’’السلام علیکم ۔ کیا میں اندر آسکتی ہوں۔‘‘
’’وعلیکم السلام۔ آئیے تشریف لائیے۔ خیریت سے تو ہیں نا۔‘‘
’’ایک الجھن میں گرفتار ہوں۔ پہلے ہم نے سنا تھا کہ لوگوں کو اچھائی کی طرف بلانا اور برائی سے روکنا مردوں کی ذمہ داری ہے۔ آج یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ ذمہ داری خواتین پر بھی عائد ہوتی ہے اور ان پر بھی فرض ہے۔‘‘
’’تو کیا یہ غلط ہے؟ کیا ہم نبیؐ کے امتی نہیں ہیں؟ ہمارے رسول ﷺ نے اللہ کے حکم سے اللہ کی زمین پر اپنی ان تھک کوششوں سے اللہ کے دین کو قائم کیا۔ آپؐ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اس دین کو قائم رکھنے کی ذمہ داری آپؐ کی امت پر عائد ہوتی ہے۔ کیا ہم عورتیں آپؐ کی امتی نہیں ہیں؟‘‘
’’ہم کو فخر ہے کہ ہم آپؐ کے امتی ہیں۔ اور ہم اس پر اللہ کا شکر بھی ادا کرتے ہیں۔ ہم اس بات کو جانتے نہیں تھے کہ امتی ہونے کی حیثیت سے ہم پر بھی شہادتِ حق کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اقامتِ دین ہمارا فرضِ منصبی ہے۔ اس لیے یہ بات بڑی عجیب لگی کہ چولہے چکی کی عورت کو واعظہ بنایا جارہا ہے۔ خیال یہ تھا کہ عورتیں بس گھر گرہستی کا کام ہی کرسکتی ہیں۔ وہ کیا جانیں دین کی باریکیاں اور وہ نہیں کرسکتیں یہ مشکل کام۔ مگر آہستہ آہستہ یہ بات سمجھ میں آئی کہ اللہ مرد اور عورت دونوں کا خالق ہے اور دونوں کی ہدایت کے لیے اپنی کتاب ہدایت نازل کی ہے اور دونوں کے لیے اپنا پسندیدہ دین اسلام کہا ہے۔ اس لیے یہ عورت اور مرد دونو ںکی ذمہ داری ہے۔ دین کو سمجھیں اور اس کو دوسروں تک پہنچائیں۔ خواتین میں دین پھیلانے کا کام خواتین ہی اچھی طرح انجام دے سکتی ہیں۔ آج معاشرہ میں جو بگاڑ پیدا ہورہا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ خواتین میں زیادہ سے زیادہ دین پھیلائیں۔ کیونکہ ایک عورت دیندار ہوگی تو اس کے بچے اس کا گھر اس کا خاندان دیندار ہوگا۔ ایک صالح معاشرہ کا قیام ممکن ہوگا۔‘‘
’’بہن! جب رواج و دستور سے ہٹ کر کوئی بات پیش کی جاتی ہے اگرچہ وہ بات حق ہی کیوں نہ ہو، انسان کی فطرت ہے کہ فوراً اس کو قبول نہیں کرتا، خواہ مخواہ اس کی مخالفت پر آمادہ ہوتا ہے۔ خواہ وہ اللہ اور رسول ﷺ کا حکم ہی کیوں نہ ہو۔ ‘‘
’’اب ذرا بہو اور بیٹی ہی کی بات کو لے لیجیے۔ پہلے تو یہ بات سننے میں آئی کہ بہو سے زبردستی خدمت نہیں لی جاسکتی۔ سسرال والوں کی خدمت کرنا بہو کا فرض نہیں ہے۔ اگر وہ خوشی سے خدمت کرتی ہے تو یہ اس کی شرافت ہے۔ اس طرح پہلے بہوؤں کو سر پر چڑھایا گیا۔ اب یہ بات بتاکر لڑکیوں کا دماغ خراب کیا جارہے کہ وراثت میں لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کا بھی حق ہے۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی بیٹی کی شادی کردی اب تو وہ پرائے گھر کی ہوگئی۔‘‘
’’ارے میری بہن! یہ تو اللہ کا قانون ہے۔ یہ کسی انسان کا بنایا ہوا قانون نہیں ہے۔ اللہ کے قانون میں کمی و بیشی اور ترمیم کا حق کسی کو نہیں ہے۔ اللہ نے اپنی کتاب میں بتادیا ہے کہ ماں باپ کی جائداد میں لڑکوں ہی کی طرح لڑکیوں کا بھی حصہ ہے۔ البتہ قرآن میں یہ بھی بتادیا کہ لڑکی کا حصہ لڑکے کا آدھا ہے۔ اور جس طرح ہم دوسرے فرائض نماز، روزہ، زکوٰۃ و حج اللہ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق انجام دیتے ہیں، اپنی طرف سے کسی قسم کی کمی بیشی نہیں کرتے، اسی طرح وراثت کی تقسیم میں بھی ہمیں کمی بیشی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ اللہ کا حکم ہے۔‘‘
’’اللہ معاف کر ے بہن! جو کچھ دیکھتے اور سنتے آرہے ہیں وہی دماغ میں بسا ہوا رہتا ہے، اسی پر عمل ہوتا ہے اور وہی زبان سے نکل جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کا وراثت میں حق تسلیم نہیں کیا جاتا اور ان کو حق دینے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاتا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو دیندار سمجھے جاتے ہیں، وہ بھی تو نہیں دیتے۔ ہم جیسے ان پڑھ لوگوں کو تو معلوم نہیں تھا۔ ‘‘
’’سچ کہوں بہن! چاہے کوئی کرے یا نہ کرے۔ کوئی وراثت میں لڑکیوں کو حصہ دے یا نہ دے کم سے کم ہم لوگو ںکو تو یہ کام ضرور کرنا ہے۔ ورنہ قیامت کے دن ہم اسے کیا جواب دے سکیں گے۔‘‘