زندگی جینے کے لیے مرد وعورت کو وہ تمام بنیادی حقوق ملنے چاہئے جو سماج انھیں قانونی واخلاقی طور پر بہ حیثیت انسان فراہم کرتا ہے۔ انسانی ضروریات کی تکمیل میں معاشی تگ و دَو کی بڑی اہمیت ہے۔ مردوں پر معاشی مصروفیت اختیار کرنا فرائض میں داخل ہے جب کہ عورت کو لازم نہیں۔ خاندان میں والدین ،شوہر بیوی، بچے، بھائی، بہن سب ہوتے ہیں ۔ ان سب کی ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داری مردوں کی دی گئی ہے اور عورتیں گھر کے اندر کے نظام کو احسن طریقے سے چلانے کی ذمہ دار ہیں ۔ اس سلسلے میں عورت پر کوئی معاشی بوجھ نہیں ڈالا گیا بلکہ اسے اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے تحت کسب معاش اختیار کرے ،یا اپنی صلاحتوں و قابلیتوں کی بنیاد پر اسلامی حدود کی پاسداری کرتے ہوئے معاشی جدوجہد کرے ۔عورت جب ملازمت کرتی ہے تو اسے تین طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
سماجی و معاشرتی مسائل
جب عورت معاشی جدوجہد میں مرد کے شانہ بہ شانہ شریک ہوئی تو سماج میں انتشار پھیلا۔سب سے پہلا مسئلہ گھر سے شروع ہوا۔ بچوں کی پرورش اور بزرگوں کی دیکھ بھال کون کرے یہ بنیادی سوال کھڑا ہوا۔ اس مسئلے کا حل عصر حاضر میں یہ نکالا گیا کہ بچوں کی دیکھ بھال Day care میں یا play houses میں ہو۔ دایہ کے ہاتھوں بچے کی پرورش و تربیت انجام پائے اور ماں یکسوئی کے ساتھ اپنی ملازمت جاری رکھے ۔بچپن میں بچے کو سب سے زیادہ ضرورت ماں کے آغوش کی ہوتی ہے۔ایسا نہ ہو تو بچے کی نفسیات پر برا اثر پڑتا ہے اور دھیرے دھیرے اس کی شخصیت میں منفی رجحانات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ بچے محرومیت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ چڑچڑاپن اور بد تمیزی ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ جب ماں آٹھ گھنٹے دن یا رات شفٹ میں کام کرکے گھر لوٹتی ہے تو چاہنے کے باوجود وہ اپنے بچوں کو وہ مامتا اور قربت نہیں دے پاتی جو گھر میں رہتے ہوئے انھیں دیتی ہے ۔یہ بات بالکل فطری ہے کہ باپ یا گھر کے دیگر افراد ماں کی جگہ نہیں لے سکتے۔ایسے میں بچے شدید محرومیت میں مبتلا ہوکر تخریب کاری کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ۔ بڑے ہوکر ان کا مزاج سماج سے میل نہیں کھاتا اور بعض دفعہ وہ جسمانی و نفسیاتی امراض کے بھی شکار ہو جاتے ہیں۔
ملازمت کرنے والی خواتین کی سماجی زندگی تقریباً سمٹ سی جاتی ہے ۔ لوگوں سے ملنا جلنا کم ہو جاتا ہے اور کچھ خواتین کے سماجی روابط بالکل ٹوٹ جاتے ہیں ۔ اپنے عزیز و رشتہ داروں کی خوشیوں اور غموں میں بھی شرکت کا وقت نہیں نکال پاتیں۔ ملازمت کرنے والی خواتین کو سماج میں دو طرح کے لوگوں کا سامنا لازماً ہوتا ہے ۔ایک وہ لوگ جو تعلیم یافتہ اور سلجھے مزاج کے ہوتے ہیں، یہ طبقہ عورت کے کام کرنے سے خوش ہوتا ہے اور عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ یہ لوگ امید کرتے ہیں کہ اس کی شخصیت دوسری خواتین کو بھی سماج میں اپنا رول متعین کرنے کی طرف راغب کرے گی۔ سماج خصوصی طور پر ڈاکٹر اور ٹیچر کا پیشہ اختیار کرنے والی خواتین سے مثبت امیدیں قائم کر لیتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس پیشے سے وابستہ خواتین سماج میں تعمیری سوچ کو پروان چڑھانے میں معاون ہوتی ہیں ۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو عورت کو محض گھر کی ملازمہ کی حیثیت سے دیکھتا ہے ۔ اس کے باہر نکلنے اور کسی قسم کی سماجی سرگرمی کا سخت خلاف ہوتا ہے اور عورت کے لیے سماج میں منفی خیالات کو پروان چڑھانے کی وجہ بنتا ہے۔ موجودہ دور کی ملازمت پیشہ خاتون ان تمام مسائل کو برداشت کرنے پر مجبور ہے۔
اخلاقی مسائل
حصول معاش میں عورت کو سب سے بڑی قربانی اخلاقی قدروں کی دینی پڑتی ہے ۔عورت کو ہر جگہ صنفی تفریق کا سامنا ہے خواہ تعلیمی ادارہ ہو یا معاشی ادارہ۔ دفتر کے ماحول سے مزاج ملے یا نہ ملے خود کو مصالحت پر آمادہ کرنا پڑتا ہے کیوں کہ اپنے باس کو خوش رکھنا ضروری ہے۔ بھدے اور بیہودے فقروں پر مسکرانا پڑتا ہے کیوں کہ یہی مردانہ سماج کی روش ہے۔ اپنے تشخص کو خیر باد کہنے کے بعد بھی نہ اسے مردوں کے مقابلے عزت ملتی ہے نہ ان کے مساوی تنخواہ ملتی ہے اور نہ ہی ترقی۔ ہر جگہ اسے اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ مرحلہ ہے لیکن وہ اسٹیٹس بنائے رکھنے کی خاطر یا مجبوری میں اس راہ گزر کا سامنا روز کرتی ہے۔
اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ مرد اساس معاشرے میں عورت کی حیثیت ثانوی بلکہ بعض صوررتوں میں اس سے بدتر ہے ۔وہ کہیں ماڈل کے نام پر، کہیں فیشن شو کے نام پر، کہیں ہیروئن کے نام پر، کہیں ایروٹک آرٹ کے نام پر اور کہیں بیوٹی کوئین کے نام پر ٹھگی جا رہی ہے تو کہیں اس کے حسن کی تعریف کرکے ، کلبوں، ہوٹلوں ، دفاتر، ڈانس بارزاور ریسیپشن کی کرسی پر بٹھا کر اسے مسلسل بیوقوف بنایا جا رہاہے ۔ ان سارے رولز میں اس کا جسمانی و جنسی لحاظ سے استحصال ہو رہا ہے لیکن وہ اس بات سے نظریں چرائے ہوئے ہے کہ آمدنی میں فرق نہ پڑ جائے۔بڑی چالاکی اور مکاری کے ساتھ عورتوں کی ذہن سازی کی جا رہی ہے کہ اس کے پاس حسن کی کشش ہے جس کی وجہ سے وہ دلوں پر حکومت کر سکتی ہے ۔گویا وہ خود کو جتنا ایکسپوز کرے گی اتنی ہی ترقی یافتہ اور کامیاب کہلائے گی۔اس طرح سے عورت ہر سطح پر اپنی نسوانی شناحت کو دائو پر لگائے ہوئے ہے۔ شادی کو بے وجہ کا بندھن قرار دیا۔بغیر شادی کے وقتی زوج کا انتخاب کرکے ماں بنے اور سنگل پیرنٹ ہوڈ سے لطف اندوز ہو۔ وہ اب شوہر کے ماتحت زندگی نہیں گزارے کیوں کہ وہ خود کفیل ہے۔ غور طلب ہے کہ کیا عورت صرف بے روزگار ہونے کی وجہ سے شادی کر تی ہے یا شادی اخلاقی و سماجی اعتبار سے بھی ضروری ہے ؟
اس انتہائی سنگین مسئلے کی طرف عمرانیات اور سماجیات کے ماہرین متوجہ کر چکے ہیں مگر وہ اس کا حل پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔ پوری دنیا میں ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ عورت کام کرے تو گھر کا محاذ کون سنبھالے ؟ دونوں اپنا اپنا کام کریں یا عورت گھر اور باہر دونوں کی ذمہ داری ادا کرے ۔ مغرب میں تو اولذکر پر عمل کیا جاتا ہے نیز مشرق میں اب بھی آبادی اس کی قائل نہیں ہے کہ مرد کو گھر سے باہر کے کاموں کا ذمہ دار مانا گیا ہے۔ ان حالات میں گھر کی دیکھ بھال ، بچوں کا خیال رکھنا ، ان کی تعلیم و تربیت، بزرگوں کی خدمت، باورچی خانے کا کام، صفائی، کپڑے اور بہت سارے امور زیر بحث آکر گھریلو ناچاقی کی وجہ بن رہے ہیں ۔چھوٹی چھوٹی باتیں ایک دوسرے کی تحقیر کی وجہ بن رہی ہیں۔ طعن و تشنیع ازدواجی زندگی کی خوشگواریوں کو خاک میں ملا رہے ہیں۔ گھریلو جارحیت علاحدگی اور طلاق تک پہنچ رہے ہیں جس کے نتیجے میں خاندانی نظام پرسب سے بڑا خطرہ منڈلا رہا ہے ۔ بعض زوجین ایسے بھی ہیں جو ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہوئے کئی روز تک ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کر پاتے اور بچے والدین کی صورت دیکھنے کو بھی ترس جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کی زندگی جذبات و احساسات سے عاری ہوتی ہے۔
موجودہ دور کی عورت متنوع قسم کے مسائل سے دوچار ہے اور ان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ گھر اور معاش دونوں کے درمیان پس رہی ہے اور اس دوہری مار سے بچانے کے لیے کوئی نظریہ اور کوئی تحریک نہیں چلائی جارہی ہے حالانکہ اس بات کی انتہائی ضرورت ہے کہ موجودہ دور کی ملازمت پیشہ عورت کو اس دوہری ذمہ داریوں سے آزادی دلانے کی مہم چلائی جائے اور اس کو باوقار زندگی جینے کا موقع دیا جائے۔
ll