نبی کریم ﷺ کی کامیابی کے تین بنیادی مراحل ہیں اور انہی میں سارے دیگرمراحل پوشیدہ ہیں:
(۱) نبی کریم ﷺ نے کامیابی کا پہلا مرحلہ اس دن طے کیا، جس دن قریش کے سردار ابوطالب سے یہ مطالبہ کرنے آئے کہ وہ اپنے اس بھتیجے کوروکیں جس نے ان کے دین، ان کے رسوم اور ان کے اعتقادات میں مداخلت کرکے ان کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اسے ان کے معبودوں کے بارے میں بولنے سے روک دیں اور اس کے بدلے میں اگر وہ چاہیں تو وہ اسے مالا مال کردیں، اگر سردار بننا چاہیں تو سرداری عطا کردیں۔ اور اس کے بعد اسے ان پر پورا اختیار ہوگا۔ نبی کریم ﷺ کامران رہے، جب آپﷺ نے ان لوگوں کے اور زمانے کے کانوں میں ایمان کے منبع سے پھوٹنے والی ابدی بات کہی: ’’خدا کی قسم چچا جان! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تاکہ میں یہ چھوڑ دوں، تو بھی میں یہ ہرگز ہرگز نہیں چھوڑوں گا، یہاں تک کہ مجھے موت آجائے۔‘‘ خدا کی قسم! کیا ہی زلزلہ خیز شان و شکوہ ہے۔! کتنی پرشکوہ تصویر ہے۔
لو وضعوا الشمس فی یمینی والقمر فی یساری۔
اسی دن نبی کریم ﷺ نے کامیابی حاصل کرلی اور قریش کے اجتماعی ضمیر کو اس طرح ڈگمگادیا کہ پھر وہ کبھی قرار نہ پڑسکا۔ یہ ایمان تھا، یہی وہ قوت ہے کہ جب انسان کے شعور میں جاگزیں ہوجائے تو پھر اسے کوئی چیزمغلوب نہیں کرسکتی۔
(۲) اور نبی کریمﷺ کی کامیابی کا دوسرا مرحلہ جب طے ہوگیا جب آپﷺ نے اپنے اصحاب کو ایمان کی زندہ، چلتی پھرتی تصویریں بنادیا… ان میں سے ہر ایک کو زمین پر چلنے پھرنے والا زندہ قرآن اور مجسم اسلام بنادیا۔ خالی نصوص کچھ نہیں کرسکتے، صرف مصحف سے کچھ بھی نہیں ہوتا، اگر ان پر عمل کرنے والا انسان نہ ہو۔ نظریات زندہ نہیں رہ سکتے، اگر عملاً نہ اپنائے جائیں۔ محمد ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ انسان تیار کریں، صرف وعظ و نصیحت نہ کریں، دلوں او ر ضمیروں کو ڈھالیں، صرف تقاریر نہ کریں، ایک امت کی تعمیر کریں۔ نظریہ تو قرآن نے پیش کردیا تھا، محمد ﷺ کا مشن یہ تھا کہ اس مجرد فکر کو انسانوں کے قالب میں ڈھال دیں اور ایسی زندہ حقیقت بنادیں، جنہیں ہاتھ چھوسکیں اور آنکھیں دیکھ سکیں۔ اس وقت لوگ جب اس نظریہ پر ایمان لے آئے تھے تو وہ ان لوگوں پر ایمان لے آئے تھے جن میں یہ نظریہ جلوہ گر تھا۔ یہ محمد ﷺ کی کامیابی تھی کہ آپؐ نے اسلامی فکر کو انسانی شکل میں ڈھال دیا۔ لوگوں کا عمل یہ ظاہر کررہا تھا کہ وہ اسلام کیا ہے جو اللہ کی طرف سے نبی کریم ﷺ لے کر آئے ہیں، نبی کریم ﷺ کی آخری کامیابی یہ تھی کہ شریعتِ اسلامیہ کو زندگی پر حکمرانی کرنے والا ضابطہ، معاشرہ کی تبدیلیوں کا بنیادی مرکز اور لوگوں کے معاملات کا حقیقی منتظم بنادیا۔
(۳) اسلام ایک عقیدہ ہے جس کے بیج سے شریعت کی کونپل پھوٹتی ہے۔ اس شریعت پر ایک نظام قائم ہوتا ہے۔ اگر ہم اسلام کو ایک درخت سے تشبیہ دیں تو عقیدہ اس کا بیج، شریعت اس کا تنا اور نظامِ شرعی اس کا پھل ہے۔ تنا، بیج کے بغیر جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ اور اس بیج کی کوئی قدر و قیمت نہیں جس سے تنا نہ نکلے۔ اس تنے کا کوئی فائدہ نہیں جو پھل نہ دے۔ اس لیے اسلام نے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ اس کی شریعت ہی زندگی کی حاکم ہو۔
ومن لم یحکم بما انزل اللّٰہ فاولئک ہم الکافرون۔
’’جولوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔‘‘
دین اور حکومت کی علیحدگی اسلام میں نہیں ہے۔ کوئی حکومت دین کے بغیر نہیں اورکوئی دین، شریعت اور نظام کے بغیر نہیں۔ اسلامی حکومت کے قیام کے اول روز ہی سے شریعت اسلامیہ اس حکومت کا دستور العمل تھی اور صاحبِ شریعت اس کے والی تھے۔ اس حکومت نے مسلمانوں کو یہ موقع بہم پہنچایا کہ وہ ظلم کے مقابلے میں اپنا دفاع کرسکیں اور فتنہ سے اپنے آپ کو بچا سکیں اور زمین کے ایک ایک گوشے میں اسلام کے پرچم تلے محفوظ رہ سکیں۔ اس وقت سے اسلام ایک اجتماعی نظام ہوگیا، یہ مسلمانوں کے تعلقات کا مرکزی سررشتہ تھا۔ وہ ان کے لیے ایک ایسا نظامِ حکومت بن گیا، جس کی بنیاد پر وہ غیروں سے معاملات کرتے تھے۔ پھر اسلام زمین کے دوسرے گوشوں میں پھیلنے لگا جہاں بھی اس کا عقیدہ پہنچا اس کی شریعت اور اس کا نظام بھی پہنچا۔ جس نے چاہا اس میں داخل ہوگیا اور جس نے نہ چاہا تو ’’دین میں اکراہ (جبر) نہیں ہے۔‘‘ لیکن اسلامی شریعت اور اسلامی نظام ہر اس سرزمین پر حکمرانی کرنے لگا، جہاں اسلام داخل ہوا۔ لوگ اس سے وہ انصاف اور خیر پانے لگے جس کا مزہ انھوں نے پہلے کبھی نہیں پایا تھا اور اس وقت لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگے اور اس وقت اللہ نے اپنے رسول ﷺ سے کیا ہوا وعدہ پورا کردیا:
اذا جاء نصر اللّٰہ والفتح۔ ورأیت الناس یدخلون فی دین اللّٰہ افواجا۔ فسبح بحمد ربک واستغفرہ انہ کان توابا۔
’’جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہوجائے اور (اے نبی!) تم دیکھ لو کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔ اور اس سے مغرفت کی دعا مانگو، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘
اسلام اس لیے فاتح ہوا کہ اس کے عقیدے نے شریعت کا قالب اختیار کیا اور اس شریعت نے ایک ایسا نظام بپا کیا جس کی طرف لوگوں کے دل کھنچنے لگے اور لوگوں نے اسی میں اپنے دلوں کے لیے راحت و سکون محسوس کیا۔
یہ اس لا زوال فتح کے تین مراحل تھے، جن پر تاریخ انسانی کا ایک ایک باب گواہ ہے۔ اور آج کروڑوں آوازیں مشرق، مغرب میں اس کے نغمے گاتی ہیں اور یہ مراحل طبیعی اورحقیقی ہیں۔ ایسے مراحل جن پر ہم مسلمان ہر دور میں قدرت رکھتے ہیں۔ یہ وہ مراحل ہیں، جو ہمارے سامنے ہیں تاکہ ہم کوشش کریں ان کو آزمائیں اور ان کے ذریعے وہ کامیابی حاصل کریں جو اللہ نے ان بندوں کے لیے مقرر کردی ہے جو اللہ کی مدد کرتے ہیں۔