قرآن مجید تو نازل ہی عمل کے لیے ہوا ہے۔ قرآن کی رہنمائی میں سفرِ زندگی طے کرنا دراصل دنیا میں جنت میں رہنا ہے۔ قرآن مجید پر عمل کرنے سے کتنے زخم مندمل ہوئے، کتنی جدائیاں ختم ہوئیں، کتنے گھر جو تباہی کے کنارے پر پہنچ چکے تھے، سلامتی کے گھر بنے۔ یہ سب کچھ قرآن کریم پر عمل کرنے کی برکت ہے۔ قرآنی راہنمائی سے انفرادی اصلاح کس طرح ہوتی ہے؟ اس سلسلے میں ایک بہن کا تجربہ اس کے اپنے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔
’’مجھے رات دیر تک جاگتے رہنے کی عادت تھی۔ جب صبح مؤذن نمازِ فجر کے لیے اذان دیتا تھا، میںغافل و لاپروا سوئی رہتی۔ اللہ کے فرشتے مجھے نمازیوں میں نہ پاتے۔ اس مبارک وقت میں، میں اور میرے گھر والے شیطان کی گرفت میں ہوتے تھے، ہم سب گہری نیند سوتے۔ بیدار ہونے کے بعد مجھے سارا دن اس کا قلق رہتا۔ میں نے کئی بار صبح سویرے نماز کے لیے اٹھنے کا فیصلہ کیا مگر اس فیصلے نے کبھی عملی صورت ا ختیار نہ کی۔ ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب محترمہ بہن سمیہ رمضان کی زیر نگرانی قرآنی آیات پر عمل کا تجربہ شروع نہیں ہوا تھا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ محترمہ سمیہ نے بہت سی بہنوں کے مسائل حل کردیے ہیں تو میں نے بھی اپنا مسئلہ حل کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ محترمہ سے مشورہ کیا تو انھوں نے مجھے اس ارشادِ الٰہی کے بار بار دہرانے کی تاکید کی:
الذی یرٰک حین تقوم o وتقلبک فی الساجدینo
(الشعرا:۲۱۸-۲۱۹)
’’جو تمہیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اٹھتے ہو، اور سجدہ گزار لوگوں میں تمہاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔‘‘
چنانچہ میں اس نورانی ارشاد کو بار بار دہراتی رہتی اورمیں نے کوشش کی کہ یہ ارشاد مبارک جس طرح میری زبان پر جاری ہے، اسی طرح دل میں بھی پیوست ہوجائے۔
بالآخر وہ وقت آگیا، فیصلہ کن وقت، آیت کے مطابق حرکت کرنے کا لمحہ۔ ادھر مؤذن نے اللہ اکبر اللہ اکبر کے کلمات ادا کیے، ادھر میںنے اپنے بستر پر کروٹیں بدلنا شروع کردیں۔ میں مؤذن کی آواز پر لبیک کہنے سے ہچکچا رہی تھی۔ شیطان میرے لیے نیند کو خوشگوار بناکر پیش کررہا تھا اور نماز کے معاملے کو میری نظر میں معمولی بناکر دکھا رہا تھا۔ ادھر مؤذن کے کلمات مجھے یہ حقیقت یاد دلارہے تھے کہ میں مسلمان ہوں۔ مؤذن کہہ رہا تھا: اشہد ان لا الہ الا اللہ اب مؤذن میرے رسولِ محترم کا ذکر کررہا تھا۔ حی علی الصلاۃ حی علی الصلاۃ مؤذن مجھے بتا رہا تھا کہ فلاح و کامیابی نماز ادا کرنے میں ہے۔حی علی الفلاح مؤذن کے یہ الفاظ اور قرآن کی اس آیت کے کلمات جسے بار بار پڑھنے اور عمل کرنے کا مجھے مشورہ دیا گیا تھا، مجھے نماز کے لیے پکار رہے تھے۔ پھر اذان اور آیت کے کلمات میرے دل میں پیوست ہوتے چلے گئے۔ اب نیند میری آنکھوں سے جاچکی تھی، میں نے اللہ رحمان کو اپنے قریب محسوس کیا اور اس احساس کے ہوتے ہی میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔ میں نے اپنے کپڑے سنبھالے، بڑی شدت سے احساس ہوا کہ میں کمرے میں تنہا نہیں ہوں۔ یہاں کوئی اور بھی ہے۔ وہی جو میری شاہ رگ سے بھی زیادہ میرے قریب ہے۔ اس کے قرب کا احساس ہوا تو میں طہارت کے لیے لپکی، وضو کیا۔ نمازِ فجر ادا کرنے کے لیے اپنے خالق و مالک کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ یہ ہی وہ نماز تھی جس کے پڑھنے کی مجھے بے حد حسرت رہی۔ کتنی بار ارادے باندھے اور توڑے۔ میری آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں اور نماز کے بعد میرے ہونٹوں پر یہ الفاظ تھے: اللہ کا شکر ہے، وہ ذات ہر قسم کے عیب و نقص سے پاک ہے جس نے مجھے، میرے مرنے سے پہلے اس نماز کی توفیق دی اور یوں مجھ پر بڑا کرم کیا۔ اللہ نے مجھ پر چار نہیں پانچ نمازیں فرض کی تھیں مگر میںاپنی سستی و کاہلی کے سبب صرف چار نمازیں ہی ادا کرتی رہی۔ میں نے رو روکر اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگی اور بارگاہِ الٰہی میں دعا کی کہ وہ مجھے آخری عمر تک اسی طرح پانچوں نمازیں ادا کرنے کی توفیق دے۔
توبہ و استغفار کے بعد میں پرسکون ہوکر بیٹھ گئی تو میرے سامنے میری زندگی کی فلم چلنے لگی۔ میں چشم تصور سے اپنی گزری ہوئی زندگی کے مناظر دیکھ رہی تھی۔ میں ایک عام سی لڑکی تھی،جس کی زندگی کا کوئی واضح ہدف نہ تھا۔ میری زندگی کولہو کے بیل کی مانند گھوم رہی تھی، جس طرح مجھ سے پہلے بہت سے لوگ گھوم چکے تھے۔ ایک بے مقصد زندگی۔ بالآخر میری شادی ہوگئی۔ مجھے اپنے شوہر کے خیالات و افکار سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ مجھے تو اس کی پوزیشن اور مال و دولت سے غرض تھی۔ اسے بھی نماز روزے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ صرف دنیا کی گہما گہمی سے سروکار تھا۔ زندگی کی گاڑی یونہی چلتی رہی۔ دنیا میں بچے بھی آگئے۔ مجھے اپنے بچوں سے تعلق تھا۔ وہ کیا کھاتے ہیں؟ کیا پہنتے ہیں؟ اسکول جاتے ہیں؟ پڑھائی کیسی جارہی ہے؟ ہوم ورک کیسے ہورہا ہے؟ میں نے اپنے بچوں سے کبھی بھول کر بھی نہ پوچھا کہ انھوں نے نماز پڑھی ہے یا نہیں؟ انھوں نے کتنا قرآن شریف حفظ کرلیا ہے؟ کیا وہ انبیائے کرام کے حالات سے واقف ہیں؟ انھیں رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے بارے میں کچھ پتا ہے؟ مجھے بچوں کے ان معاملات میں قطعاً دلچسپی نہ تھی بلکہ میں تو دیر تک ان کے ساتھ ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھی رہتی۔ میں ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے پروگراموں، ڈراموں اور فلموں کی بچوں کے لیے تشریح کرتی تاکہ انھیں سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔
میں نماز پڑھ کے بیٹھی تھی، پچھلی زندگی کے بیتے ہوئے رات دن کی یہ فلم میرے ذہن کی اسکرین پر چل رہی تھی کہ میں یکایک اپنے خاوند کے خراٹوں سے چونک پڑی۔ مناظر دھندلاگئے۔ میرا رفیقِ زندگی خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔ میں نے چاہا کہ اسے جگاؤں اسے نماز کے لیے بیدار کروں اور اپنا قصہ بھی سناؤں۔ میں نے اسے اس کا نام لے کر نہیں جگایا، جیسا کہ میرا معمول تھا بلکہ میں نے آج اس کے کندھوں پر جھک کر قدرے بلند آواز سے یہ آیت پڑھی: الذی یرک حین تقوم وتقلبک فی الساجدین۔
یہ آیت سن کر میرا خاوند اٹھا، وضو کیا، نماز پڑھی اور پھر آکر میرے پاس بیٹھ گیا۔ کہنے لگا۔ آج کی صبح کتنی مبارک اور کس قدر حسین ہے کہ آج مجھے تم سے قرآن سننے کا موقعہ ملا۔ میں اسے اپنی بڑی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔ میں نے کہا: خوش قسمتی تو میری ہے کہ میںنے آج مؤذن کی اذان پر، قرآن کی آیت پر عمل کیا ہے، خوش قسمت میں ہوں کہ میں نے آج تمہیں پہلی بار نمازِ فجر پڑھتے دیکھا ہے۔ یہ سن کر میرے شوہر کا دل نورِ ایمان سے جگمگا اٹھا، اس نے کہا: ’’میں تمہیں ایک عجیب بات سناتا ہوں۔ میرے ساتھ یہ واقعہ ہوا کہ میں کل جب گھر واپس آرہا تھا اور میں اپنی گاڑی میں ریڈیو کی سوئی گھما رہا تھا کہ یہ سوئی قرآن کریم اسٹیشن پر آکر رک گئی۔ میں نے چاہا کہ اس اسٹیشن سے سوئی کو ہٹادوں اس سے پہلے ہی ٹریفک پولیس نے مجھے گاڑی روکنے کے لیے اشارہ کیا۔ مجھے اس وقت قرآن سنتے ہوئے یہی احساس ہوا کہ اللہ مجھ سے خطاب کررہا ہے۔ تم جانتی ہو کہ میرا رب مجھ سے کیا کہہ رہا تھا:
وما قدروا اللّٰہ حق قدرہ والارض جمیعاً قبضتہ یوم القیامۃ والسموات مطویات بیمینہ سبحنہ وتعلیٰ عما یشرکون۔
(الزمر:۶۷)
’’ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ اس کی قدرتِ کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ قیامت کے روز پوری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ پاک و بالاتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔‘‘
قرآنِ کریم کے اس ارشاد نے میرے پورے وجود کو ہلا کے رکھ دیا۔ میں سمندر کے ساتھ ساتھ جارہا تھا، میں نے اپنے ہاتھ کی مٹھی کو دیکھا اور پھر سمندر کی جانب دیکھا۔ اس فرق نے مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ یہ سمندر تو کچھ بھی نہیں، اللہ کے ہاتھ میں تو پوری زمین ہے۔ اللہ کس قدر بڑا ہے؟ میں نے سنتے ہی یہ آیت یاد کرلی، مجھے محسوس ہوا گویا یہ آیت میرے دل میں ہے اور میرا دل اسی سے دھڑک رہا ہے۔ مجھے اپنے پورے جسم میں ایک سکون و حلاوت کا ادراک ہوا۔ اور میرے پروردگار کا فضل مجھ پر آج اس وقت پورا ہوا جب تم نے قرآن مجید کی آیت پڑھ کر جگایا۔ مجھے تم نے نہیں جگایا، بلکہ مجھے اللہ نے جگایا ہے، نماز فجر ادا کرنے کے لیے۔‘‘
میں نے کہا کہ مجھے بھی میرے رب ہی نے آیت کریمہ سے جگایا ہے۔ میرے اور تمہارے عمل سے یہ آیت زندہ و متحرک ہوئی ہے۔ میرے شوہر نے ندامت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’میری عمر چالیس سال سے زائد ہوگئی ہے، قرآن میرے گھر میں موجود ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ میں قرآن پڑھتا نہیں ہوں۔ میں پڑھتا ہوں، بہت سی سورتیں اور آیتیں حفظ بھی ہیں، مگر میرے اور قرآن کریم کے درمیان ایک رکاوٹ تھی ۔ میںنے فوراً جواب دیا: جی ہاں، یہ رکاوٹ تھی، قرآن کے مطابق عمل نہ کرنے کی، قرآن کے مطابق حرکت نہ کرنے کی۔ نبی اکرم ﷺ تو زمین پر چلتا ہوا قرآن تھے۔‘‘
’’ہم بھی زمین پر چلتے ہیں مگر قرآن کے ساتھ نہیں۔‘‘ میں نے یہ کہا اور زاروقطار رونے لگی۔ میرے خاوند کی آنکھوں میںبھی آنسو تھے، وہ یکدم کھڑا ہوگیا۔ بچوں کے کمرے کی جانب بڑھا۔ اس نے کمرے کی لائٹ آن کردی۔ پھر آف کردی۔ چند بار ایسا کیا تو بچے جاگ اٹھے۔ اس نے نماز کے لیے زور سے اللہ اکبر کہا۔ بچے حیران وپریشان تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ میرے رفیق زندگی نے بچوں سے کہا: جانتے ہو، ہم سے کون ملنے آیا ہے؟اور ہمیں اب دیکھ رہا ہے؟ اللہ تم لوگوں سے ملنے آیا ہے۔ بچوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، ان کا والد بڑی میٹھی آواز میں پڑھ رہا تھا: جو تمہیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اٹھتے ہو اور سجدہ گزار لوگوں میں تمہاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔‘‘ پھر اس نے کہا: آج گھر میں نماز پڑھ لو، کل سے ان شاء اللہ مسجد میں نماز پڑھنے جائیں گے۔‘‘ میرا شوہر بچوں کو نماز پڑھتے دیکھتا رہا۔ سب نے نماز پڑھ لی تو اس کا دل مطمئن ہوا۔ پھر اس کا ذہن اس آیت کی طرف منتقل ہوا:
وکان یامر اہلہ بالصلوٰۃ والزکوٰۃ وکان عند ربہ مرضیا۔ (مریم:۵۵)
’’وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا۔‘‘
اس نے اللہ سے دعا کی: یا اللہ مجھ سے راضی ہوجا، مجھے معاف فرمادے، مجھ پر رحم کر۔‘‘ پھر مجھ سے کہنے لگا: آج سے تم بچوں کی نگرانی کروگی اور انھیں نماز پڑھنے کا حکم دوگی۔ میں نے کہا: یہ میری نہیں سنتے، مجھے انھیں نماز کا پابند بنانے میں کافی محنت کرنی پڑے گی۔ خاوند نے مجھے مشورہ دیا کہ تم انھیں اس آیت سے متحرک کرو:’’وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا۔‘‘ (مریم:۵۵)
میںنے اپنے بچوں کو نماز کا پابند بنانے کا تہیہ کرلیا، میںنے ایک بڑا چارٹ لیا اور یہ آیت جلی خط میں اس پر لکھ دی: الذی یرک حین قوم وتقلبک فی الساجدین۔
یہ تھی نماز فجر پڑھنے کے لیے قرآن کریم کے مطابق حرکت کرنے کی برکت کی حقیقی کہانی۔