نبی کریم ﷺ لوگوں کو صحیح راہ بتانے اور اللہ کی طرف بلانے کے کام پر مامور تھے۔ انسانوں کی زندگی کو شرک کی آلائشوں سے پاک و صاف کرکے اللہ کی کتاب، اس کی وحدت اور اسی کی عبادت کی طرف بلانا آپ کا فرض منصبی تھا۔ اور آپ نے نبوت کی ۲۳ سالہ زندگی میں کوئی لمحہ بھی ایسا نہ گزارا جب یہ فریضہ اور ذمہ داری آپ کی نظروں سے اوجھل رہی ہو۔اپنے گھر میں احباب کے درمیان، رشتہ داروں کے بیچ اور عام لوگوں کے سامنے کوئی ایسا موقع نہ تھا جب آپ لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے اور ان کی زندگیوں کے تزکیہ کی طرف متوجہ نہ رہے ہوں۔ آپ کی تمام دوڑ دھوپ اور جدوجہد کا مرکز یہی دعوت تھی جس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے آپ پر ڈالی تھی اور یہ پوری طرح آپ کے ذہن و دماغ پر ایسی چھاگئی تھی کہ اس کے لیے ہر وقت بے چین رہتے۔ قرآن کریم میں اس اللہ رب العزت نے جس نے خود ہی یہ ذمہ داری آپ پر ڈالی تھی۔ فرمایا:’’اے نبی! لگتا ہے تم اپنے آپ کو اس بات کے پیچھے ہلاک کرلوگے کہ لوگ ایمان لے آئیں۔‘‘
ذرا تصور کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہی نے آپ پریہ ذمہ داری ڈالی کہ آپ لوگوں کو دین کی دعوت دیں اور جب آپ انتہائی جدوجہد اس میں صرف کررہے ہیں اور آپ کے غوروفکر اور جدوجہد کا نکتہ ہی یہ بن گیا ہے تو گویا اللہ تعالیٰ آپ کو تسلی دے رہا ہے اور فرماتا ہے:’’بے شک تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا ہدایت دے گا۔‘‘
آپؐ کی دعوتی تڑپ دیکھئے، مکہ کے قریب ایک تجارتی قافلہ آکر ٹھہرتا ہے۔ آپ کو خبر ہوتی ہے اور فوراً اپنے رفیق کار ابوبکر صدیقؓ کو طلب کرتے ہیں۔ آپ کو شدید بخار ہے۔ فرماتے ہیں کہ چلو اس قافلے والوں کو اللہ کا پیغام سنایا جائے ہوسکتا ہے وہ اس دعوت کو قبول کرلیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اے اللہ کے رسولﷺ آپ کو سخت بخار ہے اور آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ آپ یہ کام کل انجام دیں۔ آپ فرماتے ہیں ’’اے ابوبکر! کیا تم اس بات کی ضمانت دے سکتے ہو کہ وہ قافلہ کل تک ٹھہرا رہے گا؟ اور اگر وہ ٹھہرا بھی رہا تو کیا اس بات کا یقین ہے کہ میں کل تک زندہ رہوں گا؟‘‘ اللہ اللہ! کیا تڑپ تھی اور کیا جذبہ تھا۔
قابلِ غور یہ ہے کہ ہم جواب اس دعوت کو لوگوں تک پہنچانے کے فرض پر مامور ہیں کیا اپنے اندر اس تڑپ کا کوئی بھی حصہ پاتے ہیں؟ اگر نہیں تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم آپؐ کے کیسے امتی ہیں؟