ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جنگل میں ایک بھالو رہتا تھا۔ وہ بہت سیدھا سادھا تھا۔ فوراً ہی ہر ایک پر اعتبار کرلیتا۔ اسی جنگل میں ایک بہت ہی چالاک لومڑی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ بھالو میاں اور لومڑی کا آمنا سامنا ہوگیا۔ بھالو کو دیکھتے ہی لومڑی کے دماغ میں ایک شرارت آئی۔ اس نے بھالو سے کہا: ’’میاں بھالو! کہاں جارہے ہو!‘‘ بھالو نے کہا: بھوک لگی تھی۔ کھانے کی تلاش میں جارہا ہوں۔ یہ سنتے ہی لومڑی نے کہا کہ یہاں سے تھوڑی دور ہی آم کا درخت ہے۔ اس کے اوپر بہت بڑا شہد کا چھتہ لگا ہوا ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ آپ کو شہد بہت پسند ہے۔ تھوڑی سی ہمت کریں اور چلے جائیں۔ آپ کو بہت مزا آئے گا۔ یہ سنتے ہی بھالو فوراً اس طرف چل پڑا۔ چلتے چلتے بھالو تھک گیا لیکن اسے آم کا درخت کہیں نظر نہ آیا۔ اس نے سوچا تھوڑی دور اور چل کر دیکھتا ہوں، تھوڑی دور گیا تو اسے آم کا ایک درخت نظر آیا۔
بھالو بہت خوش ہوا جلدی سے اس کے نزدیک گیا۔ابھی اس نے ہاتھ نہیں بڑھایا تھا کہ غور کرنے سے پتا چلا کہ وہاں تو شہد کی بجائے بھڑوں کا چھتہ تھا۔ اب بھالو کی سمجھ میں آگیا کہ لومڑی نے اسے بیوقوف بنایا ہے، بھالو کو بہت افسوس ہوا۔ اسی درخت پر ایک الو رہتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ بھالو میاں رو رہے ہیں وہ نیچے آیا اور رونے کی وجہ دریافت کی لیکن بھالو میاں نے اسے کوئی بات نہ بتائی کیونکہ اس کی مما نے اس کو یہ اچھی بات سمجھائی تھی کہ پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہیں کرتے۔ بھالو نے الو سے کہا کہ مجھے بھوک لگی ہے اس لیے رو رہا ہوں۔ الو کے پاس تھوڑا سا کھانا پڑا تھا۔ اس نے وہ کھانا بھالو کو دے دیا۔ بھالو نے کھانا کھانے کے بعد الو کا شکریہ ادا کیا اور واپس اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ راستے میں ہی اسے لومڑی مل گئی، بھالو نے اس سے کوئی شکایت نہیں کی۔ لومڑی نے خود ہی پوچھا، بھالو میاں شہد کا مزا آیا۔ بھالو نے کہا وہ شہد تو بہت مزے دار تھا۔ میں نے پیٹ بھر کے کھایا ہے۔
لومڑی بہت حیران ہوئی اور دوبارہ پوچھنے لگی کیا واقعی آپ نے شہد کھایا ہے؟ آپ ابھی جاکر دیکھ لیں بلکہ میں نے تو وہاں جاکر سوچا آپ کو بھی ساتھ ہی لے آتا۔ دونوں بہن بھائی مل کر کھاتے، ایسا کریں کہ آپ بقیہ شہد جاکر کھالیں۔ یہ نہ ہو کہ کوئی اور وہ شہد کھالے۔ یہ سنتے ہی بی لومڑی بھاگ کھڑی ہوئی اور سوچنے لگی کہ میں نے ایسے ہی اس کو بھڑوں کو چھتہ سمجھا تھا۔ زیادہ تر شہد تو بھالو میاں کھا گئے ہوں گے۔ تھوڑی دیر سے آم کا وہی درخت نظر آگیا اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً ہی درخت پر چڑھ گئی اور چھتے پر ٹوٹ پڑی لیکن وہاں تو سینکڑوں کی تعداد میں بھڑ تھے۔ جو اس کے جسم سے چپک گئے اور زور زور سے اسے کاٹنے لگے۔ بڑی مشکل سے لومڑی نے ان سے جان چھڑائی۔ دوسرے دن لومڑی دھوپ میں سوئی پڑی تھی کیونکہ اس کو سخت بخار تھا۔ بھالو میاں بھی وہاں آپہنچے۔
لومڑی نے بھالو سے کہا کہ میں آپ سے اس شرارت کی معافی مانگتی ہوں۔ اس کا بدلہ مجھے مل گیا ہے۔ سچ ہے کیا کسی کے ساتھ مذاق میں بھی زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔
بھالو نے اسے معاف کردیا اور وہ دونوں اچھے دوست بن گئے۔