سب کچھ لٹا کے…

محمد رضی الدین اقبال

وہ بچپن ہی سے بہت غصہ ور مشہور تھی۔ سب سے الگ تھلگ، منفرد، اپنے دکھ سکھ میں مگن رہنے والی۔ اس کی کوئی سہیلی نہ تھی اس کے چھ بھائی تھے اور وہ ان سب میں بڑی تھی۔ اسی لیے گھر میں بھی اس کا کوئی دوست نہ بن سکا۔ چھوٹے بھائی اس کا رعب سہنے ڈانٹ پھٹکار سننے اور طمانچے کھانے کے لیے مناسب تھے۔ بھلا یہ اس کے دوست کیوں کر بن سکتے۔ اماں اپنے مسائل و مصروفیات میں بڑی بری طرح منہمک رہتیں۔ ابا جان اپنے کاروبار میں مگن رہتے تھے۔ پڑوس میں سب کے سب جاہل۔ بھلا وہ اُن سے کیوں دوستی کرے۔ اسکول اور کالج کی سہیلیاں انتہائی بکواسی ہوتی تھیں۔ سوائے ہی ہی – ہاہا کے اور کیا ہوسکتا تھا اُن سے۔ وہ ان سے بھی الگ تھلگ رہتی۔

وہ سارے کالج میں بددماغ، منفرد اور مغرور مشہور ہوگئی تھی۔ البتہ استاد صاحبان اسے پسند کرتے تھے۔ چونکہ وہ محنتی اور سنجیدہ تھی اور ایسی طالبات کا کالج میں فقدان تھا۔ لڑکے اسے دیکھ کر بدکتے تھے۔ ساتھی لڑکیاں اس کے سامنے ہونٹ بھی نہ ہلاسکتیں کچھ ایسا ہی اس کا رعب تھا۔

گھر کے کسی کام میں دلچسپی نہ لیتی۔ گھر میں کون آتا ہے، کون جاتا ہے، اسے کیا خبر اور کیا پروا۔ سارا بوجھ اماں کے کندھوں پر تھا اور اماں اس کاغصہ اس کے چھوٹے بھائیوں پر اتارتیں۔ انھیں کئی کئی مرتبہ برتن دھونے پڑتے اور گھر کی صفائی کرنی پڑتی۔ اماں اِن ڈائریکٹ اسے بتاتیں کہ اب وہ اس کی ان حرکتوں سے نالاں ہوچکی ہے۔ آخر کب تک کوئی برداشت کرے۔

لیکن وہ کوئی توجہ نہ دیتی۔ اپنے کمرے میں گھس کر پردہ گرادیتی اور ضخیم ناولوں میں کھوجاتی۔ کوئی کچھ کہے، کوئی سنے نہ سنے اُس کی بلا سے۔ اماں دیر تک بڑبڑاتی رہتیں۔

وہ اتوار کا دن تھا اور گھر میں غیر معمولی چہل پہل۔ اس نے ناشتہ کے بعد اپنے آپ کو کمرے میں بند کرلیا تھا۔ آج اماں بھی خاموش تھیں۔ کیونکہ ہر مرتبہ تو وہ اُسے ہفتہ کی رات اور اتوار کی صبح میں دس دس مرتبہ یاد دلاتیں کہ گھر دھونا ہے، تو ان موٹی موٹی کتابوں کو چولہے میں جھونک۔ کیا حالت بنارکھی ہے۔ اللہ کی مار، ابھی سے دیدوں پر یہ موٹے موٹے چشمے چڑھا رکھے ہیں… خیر! تو ہاں یاد ہے نا؟

’’ہاں! ہاں اماں یاد ہے۔‘‘ وہ پیر پٹختی ہوئی اپنے کمرے میں چلی جاتی۔ کتنا کہا اماں کو ایک نوکرانی رکھ لو، مگر اُف رے کنجوسی۔’’یہ نوکرانیاں چور ہوتی ہیں!‘‘ اس نے دل ہی دل میں اماں کی نقل اتاری اور دھم سے پلنگ پر گر کر ’’پھول کا دل‘‘ اٹھالیا۔

دوپہر ہوتے ہوتے خالہ جان تشریف لائیں۔ ان کے ساتھ اُن کی ماں، بیٹی اور بڑے صاحبزادے تھے۔ اس نے اکتائی ہوئی نظروں سے انھیں دیکھا اور جبراً و قہراً پیشانی تک ہاتھ اٹھا دیا۔ کیوں آتے ہیں یہ کم بخت؟ ٹھنڈے ٹھنڈے گھر نہ بیٹھیں یہاں آکر تکلیف دیں۔

لیکن آج خالہ جان نے اُسے دیکھ کر منھ نہ بنایا۔ رقیہ نے نظر انداز نہ کیا۔ اُن کی آنکھوں میں عجیب چمک تھی۔ وہ زیادہ دیر تک وہاں نہ ٹھہری اور اپنے چھوٹی بھائی نوید کو بلاتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی آئی۔

ڈرتا ڈرتا نوید داخل ہوا۔ وہ غصہ کو ضبط کرکے بولی۔

’’یہ پورا کا پورا ریوڑ کیوں آیا ہے رے؟‘‘

’’م… مجھے کیا معلوم آپی…!‘‘ بیچارہ بری طرح سہم گیا۔

’’ہاں! ہاں! تجھے تو کچھ نہیں معلوم۔ اماں کے پاس تو گھسا رہتا ہے۔ اُن کی پیالی طشتری دھوکر دیتا ہے غلاموں کی طرح … ‘‘اپی نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ مارا۔

’’اَپی! دیکھئے، بس…! غلام نہ کہیے۔‘‘ یک بیک نوید کو غصہ آگیا۔

’’اچھا نہیں کہتی! بول وہ کیوں آئے ہیں؟‘‘ اپی نے بڑے پیار سے پوچھا اور وہ اسی غصہ میں چیخا۔

’’آپ کو بہو بنانے …‘‘ اَپی نے اس کے منھ پر ہاتھ رکھ دیا اور دانت پیس کر بولی:

’’بھاگ یہاں سے…‘‘ وہ جان چھڑا کر بھاگا۔ اس نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ گہری سوچ میں کھوگئی۔

’’اُف یہ جاہل! انھیں اس کے سوا کوئی اور کام سوجھتا ہے؟‘‘ وہ بہت دیر تک غصہ میں ہونٹ چباتی رہی۔ مٹھیاں بھینچتی رہی۔

کچھ ہی دیر بعد خوش خوش اماں کمرے میں داخل ہوئیں۔

’’اماں یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘ اُس نے تیز لہجے میں پوچھا۔

’’چپ… چپ… اماں ہونٹوں پر انگلی رکھتی ہوئی بولیں۔

’’چل جلدی سے تیار ہوجانا، وہ لوگ کیا کہیں گے۔‘‘

’’نہیں اماں! میں نہیں آؤں گی۔ مجھے یہ سب اچھا نہیں لگتا۔‘‘ وہ فیصلہ کن انداز میں بولی۔ اتنے ہی میں ادھر سے ابّا اس کے کمرے میں داخل ہوئے اور اماں اسے غصے سے گھورتی باہر نکل گئیں۔

’’کیا ہوا بھئی ہماری بیٹی کیوں ناراض ہے؟‘‘ وہ حیران رہ گئی۔ ابا میاں نے ایسی محبت سے تو آج تک نہ کہا تھا۔ وہ پگھل گئی۔

’’ابا میاں! مجھے یہ سب پسند نہیں۔‘‘ وہ ٹھنکی۔

’ارے میری بیٹی! ہمیں بھی یہ پسند نہیں مگر کیا کریں۔ مجبوری ہے۔ یہی تو قانونِ فطرت ہے۔ پھر تو غیروں میں تھوڑی جارہی ہے۔ بشارت تیرا بچپن کا دیکھا بھالا لڑکا ہے اور تیری خالہ بھی کچھ بری نہیں۔ تو دور نہیں جائے گی۔ چل جلدی سے آجا۔ ہم سب منتظر ہیں۔

ابا میاں چلے گئے۔ نہ جانے اُن کے الفاظ میں کیا جادو تھا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے جلدی جلدی منھ ہاتھ دھوکر کپڑے بدلنے لگی۔

ایک مہینے بعد بشارت دولہا بنے گھر آئے اور نہایت سادگی سے اسے اپنے گھر لے گئے۔ وہ بالکل خاموش رہی تھی۔ کچھ احتجاج نہ اعتراض۔ اس موقع پر اس کے من کا کوئی تار نہ جھنجھنایا۔ وہ تو اپنے باپ کی خواہش پر عمل کررہی تھی۔ جو پچیس برس تک اس کے وجود سے بے خبر رہے اور پھر ایک دن اچانک اسے شفقت کے سمندر سے سیراب کردیا۔ کتنے میٹھے بول تھے وہ۔

شادی کے وقت وہ نہ بہت زیادہ خوش ہوئی اور نہ ایک ایک کے گلے لگ کر روئی دھوئی۔ اسے ان تمام باتوں سے سخت نفرت تھی۔ البتہ اماں نے اسے سینے سے لگا کر بہت اثر لیا۔

بشارت بالکل سیدھے سادھے قسم کے انسان تھے۔ بہت سلجھے ہوئے دور اندیش اور متین قسم کے آدمی۔ انھیں اس کی غصہ ور عادت کا علم تھا۔ اس لیے وہ ہمیشہ ہنستے رہتے اور اس فکر میں رہتے کہ اُسے کبھی غصہ نہ آئے۔ مگر اماں بھلا یہ سب نخرے کہاں برداشت کرتیں۔ بہو کی خاموشی اور الگ تھلگ رہنا پن انھیں ایک آنکھ نہ بھاتاشروع میں تو انھوں نے خوب سمجھایا۔ پھر چھوٹے موٹے جھگڑے ہونے لگے۔ وہ کہاں چپ رہتی۔ اس نے کھری کھری سنائی۔ ایک دن بشارت کو اچانک بڑا ہنگامہ خیز غصہ آیا او رانھوں نے اس کے گال پر بھر پور طمانچہ رسید کردیا۔

وہ سکتے میں آگئی۔ نہ روئی اور نہ فریاد کی۔ چپ چاپ کمرے میں آئی۔ ایک سوٹ کیس میں کپڑے بھر کر سب کو حیران و پریشان چھوڑ باہر نکل گئی۔ آٹو رکشا کے ذریعے آدھے گھنٹے بعد وہ اپنے گھر میں تھی۔

اماں اس کو یوں دیکھ کر بوکھلا گئیں۔ وہ تیزی سے اپنے کمرے میں گھسی۔ اس کا کمرہ محفوظ تھا۔ اماں اور ابا میاں کے سمجھاتے بجھاتے کچھ نہ بنا تو بشارت کو بلوایا اور اسے سمجھانے لگے۔ بے چارہ پہلے ہی اداس تھا۔ اماں نے بیٹی کو بلوایا تو اس نے پہلے تو آنے سے انکار کردیا پھر منہ پھلائے آئی۔ اماں اٹھ کر چلی گئیں دونوں اجنبی اجنبی سے بیٹھے رہے۔ آخر بشارت نے سکوت توڑا۔

’’فرحؔ! آخر بات بھی تو کچھ ہو۔ یوں روٹھا نہیں کرتے۔‘‘

’’مجھے ایسے جملوں سے سخت نفرت ہے۔ براہِ کرم مجھے طلاق دے دیں۔‘‘ ایک گولی زناٹے سے چلی اور بشارت کے دل و دماغ میں پیوست ہوگئی۔ وہ غصے سے اٹھ کھڑا ہوا اور بغیر کچھ کہے باہر نکل گیا۔

پھر اسے طلاق ہوگئی۔ اماں، ابا میاں پردکھوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ مگر اسے رتّی برابر فکر نہیں ہوئی۔ اس نے ایک کالج میں نوکری کرلی۔ وہ اپنے کالج کی خشک لکچرر تھی۔

دس برس ہوا کے ایک جھونکے کی طرح گزر گئے۔ کچھ احساس ہی تو نہ ہوا۔ یہ دن کیسے جلدی جلدی مہینے اور سالوں میں بدل جاتے ہیں اور حسرتوں کے داغ چھوڑ جاتے ہیں۔

اس عرصے میں اما ںاور ابا میاں یکے بعد دیگرے … زمین کے پیوند ہوگئے۔ چھوٹے چھوٹے بھائی بڑے ہوگئے کچھ پڑھ لکھ کر نوکر ہوگئے۔ کچھ پڑھ رہے تھے۔ مگر سب کا دل گھر سے اچاٹ تھا۔ گھر میں تھا ہی کون، خشک، بے رس اور غصہ ور اَپی، جس کی دنیا کالج اور کتابوں ہی میں کھوگئی تھی۔جس کی زندگی کی کتاب کے اوراق بوسیدہ ہورہے تھے۔ مگر جس کا غرور اب بھی انتہا پر تھا۔ وہ جانے کیا تھی۔ کوئی نہ جانتا تھا۔

پھر تین بڑے بھائیوں نے اس سے پوچھے بغیر شادی کرلی اور اپنی سسرال میں بس گئے۔ دو چھوٹے بھائی امریکہ چلے گئے سب سے چھوٹا البتہ ابھی پڑھ رہا تھا۔ مگر بھائیوں کی تاکید تھی کہ تعلیم سے فارغ ہوتے ہی انھیں مطلع کرے وہ اسے بھی امریکہ بلالیں گے۔ وہ اکیلی تھی۔

ہمیشہ ہی سے تو اکیلی تھی۔

پھر ایک دن راستے میں اسے بشارت مل گئے۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی اور بچے بھی تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ٹھٹھک گئے وہ دیکھتی ہی رہی مگر بشارت آگے نکل گئے۔ اُن کی وائف اسے جانتی تھی اُسے دیکھ کر وہ مسکرائی۔ وہ گڑبڑاگئی۔ کتنا طنز تھا۔اُن کی نظروں میں، اس کی نظریں، پھر بشارت کی پشت سے ٹکرائیں۔ کیا جاندار انسان ہے یہ۔ کبھی یہ اسی کا تو تھا۔

’’اُف… یہ میں کیا سوچ رہی ہوں۔ ایسی گندی، نیچ باتیں، مجھ جیسی پڑھی لکھی پر زیب بھی دیتی ہیں۔‘‘

وہ گھر کی جانب تیز تیز بڑھنے لگی۔ مگر اب اس کی ٹانگیں جواب دے رہی تھیں۔ اب کتنی تھک گئی ہے وہ۔ اس نے قریب سے گزرتی سواری کو روکا اور بیٹھ گئی۔

گھر میں حسبِ معمول وحشت تھی۔ وہ اپنے کمرے میں آئی۔ کمرے میں کتابوں کا ایک ذخیرہ تھا۔ لیکن آج وہ انھیں ناپسندیدہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اس کی زندگی کے چالیس برس اس کمرے میں ایک خواب کی طرح گزرگئے۔ کچھ پتا نہ چلا۔

اتنے میں اسے ہلکی ہلکی سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ وہ کمرے سے باہر نکلی، آواز گودام سے آرہی تھی۔ وہ بڑھی، گودام میں نوید بٹیھا ایک دھول سے اَٹی پیالی کو تھامے سسک رہا تھا۔ اسے دیکھ کر چپ ہوگیا۔ اسے معلوم تھا کہ اَپی روتے چہروں سے نفرت کرتی ہیں۔ اُن پر سخت برہم ہوتی ہیں مگر آج اَپی اسے گھورے جارہی تھیں اور سوچے جارہی تھیں۔

’’کیوں رو رہے ہو نوید؟‘‘ وہ حیران رہ گیا۔ یہ لہجہ آج کتنا ٹوٹا ہوا ہے۔ ہر وقت تو اس میں کڑک رہتی تھی۔ اُسے سہارا ملا اس کے آنسو ابلنے لگے۔

’’اَپی! اس پیالی کو جانتی ہو۔ اس میں روازانہ اماں چائے پیتی تھیں اور میں اسے دھوتا تھا اور تم مجھے غلام کہتی تھیں۔ اس وقت مجھے کتنا ناگوار گزرتا تھا۔ مگر اب – اب اَپی… کوئی میری اماں، میری مالکن کو بلائے یہ غلام ساری زندگی ان کی غلامی کرے گا۔ اَپی، اماں کے بغیر میں‘‘ وہ بلک بلک کر رونے لگا۔

وہ اسے دیکھتی رہی۔ ’’کبھی کبھی یہ آنسو کتنے بھلے لگتے ہیں۔ انسان کو ہلکا پھلکا کردیتے ہیں۔ مگر میرے آنسو کیوں خشک ہوگئے ہیں۔ میں کب تک ایسی ہی خشک رہوں گی۔ میری زندگی کی خزاں کبھی بہار میں نہ بدلے گی؟‘‘ وہ بے اختیار سوچے جارہی تھی۔ پھر اچانک وہ اٹھی اور نوید کو گلے سے لگالیا۔ وہ کہہ رہی تھی:

’’نوید پیارے! میں ہوں تیری آپا۔ میں ہوں تیری ماں، میں ہوں تیری لونڈی۔‘‘

نوید حیران تھا کہ یہ میری بہن وہی ہیں۔ یا اللہ نے کسی اور کو ان کے بدلے بھیج دیا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146