تیز رفتار، مصروف اور مادہ پرست زندگی نے انسان کا ذہنی سکون غارت کردیا ہے۔ ازدواجی رشتوں میں تناؤ، گھریلو اورخاندانی زندگی میں انتشار اور بکھراؤ اور اولاد کی طرف سے نافرمانی اور آپا دھاپی نے افراد خانہ کی زندگی میں ایک قسم کا خلا پیدا کردیا ہے۔ اس ذہنی تناؤ اور بے سکونی کا شکار خاص طور پر خواتین ہیں۔ اور اس میں بڑی تعداد ان خواتین کی ہے جو گھریلو اور عائلی زندگی کے علاوہ کام کاجی اور معاشی زندگی بھی گزار رہی ہیں۔ ان خاندانوں میں جہاں خواتین کو گھر کے باہر کی ذمہ داریاں بھی ادا کرنی پڑتی ہیں ، ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کا تناسب ان خواتین کے مقابلہ کہیں زیادہ ہے جو گھریلو زندگی گزارتی ہیں اور بچوں کی تعلیم و تربیت اور خانہ داری کے امور انجام دیتی ہیں۔ اور اس کی بنیادی وجہ ذمہ داریوں کا اضافہ بوجھ ہے۔ جسے موجودہ دور کے مرد شیئر کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے علاوہ کام کے مقامات پر خواتین کے لیے غیر مناسب ماحول اور مردوں کی جانب سے کیا جانے والا ہراسمنٹ اور استحصال ہے جس کی خبریں آئے دن اخبارات و رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔
ذہنی تناؤ او رڈپریشن دراصل نفسیاتی بیماری ہے جس میں عام طور پر حساس طبیعت اور معمولی معمولی چیزوں کے بارے میں بہت زیادہ سوچنے والے افراد گرفتار ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس کا علاج کسی ڈاکٹر یا ماہر نفسیات سے زیادہ خود اس فر دکے ہاتھ میں ہوتا ہے جو اس کا شکار ہو۔ اگر وہ وہ اپنی سوچ اور فکر میں تبدیلی کے لیے آمادہ ہوجائے ، اپنے معمولات میں ردوبدل کرلے اور زندگی کے حقائق کو سمجھتے ہوئے شکایات اور دوسروں سے بہت زیادہ امیدیں کرنا چھوڑ دے، مثبت اور تعمیری نظریہ زندگی اختیار کرے، خود اپنی صحت جسمانی و ذہنی کی فکر کرے اور جسمانی ورزش کو اپنا معمول بنائے تو وہ بہت جلد ذہنی سکون سے ہمکنار ہوکر صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔ بلکہ ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ آدمی جتنی جلدی اپنے آپ کو پریشان کن خیالات سے نکال لے اتنی ہی جلدی وہ ذہنی تناؤ سے نجات حاصل کرلے گا۔
خوشیاں حاصل کیجیے
خوشیوں کا حصول آسان کام نہیں مگر یہ زندگی کی بنیادی ضرورت بھی ہے۔ خوشی ملتی نہیں بلکہ حاصل کی جاتی ہے۔ جو لوگ فری فنڈ میں خوشی حاصل کرنے کی آرزو رکھتے ہیں وہ مایوسی اور محرومی کے علاوہ اورکیا حاصل کرسکیں گے۔ نتیجتاً انہیں لوگوں سے اور خود زندگی سے شکایات ہوں گی۔ زندگی میں خوشیاں آپ کو حاصل کرنی ہوتی ہیں اور اس کے لیے کوشش اور جدوجہد مطلوب ہوتی ہے۔ آپ اچھے کام اختیار کیجیے۔ ضرورت مندوں کی مدد کیجیے رشتہ داروں اور اہلِ خانہ کے حقوق ادا کیجیے۔ لوگوں کو اچھی باتیں اور نیک تعلیم دیجیے، لوگوں سے حسن سلوک کا معاملہ کیجیے، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں کے ساتھ پیار و محبت کا معاملہ کیجیے۔ دیکھئے آپ کو کس قدر محبتیں، احترام اور خوشیاں حاصل ہوں گی اور یہ چیز آپ کو جو سکون قلب و ذہن فراہم کریں گے وہ آپ کو زندگی اور حوصلوں سے بھر دے گا۔
لوگوں کے سلسلہ میں اور خود اپنی زندگی کے سلسلے میں مثبت اور تعمیری طرزِ فکر و عمل ہی انسان کو کامیاب بناسکتا ہے۔ یہ اصول ہر جگہ نافذ ہوتا ہے۔ آپ کسی کی غیبت اور برائی کرکے اس کی ہمدردی و محبت حاصل نہیںکرسکتے۔ نہ ہی چوری، لڑائی جھگڑے اور الزام تراشی سے ذِہنی سکون حاصل کرسکتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ مثبت، تعمیری اور اچھے کاموں میں خود کو لگایا جائے۔ اپنے لیے ایسی مصروفیات نکالی جائیں جو رفاہی لوگو ںکے کام آنے والی اور انہیں فائدہ پہنچانے والی ہوں۔ یہ چیز آپ کو کھوئی ہوئی نعمت واپس دلادے گی۔ یقین جانئے بے کاری اور ناکارہ پن خود ایک بیماری ہے جو انسان کے ذہن کو بے شمار قسم کی آلائشوں اور گندگیوں میں مبتلا کردیتی ہے۔ اس لیے مصروفیت نکالئے اور ایسی مصروفیات متعین کیجیے جو آپ کی ذات اور سماج و معاشرہ کے لیے بھی مفید و کارگر ہوں۔
قابل توجہ امور
٭ شخصی ارتقاء پر توجہ دیجیے، اپنی خوبیوں، خامیوں اور کمیوں اور کوتاہیوں کی فہرست تیار کیجیے اور پھر انہیں تبدیل کرنے کی فکر کیجیے۔ آپ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا اور پراعتماد محسوس کریں گی۔ اپنی خوبیوں، خامیوں اور پسندو ناپسند کا لحاظ کرتے ہوئے جو بھی کام آپ انجام دیں گی، انشاء اللہ اس میں کامیابی ملے گی اور ہر نئی کامیابی آپ کے اندر قوت کار اور خود اعتمادی میں اضافہ کا ذریعہ ہوگی۔
٭ اپنے اندر حس مزاح یا ہنسنے ہنسانے کا کچھ جذبہ پیدا کیجیے۔ خود ہنسئے اور دوسروں کو ہنسانے کی کوشش کیجیے۔ یا درکھئے ہم اگر کسی کاغم نہیں بانٹ سکتے تو کیا کسی لطیف بات سے اس کا دل بھی نہیں بہلا سکتے؟ اسی طرح اپنے اندر یہ انداز پیدا کیجیے کہ آپ دوسروں کے سخت تبصروں، تنقیدوں اور ناپسندیدہ جملوں کو مذاق میں اڑاسکیں۔ اگر آپ نے لوگو ںکے طنز و تبصروں کو مزاح میں اڑانا سیکھ لیا تو پھر شکایت نہ ہوگی۔
٭ مایوس اور ناکارہ لوگ ہر عمل اور فیصلہ میں منفی پہلو تلاش کرتے ہیں وہ کامیابی کے امکانات سے زیادہ ناکامی کے اندیشوں پر سوچ بچار کرتے ہیں۔یہ روش درست نہیں اسے تبدیل کیجیے۔
٭ روشنی اور لوگوں سے دوستی کیجیے۔ روشنی انسانی زندگی پر بڑے گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ روشن کمرہ میں رہئے، کھڑکی دروازے کھلے رکھئے اور اسی طرح روشن فکر لوگوں کے درمیان رہنا شروع کیجیے۔ اس سے آپ کے علم اور تجربہ میں بھی اضافہ ہوگا اور آپ کی تنہائی بھی ختم ہوجائے گی۔
اہل خانہ پر توجہ دیجیے
موجودہ دور میں ذہنی پریشانیوں کا ایک بڑا سبب گھریلو معاملات اور خاندانی مسائل بھی ہیں۔ وہ لوگ یقینا خوش قسمت ہیں، جنھیں ایک مستحکم گھرانہ میسر ہے۔ اس لیے اگر آپ کو ذہنی سکون کی ضرورت ہو تو اپنے گھر پر توجہ دی جائے اور لوگوں میں ذہنی ہم آہنگی، ایک دوسرے کی فکر، باہمی انس و محبت اور ایک دوسرے کا حق ادا کرنے اور ایک دوسرے کو تسلی و سہارا فراہم کرنے کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ بڑوں کا ادب و لحاظ اور چھوٹوں سے شفقت و محبت کا معاملہ جس گھر میں ہوگا اور حقوق و فرائض کے سلسلہ میں جو خاندان حساس ہوگا وہ جنت کا نمونہ بن جائے گا اور ایسے گھر میں ہی دراصل ذہنی سکون و اطمینان کا بول بالا ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول نماز میں دعا فرمایا کرتے تھے:
ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرۃ اعین۔
’’اے اللہ تو ہمارے جوڑوں (بیویوں /شوہروں) اور آل اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنا۔‘‘
اس سلسلے میں تین نکات اہم ہیں۔ ایک کا تعلق اپنی ذات سے ہے، دوسرے کا اہلِ خانہ سے اور تیسرا عام ہے۔
٭ اپنی قدر کیجیے اور اپنی عزت و احترام پر آنچ نہ آنے دیجیے
٭ خاندانی مسائل میں چھوٹے چھوٹے معاملات اور رکاوٹوں کو خاطر میں ہرگز نہ لائیے اور نہ ان معمولی باتوں سے مایوس ہوئیے۔
٭ جن معاملات پر آپ کو اختیار نہیں، انہیں اللہ کے سپرد کرکے مطمئن ہوجائیے اور دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں درست فرمادے۔
ورزش اور مناسب غذا
فوزیہ دو بچوں کی ماں ہے پچھلے دنوں وہ ذہنی ڈپریشن کا شکار تھی۔ مگر اس نے جب سے ورزش کو اپنا معمول بنا یاہے فریش محسوس کررہی ہے۔ وہ کہتی ہے: ’’جب میں دوڑتی ہوں تو خود کو بہتر محسوس کرنے لگتی ہوں۔ اور کچھ ہو یا نہ ہو مجھے اس طرح کچھ کرنے کا احساس ہوتا ہے۔ جاکنگ سے پہلے کیسی ہی ذہنی ٹینشن ہو پارک میں جاکر دوڑنے سے کافور ہوجاتی ہے اور میرا موڈ خوشگوار ہوجاتا ہے۔‘‘
فوزیہ کا یہ کہنا بالکل درست ہے ا ور ماہرین نفسیات اور سائنس دان اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ ورزش خواہ کیسی بھی ہو انسانی ذہن کو سکون اور طبیعت کو خوشگواری فراہم کرتی ہے۔ اس طرح جسمانی قوت بھی حاصل ہوتی ہے اور جسم کو مناسب آکسیجن بھی مل جاتی ہے۔ اسی طرح جسم کے تھک جانے کے سبب اطمینان بخش تبدیلی بھی آتی ہے جو یقینا ذہن کو تروتازہ کردیتی ہے۔ اس طرح ورزش کے ذریعہ انسان ذہنی و جسمانی سکون حاصل کرلیتا ہے۔
جو خواتین جو اس شکایت میں مبتلا ہوں انہیں چاہیے کہ صبح جلد اٹھنے کی عادت ڈالیں اور گھرکے اند ریا گھرکے باہر نکل کرجہاں اور جس صورت میں بھی ممکن ہو ورزش کریں۔ اگر یہ ممکن نہ ہوسکے تو کم از کم تیس چالیس منٹ تیز تیز قدموں سے پیدل چلنے کو اپنے معمولات میں شامل کرلیں اور یہ کام صبح و شام کیا جائے تو چند ہی دنوں میں زبردست فوائد حاصل ہوں گے۔
اسی ضمن میں مناسب غذا کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ مناسب غذا ہمارے جسم کو چاق و چوبند اور چست درست رکھتی ہے۔ اس سے جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو جلا ملتی ہے۔ اگر آپ جسمانی اور ذہنی اعتبار سے بیدار ہوں تو ذہنی تناؤ کا مقابلہ کرنے میں زیادہ بہتر پوزیشن میں ہوں گی۔
چنانچہ ضروری ہے کہ بھاری، دیر سے ہضم ہونے والی غذاؤں کے مقابلہ میں ہلکی، غذائیت سے بھر پور اور جلد ہضم ہونے والی غذاؤں کا استعمال کریں۔ اور کھانے کے معمولات متعین کرلیں۔ وقت بے وقت اور کچا پکا کھانا اور ادھر ادھر سے کھانے کی عادت ترک کردیں۔
ذہنی سکون کے حصول کی شاہ کلید
ذہنی سکون کے حصول کی یہ شاہ کلید (Key) ارسطو، افلاطون یا دنیا کے کسی ماہر طبیب کی تجویز کردہ نہیں ہے۔ یہ کلید خود انسانوں کے خالق نے انسانوں کو بتائی ہے۔ وہ ہے ’’الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب‘‘ لوگو! سن لو، دل و ذہن کا اطمینان تو صرف اللہ کی یاد سے حاصل ہوسکتا ہے۔
وہ تمام لوگ جو ذہنی و قلبی سکون کے خواہش مند ہوں اس نسخہ کو آزماکر فوری سکون حاصل کرسکتے ہیں۔ اور اس کی ترکیب ہے تلاوت قرآن مجید، نماز اور دعا۔ اللہ تعالیٰ سے وابستگی کے تمام ممکنہ ذرائع اس کے معاون اور مدد گار ہیں۔
بس آپ اللہ کی یاد سے خود کو وابستہ کرلیجیے اور ہر چہار جانب سے مطمئن ہوجائیے۔ جن لوگوں نے یہ نسخہ آزمایا وہ صد فی صد اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب رہے اور جو اس سے محروم رہے وہ دراصل زندگی سے محروم رہ گئے۔