اپنے بچوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے۔ ان کے معاملات میں پورے عدل سے کام لو، اور محبت و شفقت کا حصہ سب کو برابر حصہ ملنا چاہیے۔ چھوٹے اور بڑے کی تمیز ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ اکثر علمائے نفس کا خیال ہے کہ ’’اگر بچہ اور باپ کے ارادہ میں ٹکراؤ ہو۔ تو باپ کے لیے مناسب یہ ہے کہ یا تو چشم پوشی سے کام لے، یا وہ کام ترک کردے۔‘‘ ذیل میں ہم ایک حکایت بیان کرتے ہیں، جس سے بچے کے شعور اور والدین کی طرف سے احتیاط و دور اندیشی کے مسئلہ پر روشنی پڑتی ہے۔
ایک مثال
علم النفس کے ایک مشہور عالم کا ایک بچہ تھا۔ عمر کوئی تین سال کے قریب، بڑا پیارا بچہ تھا اور بڑی اچھی عادتوں والا۔ ایک رات نے اس نے اپنی عادت کے بالکل برخلاف، رات کو سونے سے پہلے حمام میں جانے سے انکار کردیا۔ ماں نے خیال کیا تھکا ہوا ہے، سستی اور کاہلی کے مارے کپڑے نہیں اتارنا چاہتا، وہ خود اپنے ہاتھ سے کپڑے اتارنے لگی۔ لیکن ماں نے دیکھا صاحبزادے بہت رنجور ہیں، دونوں ہاتھوں کی پورے قوت سے کپڑے پکڑے ہوئے ہیں، کسی طرح نہیں اتارنے دیتے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا، بچہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہے اور کسی طرح بھی کپڑے نہیں اتارنے دے گا۔ ماں نے ضد نہیں کی۔ بچے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور کہا: اچھا چلو بستر پر جاؤ نہیں نہاتے نہ سہی۔ لیکن وہ پھر مچل گیا۔ ’’میرے جو کپڑے تم اتارچکی ہو، جب تک انھیں نہ پہن لوں،سونے بھی نہیں جاؤں گا، اس نے سختی سے کہا۔ میں نے کپڑے پہنادیے، کپڑے پہنتے ہی اس کا چہرہ کھل اٹھا اور مسرت کھیلنے لگی۔ نہ رونا، نہ غصہ۔ ماں نے پوچھا بیٹے! تم نے حمام کیوں نہیں کیا؟
اس نے کہا: ’’امی چلئے میں غسل کروں گا۔‘‘ چنانچہ ماں کی انگلی پکڑے وہ حمام پہنچا، خوب ٹھاٹ سے نہایا اور پھر آکر بستر پر دراز ہوگیا۔
ماں اور باپ دونوں کو بچہ کی اس روش پر سخت حیرت ہوئی۔ جب بچہ سوگیا تو باپ کو یاد آیا، کل رات کو اس سے بڑے بچے نے حمام میں جانے سے انکار کردیا تھا اور بغیر حمام کے سوگیا تھا۔ چھوٹے صاحبزادے نے سوچا میں کیوں نہ اپنی شخصیت کا مظاہرہ کروں، چنانچہ مچل گئے، بڑے بچے کو ماں نے اس لیے گذشتہ رات کچھ نہیں کہا تھا کہ وہ سدا سے ہٹی تھا۔ یہ چھوٹا اور فرماں بردار تھا، لہٰذا ماں نے شروع میں اس پر سختی کرنی چاہی، بچہ کو یہ فرق ناگوار ہوا اور اس نے اپنی جان پر بنالی۔ وہ دراصل اس بات پر نہیں مچل رہا تھا کہ حمام نہیں جائے گا، بلکہ وہ اپنے حقوق کے لیے لڑ رہا تھا کہ اس کے اور اس کے بڑے بھائی کے ساتھ یکساں برتاؤ کیوں نہیںکیا جاتا؟
اکثر گھروں میں اس اصول کو مدنظر رکھا جاتا، لیکن یہ بہت ضروری بات ہے کہ ایک بچہ کو جو آزادی ہو، وہی دوسرے کو بھی حاصل ہو۔ تاکہ کسی بچے کے دل میں بھی یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اس کے ساتھ مساوات اور عدل کا برتاؤ نہیں کیاجاتا۔ اوپر کی مثال میں اگر ماں بچہ کی یہ اچھی ضد پوری نہ کرتی تو ہمیشہ اس کے دل میں یہ بات کھٹکتی رہتی کہ بڑے بھائی کے مقابلے میں اس پر ظلم ہوتا ہے اور قیامت تک وہ حمام پر راضی نہ ہوتا ، اس کا رنج اور صدمہ بڑھتا جاتا۔ چنانچہ سونے کے بعد بچہ حمام والا غصہ بھول گیا، لیکن اگر زبردستی اسے نہلایا جاتا تو اس حادثہ کو وہ کبھی نہ بھولتا۔ انسان کی یہ سرشت ہے کہ وہ بہت سی چیزیں اور باتیں بھول جاتا ہے، لیکن اگر اس پر ظلم و زیادتی ہوئی ہو تو وہ اسے کبھی نہیں بھولتا۔
بدسلوکی اور عدم مساوات
اور یہ بدسلوکی اور عدم مساوات کا احساس صرف بچوں ہی کو نہیں ہوتا، بلکہ پختہ عمر کے آدمیوں میں بھی ہوتا ہے۔ آپ اکثر لوگوں کی زبان سے سنتے ہوں گے، ہم تو بڑے اچھے معاملے کے ہیں، لیکن دوسرے نہیں ہیں۔ بلکہ وہ حسنِ معاملہ کے جواب میں بدسلوکی کرتے ہیں۔
اس دنیا میں بچوں کو بڑی بڑی کٹھنائیاں سہنا پڑتی ہیں۔ ممکن نہیں کہ سو تیلی ماں کے زیر سایہ بچہ وہی صبر و طبیعت پاسکے جس کا اپنی مرحوم ماں کے زمانے میں خوگر تھا۔ جو ظلم سوتیلی ماں بچہ پر کرتی ہے اسے وہ عمر بھی کبھی نہیں بھولتا۔ کیونکہ اس کی سوتیلی ماں ہمیشہ اس کی شکایتیں کیا کرتی تھی، اسے مارا پیٹا کرتی تھی، اسے جھڑکیاں دیتی اور گالم گلوج کرتی رہتی تھی۔ اس سے محبت نہیں کرتی تھی۔ اسے تکلیف دیتی تھی۔ وہ یہ سارا ظلم برداشت کرتا تھا اورکوئی اس کی مدد کرنے والا بھی نہیں تھا۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سگی ماں بڑے بچے کے مقابلے میں چھوٹے بچے کو زیادہ چاہنے لگتی ہے۔ اب بڑے بچے پر رنج کے دورے پڑتے ہیں اور وہ خود کو مظلوم سمجھنے لگتا ہے۔ او ریہ ظلم اسے زندگی کے ہر دور میں یاد رہتا ہے۔ روسو کا قول ہے:
’’میں جب کبھی ظلم یا مظلوم کا ذکر سنتا ہوں تو بڑا دکھ ہوتا ہے۔ کیونکہ بچپن میں ایک بار مدرسہ میں مجھ پر ظلم کیا گیا تھا۔ مجھ پر ایک پیالہ توڑنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ جسے میں نے نہیں توڑا تھا اور ایک ایسے جرم کی شدید سزا مجھے دی گئی تھی، جو ہرگز مجھ سے سرزد نہیں ہوا تھا۔‘‘