پیاری بہنو!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
لیجیے دیکھتے ہی دیکھتے دسمبر کا مہینہ آنے والا ہے۔ اب امتحان میں وقت ہی کتنا بچا ہے؟ بس جنوری اور فروری مارچ میں تو امتحان شروع ہوہی جائیں گے اور پھر آپ کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ سال بھر آپ نے محنت سے پڑھا ہے۔ ہم دو مہینے پہلے ہی آپ کو خبردار کررہے ہیں کہ جن بھائی بہنوں نے اب تک پڑھائی میں دل لگانا اور محنت کرنا شروع نہیں کیا ہے ابھی ان کے پاس وقت ہے کہ وہ اس بچی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھائیں۔
وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ ابھی ابھی تو آپ اگلی کلاس میں گئے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا تعلیمی سال ختم ہونے کو آیا ہے۔ آپ کو تو اچھی طرح معلوم ہے کہ بہت سے طالب علم یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ’’کل سے میں پڑھائی پرمحنت شروع کردوں گا‘‘، مگر ان کا ’’کل‘‘ کبھی بھی نہیں آتا۔ ہاں امتحان آجاتا ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ کاش محنت سے پڑھائی کی ہوتی تو آج دل میں امتحان کا خوف نہ ہوتا۔ اپنے ان دوسرے ساتھیوں کی طرح جو سال بھر پڑھتے رہے ہیں اور پورے اطمینان سے امتحان ہال میں جاتے ہیں۔ جو لوگ روز کا کام روز کرتے ہیں ان پر کبھی بھی کاموں کا بوجھ نہیں ہوتا اور وہ ہلکے پھلکے رہتے ہیں۔ جو لوگ اپنے کاموں کو کل پر ٹالتے رہتے ہیں وہ اپنے اوپر کاموں کا بوجھ اکٹھا کرتے رہتے ہیں اور آخر میں یا تو وہ اس کام کو کر نہیں پاتے یا بڑی محنت اور تھکن سے انجام دے پاتے ہیں۔
ایک بچے کے والد صاحب نے اپنے بیٹے سے کہا : ’’بیٹا یہ دو سو اینٹیں ہیں جو تمہیں گھر کے صحن سے اٹھا کر اپنے سامنے والے پلاٹ میں رکھنی ہیں۔ اور ایک سال کے اندر اند رتمہیں یہ کام کرنا ہے۔ اگر تم چاہو تو بڑی آسانی سے ایسا کرسکتے ہو۔ جب صبح کو تم اسکول جانے کے لیے نکلو تو ہاتھ میں ایک اینٹ اٹھا کر لے جایا کرو او راسے سامنے والے پلاٹ میں رکھ دیا کرو۔‘‘ بچے نے کہا : ’’ابا جان یہ تو آسان ہے میں اس کام کو آسانی سے کردوں گا۔‘‘ بس جب وہ اسکول جاتا تو کاہلی میں اینٹ نہ اٹھاتا اور سوچتا کہ کل لے جاؤں گا۔ اسی کل کل میں پورا سال بیت گیا۔ بیچ میں اباجان نے توجہ بھی دلائی۔ مگر وہ بولا ابا جان : ’’میں کردوں گا آپ بے فکر رہیں۔ مگر جب آخری دن آیا تو اس نے دیکھا کہ پورے سال میں صرف چند ہی اینٹیں ہٹی ہیں۔ اب وہ پریشان ہوا اور سوچنے لگا کہ اتنی ساری اینٹیں وہ تنہا ایک دن میں کیسے رکھ پائے گا۔ پھر ہمت کی اور کام شروع کیا۔ ایک گھنٹے کی سخت محنت کی۔ ہاتھ چھل گئے، سر اور کندھے جواب دے گئے۔ مگر یہ کیا ابھی تو آدھی اینٹیں پہچانا باقی تھا۔ روتا ہوا ابا کے پاس پہنچا کہ ابا جان معاف کردیجیے۔ میں نے آپ کی بات نہیں مانی۔ میں تھک گیا ہوں اور باقی اینٹیں اس وقت نہیں پہنچا سکتا ۔ یہ تو اینٹوں کا معاملہ تھا۔ پڑھائی کا معاملہ تو یہ ہے کہ ایک بار وقت اور مہلت ہاتھ سے نکل گئی تو پچھتانے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ اللہ نہ کرے کہ آپ کو بعد میں پچھتانا پڑے، اس لیے ابھی سے محنت شروع کردیجیے۔
آپ کی بہن
مریم جمال
کہانی
پتھر کا سوپ