آگہی کا یہ دراس نے خود پر بند کردیاتھا۔ کسی نئے، بڑے اور عظیم دکھ سے بچنے کے لئے۔

ایک بار پھر شہر میں سہ روزہ سوگ کااعلان تھا، ماضی قریب کی طرح چار افرادکی موت کا سوگ چالیس افراد کی موت کی بھینٹ چڑھ کر ابدیت میں اتر جاتا ہے۔ وہ دو دن سے گھر میں تھا۔ جس دن سوگ کااعلان ہوا وہ جمعہ کا دن تھا، مہینے کا آخرچل رہا تھا، گھر میں کھانے پینے کی اشیاء ختم ہونے کو تھیں۔ وہ تین روز کے لئے کچھ بھی جمع نہ کرسکا۔

پہلا دن تو جیسے تیسے گزر گیا، گھر میں پڑا دال دلیاپک گیا، بچوں نے زہر مار کر لیا، اس کی ماں اور بیوی کے حلق سے نوالہ نہیں اترا۔ ان کے علاقہ میں پہلے ہی دن چار لاشوں کا تحفہ آیا تھا۔ فضا اتنی بوجھل اور درد ناک تھی کہ وہ ایک دوسرے سے کچھ بھی نہ کہہ سکے، تیسرے دن صبح ہی سے اس کا دماغ بھاری ہورہا تھا۔ رات جاگنے کی وجہ تھی یا کوئی اور بات، اس نے سوچا کہ وہ آج ضرور گھر سے نکلے گا، دفتر جائے گا ،بھلا یہ بھی کوئی مردانگی ہے کہ آدمی نہ چاہتے ہوئے بھی اس ریلے میں بہنے پر مجبور ہو۔ وہ اتنی طاقت رکھتا ہے کہ موجوں سے لڑسکے ’’میں ضرور دفتر جاؤں گا‘‘ اس نے سوچا۔

بیوی نے جب اسے گھر سے نکلنے کی تیاری کرتے دیکھا تو فکر مندی اور پریشانی سے اسے روکنے لگی، ماں کی نرمی اور پھر سختی نے بھی اس کے قدموں کو ڈگمگایا لیکن آج وہ اپنے آپ سے فیصلہ کرچکا تھا،اسے ہر حال میں اس جبری نظر بندی سے بغاوت کرنی ہے۔ وہ ان دہشت گردوں کا ترنوالہ نہیں بنناچاہتا تھا، جوہر گلی پر ، چوک پر، محلے کے صدر دروازے پر، اپنوں کو فتح کرنے کا جنون لئے کھڑے تھے۔ اس نے اللہ کانام لیااور دہلیز سے باہر قدم رکھ دیا۔

اس کا دفتر مین صدر بازار میں تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اسے یہاں سے کوئی بس یا ویگن نہیں ملے گی۔ وہ گھنٹہ بھر پیدل چل کر اس سڑک پر آیا جہاں اس کے خیال میںٹریفک ساٹھ فیصد نہیں تو تیس فیصد ضرور ہوناچاہئے تھا لیکن اکادکا گزرتی گاڑیوں اور چند پبلک ویگنوں نے اس کا حوصلہ کرچی کردیا، شہر کا عجب حال تھا، یوں جیسے کسی سامری جادو گر نے جادو کے زور سے شہر پر موت کاسکوت طاری کردیا ہو، ہر چھوٹی بڑی گلی محلے سڑک اور شاپنگ سینٹر کی دکان بند تھی۔

وہ ایک ویگن میں بیٹھ کر اپنے دفتر پہنچ گیا۔ دفتر میں بہتر افراد کا عملہ گھٹ کر سات افراد پر رہ گیا تھا۔ یہ چند بھی وہ تھے جو انتہائی نزدیک یاقطعی غیر کشیدہ بستی کے باسی تھے۔ دفتر میں اسے دیکھ کر سب پر خوف وحیرت اور استعجاب طاری ہوگیا۔

اسے لوگوں کے چہروں پر حیرت وتحسین دیکھ کر مسرت ہوئی، اسے یوں لگا جیسے اس نے یوم سوگ کا پردہ چاک کردیا ہو،کام وام تو کیاکرنا تھا ایک دو گھنٹے اس نے یونہی گزاردیئے۔ جب شہر میں سے آنے والی خوفناک خبروں کا سلسلہ بہت بڑھ گیا۔ دفتر کے چند لوگ بھی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو وہ بھی اٹھ گیا۔

اس نے شام کا اخبار خریدا جس کی سرخی تھی ’’آگ اور خون کاکھیل جاری ہے۔‘‘

اس کے بھنچے ہوئے ہونٹ اور بگڑگئے تو گویا فائنل راؤنڈ کا آغاز ہوگیا۔ اس نے سوچا کہ اسے ابھی گھر تک پہنچنے کے لئے بھی آگ اور خون میں سے گزرنا ہوگا۔

گھر…یہ شہر بھی تو گھر ہے اس کا گھر، اپنا گھر…سب کاگھر…اسے دور ہی سے آگ اور دھویں کے بادل دکھائی دے رہے تھے۔ شاید آگ اس کے گھر تک جاپہنچی ہے۔ اس نے رفتار تیز کردی۔ محلے میں ہجوم لگا تھا۔ ڈرے سہمے خوفزدہ لوگ اس گھر کی پکی چھت میں بنے بڑے سوراخ کو دیکھ رہے تھے۔ جہاں سے گزر کر کسی بم نے اپنے اندر بھری آگ اس کی ماں، بیوی اور دونوں بچوں پر انڈیل دی تھی۔

ہر طرف انسانی اعضاء اور خون بکھرا پڑا تھا۔ وہ وحشت زدہ اپنے کھنڈر ہوئے گھر کو دیکھ رہاتھا، چند ہی گھنٹوں پہلے تو اس نے دہلیز پار کی تھی۔ اس کی ماں اور بیوی نے اسے کتنا روکا تھا۔ وہ کہہ رہی تھی کہ وہ گھر سے باہر نہ جائے، موت گھات لگائے بیٹھی ہے۔ لیکن موت اور بربریت تو اس کے گھر سے نکلنے کی منتظر تھی اس کے گھر پر قیامت بن کر ٹوٹنے کے لئے!

اس نے تو آج سہ روزہ سوگ کا حصار توڑا تھا۔ دہشت کو شکست دی تھی مگر وہ پھر شکست کھا گیاتھا، تقدیر نے عمر بھر کا سوگ اس کے دامن میں ڈال دیا تھا، آنسو تو اس نے مومو کی موت پر بھی بہائے تھے لیکن آج وہ اپنی ماں کے خون میں تربترچہرے پر اپنا چہرہ رکھ کر پھوٹ کر رورہا تھا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146