دہلی ہائی کورٹ کے فاضل جج جسٹس بدر در ریز احمد نے گذشتہ ہفتہ اپنے ایک انتہائی اہم فیصلے میں ایک نشست میں تین طلاق کو عملاً غیر مؤثر قرار دیتے ہوئے عدالتوں سے کہا ہے کہ اب سے تین طلاق کو صرف ایک طلاق تصور کیا جائے جسے زن و شوہر کے مابین افہام و تفہیم کی بنیاد پر واپس لیا جاسکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک نشست میں دی جانے والی تین طلاق کی حیثیت ایک رجعی طلاق کی ہوگی اور ان تینوں طلاقوں کی بنیاد پر نکاح ختم نہیں ہوگا یعنی طلاق وارد نہیں ہوگی۔ جسٹس احمد نے ایک نشست کی تین طلاقوں کو اس بنیاد پر ایک رجعی طلاق قرار دیا ہے کہ ان کے نزدیک طلاق کے وارد ہونے سے قبل زوجین کے مابین افہام و تفہیم کی کوشش بھی ہونی چاہیے اور طرفین کے ایک ایک ثالث کو معاملات سلجھانے کا موقع بھی دیا جانا چاہیے۔ اس کے بغیر طلاق کا عمل نہ نتیجہ خیز ہوسکتا ہے، نہ مکمل۔
جسٹس بدردر ریز احمد کے اس تاریخی فیصلے سے قبل بھی سپریم کورٹ اور متعدد ہائی کورٹ طلاق یا مطلقہ مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق قانون کے اطلاق سے متعلق اپنے فیصلوں میں ثالثی کو طلاق کے مؤثر ہونے کی بنیادی شرط قرار دے چکے ہیں۔ مثال کے طور پر جون ۲۰۰۷ء میں جسٹس اری جیت پسایت اور جسٹس ڈی کے جین نے اقبال بانو بنام اسٹیٹ آف اترپردیش میں کہا تھاکہ ۱۹۸۶ء کے مسلم مطلقہ خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق قانون کا اطلاق اس مسلم مطلقہ پر ہی ہوگا جسے اس کے شوہر نے قرآنی احکام کے تحت طلاق دی ہو۔ اس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ طلاق تین بار دی گئی ہو یعنی ایک ایک ماہ کے فصل سے تین طہر میں تین طلاقیں جن میں دو طلاقیں واپس لی جاسکتی ہوں جب کہ تیسری قابل رجوع نہیں ہوگی۔ علاوہ ازیں ان ۳ مہینوں کے دوران طرفین کے نامزد کردہ ایک ایک فرد کے ذریعے سمجھانے بجھانے اور ثالثی کا فریضہ بھی انجام دیا گیا ہو۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں دوسری چیزوں کے علاوہ یہ بات بہت ہی واضح طور پر سامنے آگئی تھی کہ عدالت عظمیٰ ایک نشست میں تین طلاق کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے کے لیے تیا رنہیں ہے۔
اس سے قبل ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ نے بھی اپنے ایک فیصلے میں طلاق کی قانونی حیثیت کے تعلق سے کہا تھا کہ اس کا نہ صرف یہ کہ کوئی معقول سبب ہونا چاہیے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ شوہر اور بیوی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ثالث باضابطہ طور پر افہام و تفہیم کی کوشش بھی کریں۔ اس طرح کی کسی کوشش کے ناکام ہوجانے کی صورت میں ہی طلاق کو مؤثر قرار دیا جائے گا یعنی اپنے تمام تر مضمرات کے ساتھ واقع ہوجائے گی۔ ان فیصلوں کے تعلق سے یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ان میں مسلم پرسنل لاء کے جواز کو کسی بھی رخ سے موضوع بحث نہیں بنایا گیا ہے۔ جسٹس احمد نے تو بہت ہی واضح الفاظ میں کہا ہے کہ طلاق کے معاملے میں مسلم پرسنل لا کو دوسرے تمام رواجوں اور روایتوں پر فوقیت حاصل ہوگی۔
مسلم پرسنل لا بورڈ نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے مذکورہ بالا فیصلوں کو باضابطہ طور پر چیلنج کرنا ضروری نہیں سمجھا اور گمان غالب یہی ہے کہ وہ جسٹس احمد کے فیصلے کو بھی چیلنج نہیں کرے گا۔ اس کے ذمہ داروں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ملکی عدالتوں نے اس معاملے میں جو موقف اختیار کیاہے وہ عملاً قرآن و حدیث کی تعلیمات پر مبنی ہے اور جسٹس احمد نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ایک نشست میں تین طلاق کو اگر ممنوع قرار دے دیا جائے تو یہ بات اسلام کے بنیادی اصولوں یا قرآن یا پیغمبر اسلام ﷺ کے فرمودات کے مغائر نہیں ہوگی۔
قرآن کریم نے طلاق کے معاملے میں جو کہ انتہائی حساس مسئلہ ہے انتہائی محتاط اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ رویہ اختیار کیا ہے۔ اسے ہر اعتبار سے انتہائی ترقی پسندانہ رویہ کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم میں سورئہ نساء کی آیت ۳۵ میں بہت ہی واضح طور پر ثالثی کی بات کہی گئی ہے۔ اگر یہ کہا جائے جیساکہ کئی عدالتی فیصلوں میں کہا گیا ہے کہ ثالثی کو طلاق کے معاملے میں بنیادی اہمیت حاصل ہے اور اس کے بغیر طلاق کا عمل مکمل نہیں ہوسکتا، ثالثی کا یہی عمل اس بات کو بھی لازمی قرار دیتا ہے کہ ایک نشست کے بجائے طلاق ایک ایک ماہ کے فصل کے ساتھ دی جائے تاکہ زوجین کو بھی حالات پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنے کا موقع ملے اور ان کے مقرر کردہ ثالثوں کو بھی سمجھانے بجھانے اور حالات کو سنبھالنے کی کوشش کرنے کے لیے خاطر خواہ وقت مل جائے۔ ظاہر ہے ثالثی کا عمل پہلے رجعی طلاق کے بعد ہی شروع ہوسکتا ہے جو تیسرے یعنی آخری طلاق تک جارہی رہے گا۔ اب اگر ان تین مہینوں میں فریقین اپنا ارادہ بدل لیتے ہیں تو طلاق کا عمل اپنے آپ ختم ہوجائے گا لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا اور شوہر تیسری طلاق پر مصر رہتا ہے تو طلاق اپنے تمام تر تقاضوں کے ساتھ وارد ہوجائے گی۔
قرآن نے عدل، احسان، صلہ رحمی اور حکمت پر غیر معمولی زور دیا ہے۔ ایک نشست میں تین طلاق سے ان چاروں بنیادی صفات کی کسی نہ کسی حد تک نفی ہوتی ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی حیات مبارکہ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں ایک نشست میں تین طلاق کے مؤثر ہونے کی کوئی مثال نہیںملتی۔ امام احمد بن حنبل کے مطابق رکانہ نے اپنی اہلیہ کو ایک ساتھ تین طلاق دینے کے بعد جب آنحضرت ﷺ سے اس معاملے میں رجوع کیا اور یہ بتایا کہ انھوں نے بیک وقت تین طلاقیں دی ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کی حیثیت محض ایک طلاق کی ہے اور اگر وہ (رکانہ) چاہیں تو اپنی اہلیہ کو واپس لے سکتے ہیں۔ طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔
حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں بھی ۲ سال تک بہ یک وقت تین طلاق کی بنیاد پر طلاق کے واقع ہونے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ البتہ انھوں نے تیسرے سال کے دوران ایک نشست میں تین طلاق کو ایک رجعی طلاق کے بجائے باقاعدہ واقع ہونے والی طلاق تسلیم کرلیا یعنی ایک نشست میں تین طلاق دینے کا مطلب یہ تھا کہ زن و شوہر کا رشتہ ختم ہوجائے۔ حضرت عمرؓ نے یہ فیصلہ بعض ہنگامی حالات کی بناپر عورتوں کو مشکلات و مصائب سے بچانے کے لیے کیا تھا اور بحیثیت خلیفہ راشد انھیں اس کا حق بہر حال حاصل تھا۔ ان کا یہ فیصلہ ایک ناگزیر ضرورت کی بنا پر سامنے آیا تھا۔ اس ضرورت کی پوری تفصیل حسنین ہیکل نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف عمر فاروقؓ میں بیان کی ہے۔ اگرکوئی فیصلہ کسی ہنگامی، وقتی ضرورت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے تو اس میں یہ بات بھی مضمر ہوتی ہے کہ اس ضرورت کے ختم ہوجانے کے بعد یہ فیصلہ اپنے آپ غیر مؤثر ہوکر رہ جائے گا۔ یہ بات تین طلاق سے متعلق حضرت عمرؓ کے فیصلے کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں موجودہ حالات میں ایک نشست میں تین طلاق کو اس لیے بھی غیر ضروری قرار دیا جاسکتا ہے کہ جس ضرورت کے تحت اس کا چلن عمل میں آیا تھا وہی ضرورت اب اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ اسے بستہ بند کردیا جائے کیونکہ اب یہ عورتوں کے مصائب و مسائل کو کم کرنے کے بجائے انھیں مزید بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔ حضرت عمرؓ کی فراہم کردہ یہ ڈھال اب خواتین کے لیے وبالِ جان بنتی جارہی ہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کو ملکی عدالتوں کے فیصلوں کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی بہرحال مدِّ نظر رکھنا چاہیے کہ سورئہ بقرہ ۲۲۹-۲۳۰ اور سورئہ نساء ۳۵ میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ عمل کرنے کے لیے ہے۔ اسی طرح پیغمبر اسلامﷺ کا اسوئہ حسنہ بھی ہر مومن کو دعوتِ عمل دیتا ہے۔ انہیں نظر انداز نہیںکیا جاسکتا۔ احناف کی اکثریت والا یہ بورڈ اگر اب بھی اس اہم مسئلہ پر خاطر خواہ توجہ نہیں دیتا تو اس کے نتائج کچھ اچھے نہیں ہوں گے۔ ایک نشست میں تین طلاق کو اگر عدالتوں نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تو اس کے نتیجے کتنے سنگین ہوں گے اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ارباب بست و کشاد عقل کے ناخن لیں، صحیح اسلامی اسپرٹ کا مظاہرہ کریں اور ہٹ دھرمی کی راہ ترک کردیں۔ دہکتے سرخ انگاروں جیسی حقیقتوں کو مسلسل جھٹلاتے رہنا، دانائی کی علامت نہیںہوسکتی۔