حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ شکر کی تعریف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو کوئی نعمت عطا کرے تو اس کے شکرانے میں اپنے مالک کی فرمانبرداری کرے اور نافرمانی سے پرہیز کرے۔ جس طرح کسی چیز میں جتنا گُڑ ڈالا جائے گا وہ اتنی ہی میٹھی ہوگی ٹھیک اسی طرح ہم جتنا خدا کا شکر ادا کریں گے وہ اتنا ہی ہمیں انعامات و اکرامات سے نوازے گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اگر تم شکر کروگے تو میں تمہارے لیے اپنی نعمتوں میں ضرور اضافہ کروں گا۔‘‘
سب سے پہلے جس بات کے لیے ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے یہ ہے کہ اس نے ہمیں انسان بنایا۔ انسان جو اشرف المخلوقات ہے۔ انسان جسے اللہ نے قوت اختیار (Powert of Choice) عطا کی ہے۔ انسان کے طور پر پیدا کرنے کی نعمت کا اندازہ لگانے کے لیے ہم اپنے آس پاس کی مخلوقات، حیوانات اور چرند پرند کو دیکھ سکتے ہیں جو مجبور ہیں۔ وہ نہ بول سکتے ہیں اور نہ سوچ سکتے ہیں جبکہ انسان ان پر اپنا اقتدار رکھتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس نے ہمیں اسلام کی دولت کے علاوہ والدین، بھائی بہن خاندان جیسی نعمتوں سے نوازا اور صحیح و سالم جسمانی اعضا عطا کیے۔ ذرا غور کیجیے۔ دنیا میں کتنے انسان ہیں جو پیڑ پودوں اور پتوں کے سامنے سرجھکا کر اپنے انسان اور اشرف المخلوقات ہونے کی توہین کرتے ہیں اور انہیں اس کا شعور تک نہیں۔ اسی طرح ہم جس خاندان میں رہتے ہیں اس کی محبت اور قربانیاں ہمیں حاصل ہوتی ہیں۔ غور کیجیے ایک ایسے بچے پر جس کے باپ کا انتقال اُس کی ولادت سے قبلہوگیا اور پیدائش کے وقت ماں بھی چل بسی۔ آپ یقینا اس پر افسوس کریں گی اور اس بچے کے مستقبل کے سلسلے میں پریشان ہوںگی، مگر خدا کا شکر ادا کیجیے کہ آپ کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔
اگر انسان اللہ کی نعمتوں پر غوروفکر کرنے لگے تو یقینا وہ محسوس کرے گا کہ ہر سانس پر وہ رب کا ہزار شکر ادا کرنے کا پابند ہے۔یہ حقیقت ہے کہ زندگی اور موت کے درمیان ایک سانس کا ہی تو فرق ہے۔ اگر اگلی سانس نہ آئی تو … اس کا مطلب ہے موت۔ ہر لمحہ موت سے زندگی ملنے پر بھی اگر ہم اپنے رب کا شکر ادا نہیں کرتے تو اس کا مطلب کفرانِ نعمت کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔
شکر کا مطلب صرف یہی نہیں کہ ہم کہیں کہ اللہ تیرا شکر ہے، بلکہ یہ بھی ہے کہ جس نے یہ نعمتیں ہمیں دی ہیں اور یہ سارے احسانات ہم پر کیے ہیں اس کے حکم کو بجالانے کی کوشش ہو۔ شکر کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس زندگی اوربے شمار نعمت دینے والے کے حکم کے مطابق زندگی گزاریں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو گویا شکر کا حق ادا نہیں کرتے۔
آپ نبی کریمﷺ کے طرزِ عمل کو دیکھئے، وہ دن بھر روزہ رکھتے، رات بھر عبادت کرتے یہاں تک کہ پائے مبارک پر ورم آجاتا۔ ایک دن حضرت عائشہؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ آپ تو بخشے بخشائے ہیں، پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
یہ فقرہ اللہ کے لیے آپ ﷺ کی انتہائی فرمانبرداری و شکر گزاری کو ظاہر کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس قول کی روشنی میں اپنے طرزِ زندگی کا جائزہ لیں اور اللہ کے شکرگزار اور فرمانبردار بننے کی کوشش کریں۔