۲۴؍فروری کو کنیا کماری کے ایک انجینئر کی طلاق کی عرضی خارج کرتے ہوئے جسٹس جی راج سوریا کی قیادت والی مدراس ہائی کورٹ کی مد ورائی بینچ نے حکم دیا کہ بیوی کے ذریعے کھانابنانے سے منع کرنے پر اسے طلاق دینا تصور سے بعید ہے۔ مزید یہ کہ کھانا بنانے سے منع کرنے پر بیوی کو طلاق دینے کافیصلہ عدالت کی نظر میں کوئی وجہ نہیں ہے۔ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی سے کھانا پکانے کی امید کرتا ہے اور وہ کھانا نہیں پکاتی تو اسے طلاق کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔
واضح رہے کہ انجینئر کی بیوی چاقو پکڑنے سے ڈرتی تھی جس کی وجہ سے وہ کھانا نہیں پکاتی تھی۔ مذکورہ عدالت کا فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جبکہ خواتین کے خلاف تشدد کا قانون اور طلاق پورے ملک میں موضوع بحث بنا ہوا ہے یہ فیصلہ یقینا قابلِ ستائش ہے۔ کیونکہ اس فیصلے سے معاشرے میں طلاق کی بڑھتی شرح اور شوہروں کے غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل پر روک لگنے کی امید کی جاسکتی ہے۔
جس چیز کو معمولی گردانتے ہوئے جسٹس موریا نے طلاق کی عرضی کو خارج کیا ہے وہ واقعی کوئی ایسا سبب نہیں جس کو بنیاد بناکر شوہر بیوی کو طلاق دے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے شوہر و بیوی کے حقوق و اختیارات اور ان کی حدود کو واضح طور پر بیان کردیا ہے اور ہمارے فقہا نے تو اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ مگر اس تمام کے باوجود مسلم معاشرہ میں اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کے سبب گھریلو جھگڑوں اور شوہر بیوی کے درمیان تناؤ کی کیفیت کسی نہ کسی حد تک موجود ہے جس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ اوریہی وجہ ہے کہ جاہل مسلم معاشرہ میں’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘ کا گھناؤنا عمل باربار دہرایا جاتا ہے، جس کے ذریعے کتنے خاندان ٹوٹ جاتے ہیں اور کتنے ہی بچے کشمکش اور تناؤ سے بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
اسلام میں طلاق کی مثال دھویں سے بھرے اس بند کمرے کے دروازے سے دی جاسکتی ہے کہ جب اس کمرے میں دو انسانوںکا دم گھٹنے لگے تو وہ طلاق جیسے دروازے سے نکل کر کھلی فضا میں سانس لے سکیں اور یہ ایک بہترین سبیل ہے جو خود اللہ نے ان کے لیے پیدا کی ہے۔ لیکن موجودہ دور میں جس طرح مسلم معاشرے میں طلاق last stage optionکے بجائے ایک عام چیز بنالیا گیا ہے وہ باعث تشویش ہے۔
اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مسلم معاشرے میں طلاق دینے کی وجوہ وہ نہیں ہیں جن کے ہونے سے دو انسانوں کا ایک ساتھ رہنا ناممکن ہوجائے بلکہ وہ وجوہ ہیں جو یا تو معمولی ہیں یا پھر اسلام نے واضح طور پر ان کے سلسلے میں ’طلاق‘ جیسا سخت فیصلہ لینے سے گریز کرنے کی تلقین کی ہے۔ ان وجوہ میں کپڑے نہ دھونا، گھر کی صفائی نہ کرنا، کھانا اچھا نہ بنانا، شوہر کی کسی بات سے بیوی کا متفق نہ ہونا سے لے کر دونوں کے درمیان کسی بات پر نوک جھونک تک ممکن ہے اور حقیقت میں یہ چیزیں اسلام کی نظر میں طلاق کا باعث ہرگز نہیں ہوسکتیں۔
قابلِ افسوس اور تشویشناک بات تو یہ ہے کہ دین سے بے بہرہ اور عام مسلمانوں کے برعکس مذہبی اور تعلیم یافتہ افراد بھی اس قسم کی بلا وجہ طلاق کے مرتکب ہوتے نظر آتے ہیں۔ کئی واقعات میں تو سند یافتہ عالم لوگ بھی ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘ کی سنگین غلطی کے مرتکب پائے گئے ہیں، جو ان کے قول و عمل کے تضاد اور واضح اسلامی تعلیمات سے انحراف کی واضح دلیل ہے۔
سیرت رسول اور قرآن و حدیث کی تعلیمات میں مومن شوہر کی زندگی کا نصب العین ’’قوا انفسکم و اہلیکم نارا‘‘ (اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ) بتایا گیا ہے۔ گھر کو خوشگوار اور پرامن بنائے رکھنے کے لیے اپنی بدمزاج بیوی کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے اور عفو و درگزر کے ہتھیار کے استعمال کی تلقین کی گئی ہے۔ کھانا نہ بنانے، کپڑے نہ دھونے غرض یہ کہ ہر وہ کام جس کو عورت کی گھریلو ذمہ داری سمجھا جاتا ہے، کو صحیح طور پر انجام نہ دے پانے کی صورت میں ایک مسلم و مومن شوہر کا طرزِ عمل ڈانٹ ڈپٹ، مار پیٹ، گھڑکی دھمکی، نفرت و بے زاری پر مبنی نہیں ہوتا۔ بلکہ وانذر عشیرتک الاقربین کے تحت وہ محبت و شفقت، صبر و تحمل اور اپنی خودی اور انا کی دیوار کو گراتے ہوئے اچھے انداز میں معاملہ کرنے والا ہوتا ہے اور اسے ہونا چاہیے۔ مومن اور مسلم سے مطلوب یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنی بیوی کی تربیت اس انداز میں کرنے کی فکر کرے کہ وہ بھی اللہ سے ڈرنے لگے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو ’تامرون بالمعروف و تنہون عن المنکر‘کا فریضہ جو ملت کے ہر مردو عورت کی ذمہ داری ہے وہ کس طرح ادا ہوپائے گا؟ اور’’مومن مرد اور مومن عورت ایک دوسرے کے دوست (ولی) ہیں۔‘‘ کے قرآنی حکم کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟
ذرا دیکھئے رسول اللہ ﷺ کی ازدواجی زندگی کو جو ہمارے لیے نمونہ ہے اور ازواج مطہرات کی زندگی کو جو مومن عورتوں کے لیے اسوئہ حسنہ ہیں وہاں شوہر و بیوی کے درمیان کیسا تعلق اور ایک دوسرے کی کتنی سمجھ نظر آتی ہے۔ کیا وہاں توہین و تذلیل اور طعنے و غصہ گرمی کا کہیں کوئی شائبہ نظر آتا ہے۔ اللہ کے رسول نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا تھا، جہاں مرد و عورت واقعی ایک دوسرے کے رفیق کار اور دوست بن گئے تھے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت کے اسلامی معاشرہ میں عورت نے ہر سطح پر عظیم تعمیری رول ادا کیا اور اس کا راز صرف یہ ہے کہ اس دور کے مردوں نے خواتین کی ذہنی، فکری اور دینی تربیت کرکے ان کو واقعی اس لائق بنادیا تھا کہ وہ ان کی رفیق کار بن جائیں۔
موجودہ دور کے مسلم معاشرے کو دیکھا جائے تو ایسا کچھ بھی نظر نہیں آتا، جس کی وجہ سے عام معاشرہ کی طرح ان کے خاندان بھی ٹوٹ پھوٹ کے کگار پر ہیں اور ’طلاق‘ کو فروغ مل رہا ہے اس سیاق میں نام نہاد تعلیم یافتہ اور دین دار طبقہ بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ جواب واضح ہے کہ آخرت کی جواب دہی سے بے خوفی، حضورﷺ سے محض نام کی محبت اور دین کو دنیا میں اثر و رسوخ کے لیے اختیار کرنا ہے۔
نبی کریمﷺ جو تمام امت کے لیے رہنما بن کر آئے تھے اور قیامت تک مومنوں کو ان کے بتائے ہوئے اصولوں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنا ہے اگر آپؐ کی زندگی کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ پوری دنیا کی بھلائی اور بخشش کے لیے ہر وقت پریشان رہتے تھے۔ نبوت کا فریضہ بھی انجام دے رہے تھے اور ساتھ ہی ۱۱؍ازواج مطہرات کے شوہر بھی تھے، لیکن کس طرح آپؐ نے امت کے لیے ان کے درمیان عدل و انصاف کی عظیم نظیر پیش کی۔ سب کو بے پناہ محبت دی نہ صرف محبت دی بلکہ اللہ سے ڈرنے والی بنایا۔ سب سمجھتی تھیں کہ نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ اسے ہی چاہتے ہیں لیکن اس عظیم اور مثالی کردار رکھنے والی امت کے ماننے والے ایک بیوی کے ساتھ عدل و انصاف نہیں کرسکتے؟
شاید مرد حضرات سوچیں کہ بگاڑ عورت کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ بات درست ہوسکتی ہے کیونکہ حضور نے عورت کی مثال پسلی کی ہڈی سے دی ہے۔ مگر اصلاح کی ذمہ داری اور عفو ودرگزر کا سرا بھی مرد ہی کے ہاتھ میں تھمایا ہے۔ خواتین کا اصلاح معاشرہ اور مثالی سماج کی تشکیل میں کلیدی رول ہے اس لیے خواتین کی اصلاح و تربیت کے کام سے غفلت نہیں برتی جاسکتی۔ مگر کیا صرف عورتوں کی اصلاح ہی ضروری ہے یا مردوں کے موجودہ ذہن وفکر اور سوچ کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ جی ہاں! مسلم تنظیمیں اور علماء و مصلحین صرف خواتین کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں، اس طرح گویا مردوں کے فکرو عمل کی اصلاح کی ضرورت باقی نہیں۔
خواتین کے سمیناروں میں تو خواتین کو شوہر کے حقوق پر خوب سمجھایا جاتا ہے اور یہ اچھی چیز بھی ہے لیکن کیا کبھی مرد تنظیموں کے ہونے والے سیمیناروں میں بیوی کے حقوق، شوہر کی ذمہ داری، حقوق نہ دینے پر گناہ اور قوام ہونے کے اصل مطلب پر بھی بات ہوتی ہے؟ اور اس کی عمل آوری پر حقیقت پسندانہ طریقے سے سمجھایا جاتا ہے؟ یہ سوال پوری مسلم امت اور علماء و مصلحین سے کیا جانا ضروری ہے۔ مسلم معاشرے میں بگڑتے شوہر بیوی کے تعلقات اور ’طلاق‘ کی بڑھتی شرح کو کم کرنے کے لیے صرف تقاریر اور تحریر ہی کافی نہیں بلکہ ان وجوہ کو رفع کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے طلاق کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ ظاہر بات ہے کہ اس کے لیے دنیاوی قانون نہیں بلکہ اللہ کی پکڑ، حقوق ادا کرنے کی فکر، آخرت کی پوچھ گچھ اور دائمی زندگی کی تیاری کی فکر، مسلم مرد و خواتین میں یکساں طور پر جگانے کی ضرورت ہے۔
مسلم مرد و خواتین کی تنظیمیں اس سلسلے میں اہم رول ادا کرسکتی ہیں اور مسلم خاندان کو بچانے اور اچھا اور مستحکم معاشرہ بنانے کی منظم اور متوازن کوششیں کی جائیں تو مسلم معاشرہ کو اس فساد سے بچایا جاسکتا ہے۔ شوہر بیوی کے درمیان تنازعہ اور طلاق کا اہم سبب مردوں کے ذریعے خواتین کے ان بنیادی حقوق کو سلب کرنا ہے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے عورت کو عطا کیے ہیں اور زیر بحث کیس میں خواتین یا بیوی کے حق پر ڈاکہ زنی کی واضح مثال ہے جس سے مسلم معاشرہ کو سبق لینا چاہیے۔