اس روز مجھے ہلکا ہلکا بخار تھا، بستر چھوڑنے کو دل نہ چاہتا تھا لیکن میری تین سالہ شوزی نے میرا لیٹنا دوبھر کررکھا تھا۔ ’’امی! دودھ ٹھنڈا نہیں پیوں گی۔ امی! میرا گھوڑا کہاں رکھا ہے؟ امی مجھے باہر بھجوادیجیے۔ اس کی کوئی ایکضد نہیں تھی اور اس کی پندرہ بیس فرمائشوں کا پورا کرنا میرے لیے مصیبت تھا۔ اس کے ابا دورے پر گئے ہوئے تھے ورنہ شاید وہ اتنی چڑچڑی نہ ہوتی۔ نوکر نے اسے بہلا پھسلا کر باہر لے جانا چاہا تو مچل گئی۔ ’’میں امی کے پاس رہوں گی۔‘‘ ڈانٹنے ڈپٹنے پر اتنی زور زور سے شور مچانے لگی کہ میرے سر میں دھماکے سے ہونے لگے۔ تنگ آکر میں نے نوکر سے کہہ دیا: ’’اسے یہیں چھوڑ دے۔ میرے لہجہ کی کرختگی سے مرعوب ہوکر کچھ دیر تک تو وہ بالکل نہ بولی، پھر پیر پھسلنے کا بہانہ بناکر زور شور سے رونا شروع کیا۔ غصے میں اٹھ کر میں نے اسے دھنک ڈالا۔ ’’شوزی! خدا تجھے موت دے دے تو اچھا ہے۔ تو نے میرا جینا دوبھر کررکھا ہے۔‘‘
شوزی نے دھاڑیں مار مار کررونا شروع کردیا۔ میں نے اسے کمرے سے باہر نکال دیا اور خود کمرہ بند کرکے سر پر پٹی باندھ کر لیٹ گئی۔ اس کے دروازہ پیٹنے کی آواز کچھ دیر تک تو آتی رہی پھر شاید اسے نوکر بہلا کر لے گیا اور میں سو گئی۔
دس گیارہ بجے میں نے بستر چھوڑا، شوزی باہر برآمدے میں اپنی گڑیوں کی دکان سی سجائے بیٹھی تھی۔ مجھے باہرنکلتے دیکھ کر اس نے منہ پھیر لیا۔ اس وقت میرا غصہ فرو ہوچکا تھا، اس لیے اس کے پاس ہی جاکر بیٹھ گئی۔ ’’شوزی بیٹا! کیا کررہی ہو؟‘‘ شوزی نے اپنا معصوم چہرہ اوپر اٹھایا اور بولی: ’’آپ تو دعا کرتی ہیں کہ میں مرجاؤں، پھر ہم سے کیوں بولتی ہیں؟‘‘
یہ کہہ کر اس نے اپنے ماتھے پر بکھرے بالوں کو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے سنوارا اور میرا جواب سننے سے پہلے گیٹ کی طرف بھاگ گئی۔
میں نے تو بڑی بڑی نفسیاتی کتابوں میں یہی پڑھا تھا کہ بچے کا زیادہ لاڈ اٹھانے سے بچہ بگڑ جاتا ہے، اس وقت بھی چاہنے کے باوجود اس کے بھاگتے قدموں کو نہ روکا اور اس کی اس ادا پر دل ہی دل میں ہنستی اور قدرے ندامت سی محسوس کرتی رہی۔ تھوڑی دیر کے بعد میں ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے تیار ہونے لگی۔ طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب ہورہی تھی۔ جلدی جلدی تیار ہوکر ڈاکٹر کے کلینک چلی گئی۔ وہاں شاید مجھے آدھا گھنٹہ لگا ہوگا یا شاید پون گھنٹہ ہوا ہو۔ مجھے اب تو یہ وقفہ بھی یاد نہیں رہا۔ کھانے سے کچھ دیر پہلے کا وقت تھا۔ جب میں نے اپنے گھر سے کچھ دور لوگوں کا ہجوم دیکھا۔ یا الٰہی خیر… سینے سے اٹھتے دھویں کو دبا کر دو قدم آگے بڑھائے… تو میری ہمدرد پڑوسن آکر مجھے لپٹ گئی… ’’صبر کر میری بہن! صبر کر!!!
میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
میری زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکلا، مبادا کوئی بری خبر اس کے جواب میں نہ سننی پڑے، میں نے اپنے بازو اس کی گرفت سے چھڑائے، لڑکھڑاتی چال سے گیٹ کی طرف بڑھی۔ گھر میں پورا محلہ امڈا ہوا تھا۔ میری شوزی گڑیا اس ہجوم میں نہ تھی۔
’’شوزی کہاں ہے…‘‘ میری ممتا نے اندر سے ایک چیخ ماری۔
’’شوزی! میری رانی! مگر اندر کمرے میں عورتوں اور دوسرے بچوں کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ یہ سب کچھ تو مجھے بعد میں پتہ چلا کہ شوزی میری تلاش میں باورچی خانے میں گئی، نہ جانے کس طرح تیل کا جلتا چولہا اس پر آگرا۔ مجھے یقین ہے اس نے مجھ سے صلح کرنے کے لیے میرے لیے چائے بنانی چاہی ہوگی کیونکہ جب مجھے بخار ہوتا ہے تو تھوڑی دیر کے وقفہ کے بعد میں چائے پیتی ہوں۔ میری گڑیا نے بھی چائے بنانی چاہی ہوگی اس کوشش میں جلتا چولہا اس کے پھول سے بدن پر آگرا اور جب تک ملازمہ اس کی چیخ و پکار پر باورچی خانے تک پہنچی وہ بری طرح جھلس چکی تھی۔ اس کی زبان سے جو آخری الفاظ ادا ہوئے وہ یہ تھے:
’’امی میں مررہی ہوں…!‘‘
یہ الفاظ اگر میں سن لیتی تو میرا کلیجہ پھٹ جاتا۔ مجھے تو اسپتال سے اس کی جھلسی ہوئی لاش ہی مل سکی۔
رات کے سناٹوں میں مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے شوزی نے میرے کانوں میں سرگوشی کی ہو …’’امی! آپ نے مجھے بددعا دی تھی، اب تو میں مرگئی نا…! اس وقت میں دل پکڑ کر رات رات بھر روتی ہوں۔ کاش! میں یہ منحوس فقرہ اپنی زبان سے نہ نکالتی۔ یہ پچھتاوا مجھے زندگی بھر رہے گا۔