یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم کا شوق بڑھ رہا ہے۔ پورے ملک میں اعلیٰ تعلیمی ادارے مسلمان قائم کر رہے ہیں۔ اور معیاری وباوقار تعلیمی اداروں اور کورسیز میں مسلمانوں کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ مسلمان والدین اپنے بچوں کی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے سلسلہ میں اب زیادہ سنجیدہ ہیں۔ لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں۔
لیکن یہ تما م خوش گوار ترقیاں اسلام اور ملت اسلام کے لیے صحیح معنی میں اس وقت مفید ثابت ہو سکتی ہیں جب پڑھنے والے بھی اور پڑھانے والے بھی (خاص طور پر والدین) اس بات کے شعور کے ساتھ آگے بڑھیں کہ انہیں تعلیم کس لیے حاصل کرنی ہے؟ اور بحیثیت مسلمان ان کی تعلیم کا حقیقی مقصد کیا ہے؟
رائج تعلیمی تصور
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کے تعلیمی مقاصد ملک کے عام باشندوں کے تعلیمی مقاصد سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ بلکہ شائید عام باشندوں سے بھی زیادہ پست ہیں ۔ اکثر پڑھنے والوں اور پڑھانے والوں کے ذہنوں میں اس سے بڑھ کر اور کوئی بات نہیں ہے کہ بچپن اور نوجوانی کے قیمتی ۲۰، ۲۵ سال اس مقصد کے لیے تعلیم میں صرف کیے جائیںکہ باقی ۳۰، ۳۵ سال خوشحال اور آرام دہ زندگی گذاری جاسکے۔ چونکہ خوش حال اور آرام دہ زندگی کا شارٹ کٹ راستہ ذہنی پستی کی وجہ سے ،بعض مخصوص شعبوں سے وابستہ سمجھا گیا ہے، اس لیے ہر ماں اور ہر باپ کے نزدیک زندگی کی معراج یہ ہے کہ بچہ ڈاکٹر یاانجنئیربن جائے۔ اور چونکہ ڈاکٹر اور انجینئر بننا اس مسابقتی دور میں ایک مشکل کام ہے،اس لیے بچہ کے پیدا ہوتے ہی دیگر تمام تربیتی اور تعلیمی تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، یا کم ازکم ثانوی درجہ میں رکھتے ہوئے، ماں، باپ، بچہ اور اس کے پورے خاندان کو اسے ڈاکٹر یا انجنیئر بنانے کے پروجیکٹ کے لیے مکمل طور پر یکسو ہو جاتے ہیں۔ چونکہ مسلمانی کا بھرم بھی نبھانا ہے اس لیے کسی مولوی کے ذریعہ حسب موقع وحسب فرصت ناظرہ قرآن اور طریقہ نماز سکھلا کر ’’دینی تعلیم‘‘ کے تقاضے بھی نبھانے ہیں۔
بعض مستثنیات کو چھوڑ کر ۔الا ماشاء اللہ ۔ بڑی حد تک اس وقت تعلیم یافتہ مسلم مڈل کلاس میں تعلیم کایہی منظر نامہ ہے۔
رائج تصور کے نقصانات
اس سطحی اورپست تعلیمی تصور کے نتائج نہایت بھیانک ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ ز بیورو کے مطابق 2006 ء میں 5857 طلبہ نے خود کشی کی تھی۔ اس سال بھی جب گذشتہ دنوں امتحان چل رہے تھے ملک بھر میں تقریباً 800 طلبہ خودکشی کر چکے تھے۔ دہلی کے ڈاکٹروں کے مطابق تنائو ختم کرنے والی دوائوں کو استعمال کرنے کا سب سے زیادہ چلن طلبہ میں ہے۔بعض خطرناک ادویات مثلاً Antiepilepsy drugs کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کی گمراہ کن ویب سائٹس کی مدد سے چھپکلیوں کے جسمانی اعضاء، جوتوں کی پالش ، نیل پالش ریموور وغیرہ جیسی چیزوں سے طلبہ تنائو دور کرنے کی اپنی دوائیں خود تیار کررہے ہیں۔ (ان میں اکثریت اسکول کے طلبہ کی ہے۔) اس طرح تعلیم کا عمل جو کہ ایک مسرت بخش تجربہ ہونا چاہیے تھا ایک تنائو سے پر، تکلیف دہ تجربہ بنتا جارہا ہے۔
ہر ایک کو ڈاکٹراور انجنیئر بنانے کی اس دیوانگی نے بچوں سے ان کا بچپن، بچپن کی شوخیاں اور مسکراہٹیں اور بچپن کا حسن ولطافت ہی نہیں چھینا ہے بلکہ ان سے ان کی شخصیتیں بھی چھین لی ہیں۔ وہ انمول خزانے چھین لیے ہیں جو فطرت نے ان کے اندر ودیعت کر رکھے تھے۔ عظیم الشان کارناموں کے وہ لامحدود امکانات چھین لیے ہیں جو ان کی مخصوص شخصیتوں کے ساتھ وابستہ تھے۔ اس دیوانگی نے انسانیت کو نہ جانے کتنے فارابیوں، بوعلی سینائوں، غزالیوں اور مودودیوں سے محروم کر دیا ہے۔
شخصیتوں کے اس قتل عام کے لیے سماج کے ساتھ ساتھ وہ ماں باپ بھی ذمے دار ہیںجو اپنی پامال آرزوؤں کی اپنے بچوں کے ذریعہ تکمیل چاہتے ہیں اور اپنے خوابوں کوبالجبر اپنے بچوں پر تھوپتے ہیں۔
وپرو کے چیرمین عظیم ہاشم پریم جی نے چند سال قبل ایک دلچسپ مضمون ٹائمز آف انڈیا میں لکھا تھا جس میں بحیثیت ایک باپ کے (“As a Parent”) اپنے تعلیمی تجربات بیان کیے تھے ۔وہ لکھتے ہیں۔
’’اسکول کا بنیادی مقصد طالب علم کو اپنے آپ کو پہچاننے میں مدد دینا ہے۔ تاکہ وہ خود کی، اور اپنی مخصوص دنیا کی معرفت حاصل کرسکے۔ اور پھر اس کی مخصوص صلاحیتوں کی نشونما کرنا ہے۔ جس طرح ہر بیج، مستقبل کا ایک سر سبز و شاداب درخت ہوتا ہے؛ اس طرح ہر بچہ مستقبل کے مخصوص لیکن لا محدود امکانات کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ سرپرستوں اور اساتذہ کو ایک محنتی باغباں کی طرح اس درخت کی نشونما کرنی ہے۔اور اس کی فطری خاصیتوں کو کمال تک پہنچانا ہے، نہ کہ ایک کمہار کی طرح اپنی پسند کے مخصوص سانچوں میں بچوں کو ڈھالنے کی غیر فطری کوشش کرنی ہے۔ ‘‘
مطلب یہ ہے کہ کمہار تو اپنی خواہش ، آرزو اور خواب کے مطابق برتن مٹی کے ذریعہ ڈھال سکتا ہے۔ اور اپنی پسند کے ڈیزائن تیار کر سکتا ہے۔لیکن باغباں اپنی مرضی کا درخت نہیں پیدا کر سکتا ۔ باغبانی کا فلسفہ یہ ہے کہ اپنی مرضی کو بالائے طاق رکھ کر بیج کے مخصوص امکانات پر توجہ مرکو زکی جائے اور یہ کوشش کی جائے کہ بیج کے مخصوص امکانات اپنے کمال کو پہنچیں۔ اور درخت سے جو مخصوص فائدے (چاہے وہ باغبان کی خواہش اور ترجیح کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں) متوقع ہیں وہ بدرجہ کمال حاصل ہوں۔
میکاؤلے کا نظام تعلیم
کمہار کی طرح نظام تعلیم کے ذریعہ اپنی پسند کے افراد ڈھالنے کا یہ مکروہ عمل رسوائے زمانہ برطانوی ماہر تعلیم میکائولے نے شروع کیا جس نے برطانوی سامراج کی خدمت کے لیے کم عقل، کند دماغ، یک رنگ بابوئوں اور اہل فن (Skilled Labour) کی فوج کی تخلیق کا بیڑا اٹھایا تھا۔ یعنی اوسط ذہنی صلاحیت (mediocres) کے ایسے افراد جو ایمپائر کے آقائوں کے دیئے ہوئے پیمانوں، طریقوں اور معیارات کے تحت سر جھکا کر اپنے اپنے شعبوں میں یکسوئی وفرماں برداری کے ساتھ انگریز بہادر کا حق نمک ادا کرتے رہیں۔ ان کی کسی چیز کو چیلنچ نہ کریں۔ ان کی جانب سے آنے والی ہر بات کو وحی الٰہی سمجھیں اور اپنے شعبہ اور پیشہ کے علاوہ دیگر معاملات سے سروکار نہ رکھیں۔
انگریز کے جانے کے بعد بھی ہمارا نظام تعلیم پوری وفاداری کے ساتھ میکائولے کے مقاصد کی تکمیل کرتا رہا۔ اب جدید امریکی سامراج کو بھی اپنے وسیع ایمپائر کی خدمت کے لیے ایسے ہی بے دام غلاموں کی ضرورت ہے۔ جو ۲۵، ۳۰، برس اُن سارے علوم وفنون کو سیکھنے میں لگائیں جو اس نظام کا کل پرزہ بنے رہنے کے لیے ضروری ہیں۔ اور پھر باقی عمر بے جان مشین کی طرح، احکام وصول کرنے اور ان کی تعمیل کرنے میں لگادیں۔
اس نظام تعلیم کی وجہ سے سطحیت اور کند ذہنی کا پیدا ہونا فطری ہے۔ صدیوں سے اہل علم، علم اور فن (skill) میں فرق کرتے رہے ہیں۔ ایک کامیاب انسان کے لیے علم بھی ضروری ہے اور فن بھی۔ حجامت کرنا، جوتا بنانا، کپڑے سینا، سافٹ ویر تیار کرنا، موٹر کا ڈیزائن بنانا، علاج کرنا، سرجری کرنایہ سب فنون ہیں جو روزگار کے لیے ضروری ہیں۔جبکہ علم کا تعلق اپنی ذات ، سماج ، ملک ، دنیا ، خدا، فطرت وغیرہ کے متعلق اور ان سے اپنے رشتہ کے متعلق گہرے شعور سے ہے۔ جدید نظام تعلیم علم کا المیہ یہ ہے کہ وہ علم کے نام پر صرف فن پیدا کررہا ہے۔
تعلیم کے عام طور پر جو فوائد بیان کیے جاتے ہیں وہ یہ ہیں کہ اس سے آدمی باشعور بنتاہے۔ مہذب بنتا ہے۔ سوال کرنے اور غلط رجحانات کو چیلنج کرنے کی صلاحیت اس کے اندر پیدا ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ایک ایسے پوسٹ گریجویٹ انجینئر کا تصور کیجئے جو اپنے پیشہ سے متعلق کتابوں اور اخبارات کے سوا کچھ نہیں پڑھتا ۔ کیا وہ پڑھالکھا کہلانے کا حقد ار ہے؟ بیشک وہ اپنے فن میں ویسا ہی ماہر ہے جیسا ایک انپڑھ بڑھئی اپنے فن میں ماہر ہے۔ سماجی شعور کے حوالہ سے دونوں میں کیا فرق ہے؟ پڑھا لکھا ہونا صرف پڑھنے اور لکھنے کی لیاقت کا حامل ہونا نہیں ہے بلکہ مختلف چیزیں پڑھنے کی عادت کا حامل ہونا ہے۔ اور اس پس منظر میں دونوں میںکوئی فرق نہیں ہے۔ اگر دونوں کے سماجی رویوں میں کچھ فرق ہے تووہ طبقاتی فرق کی وجہ سے ہے۔ یعنی انجنئیر اس لیے مہذب نظر آتا ہے کہ اس کا اٹھنا بیٹھنا مہذب لوگوں میں ہے۔ چونکہ وہ کوئی اور چیز نہیں پڑھتا اس لیے یہ ماننا مشکل ہے کہ اس کی تہذیب میں اس کی تعلیم کا کوئی رول ہے۔
ایک امریکی دانش ور نے صحیح کہا ہے کہ:
Those who read only about their subject are like lifeless machines that can perform only one task. In the matters of higher wisdom, they are not better than illiterates
’’جو لوگ اپنے مضمون کے علاوہ اور کچھ نہیں پڑھتے وہ ایسی بے زبان مشینیں ہیں جو صرف ایک ہی کام کر سکتی ہیں۔ جہاں تک علم و حکمت کی اعلی باتوں کا تعلق ہے ، ان میں اور ایک ان پڑھ آدمی میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔‘‘
یہ کیفیت ہم آسانی سے پڑھے لکھے پروفیشنلز کے ساتھ بات کرتے ہوئے محسوس کرسکتے ہیں۔ اپنے پیشہ میں بہت کامیاب ہیں۔ لیکن کسی سنجیدہ موضوع پر پانچ منٹ بات نہیں کر سکتے ۔ اونچی اور گہری باتیں ان کو بھی سمجھانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کسی انپڑھ دیہاتی کو ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی سامراج کو صرف ماہرین فن Skilled labour کی ضرورت ہے ۔تعلیم یافتہ اور باشعور شہریوں کی نہیں۔ بلکہ باشعور شہریوں کا وجود تو اس کے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ ہے۔اس لئے کہ غلاموں کے اندر جس لمحہ شعور پیدا ہوتا ہے اسی لمحہ بغاوت بھی پیدا ہوتی ہے۔
تعلیم کا مقصد صرف دولت کا حصول یا خوشحال زندگی نہیں ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز کے موقع پر اقوام متحدہ کے ادارہ یونسیف نے ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ جس کا مقصد نئے حالات کے تناظر میں تعلیمی ترجیحات سے متعلق سفارشات مرتب کرنا تھا۔ماہر تعلیم جیکوس ڈیلرز کی قیادت میں اس کمیشن نے اپنا کام مکمل کیا اور اس کی رپورٹ “Learning-The Treasure Within” کے نام سے طبع ہوئی ہے۔ ( ملاحظہ فرمائیے،Learning-The Treasure Within-The Report of Commission on Education in Twenty First Century, Published by UNICEF) جیکوز ڈیلر نے اس میں تعلیم کے چار بنیادی ستون متعین کیے ہیں۔ چوتھا ستون ان کے مطابق تعلیم برائے فہم خودی ہے۔اس کی تشریح کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں۔
’’انسانوں کے لیے جتنی اہم بیرونی آزادی ہے ، اتنی ہی اہم اندرونی آزادی بھی ہے۔ زندگی کا مقصد کمانے کھانے اور خاندان کی پرورش کرنے سے کہیں بالا تر ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کی زندگی کا ایک ذاتی مشن ہونا چاہیے جو محض مادی آسودگی تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ ’’میں کون ہوں؟‘‘ ’’میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟‘‘ ’’ کیا میں صرف اپنے لیے اور اپنے خاندان کے لیے روزی کمانے کی خاطر جی رہا ہوں؟‘‘ان سوالات کا پیدا ہونا فطری ہے۔ اور نظام تعلیم کو ان سوالات کے صحیح جوابات تلاش کرنے میں طالب علم کی مدد کرنی چاہیے۔‘‘
یہ کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ ایک مادہ پرست تہذیب کے پروردہ مفکر کو تعلیم سے متعلق جن عظیم حقیقتوں کا شعور ہے، اللہ کی کتاب کے نام لیوا مسلمانوں کی بڑی تعداد اس شعور سے عاری ہے۔
تعلیم کے مقاصد اسلام کے نزدیک
اسلام کے نزدیک اس دنیا میں انسان اللہ کاخلیفہ ہے۔(وا ذ قال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ۔ البقرہ)خلیفہ ہونے کی حیثیت سے اس کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ کے دین کو اس زمین میں غالب کرے۔ اللہ کی مرضی کے مطابق ایک نئی تہذیب اور ایک نئے تمدن کی تعمیر کا فریضہ انجام دے ۔ زندگی کے ہر شعبہ کو اللہ کی بغاوت اور نافرمانی کی آلود گیوں سے پاک کرے۔ یہی وہ مقصد ہے جس کے حصول کی خاطر انسان کو اس دنیا میں پیدا کیا گیا ہے۔
تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس نصب العین کے حصول کی خاطر جدوجہد کے لیے تیار ہو۔ یہ نصب العین اتنا ہمہ گیر ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتا ہے۔اس کے حصول کے لیے ہر صلاحیت ، ہر فن اور ہر علم کی ضرورت ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کی مخصوص صلاحیتوں کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ وہ کس شعبہ میں اس نصب العین کی بہتر خدمت انجام دے سکتے ہیں؟ ان کی دلچسپی، افتاد طبع، رجحان کے مطابق ان کی تربیت و رہنمائی ان کے مخصوص شعبوں میں اس طرح کریں کہ وہ ان شعبوں میں اس نصب العین کی اعلیٰ سے اعلیٰ خدمت انجام دینے کے لیے تیار ہوجائیں۔
چونکہ اس نصب العین کا تعلق اس دنیا سے ہے، اس لیے اس کے حصول کے لیے ا ن علوم میں بھی مہارت ضروری ہے جنہیں نہایت غلط طور پر دنیوی علوم کہا جاتا ہے۔اسلام میں علم کی عصری (یا دنیوی) اور دینی خانوں میں کوئی تقسیم نہیں ہے، دین نام ہی دنیا کو اللہ کی مرضی کے مطابق برتنے کا ہے۔ اس لیے دین اور دنیا کی تقسیم ایک نامعقول تقسیم ہے۔ اسلام میں علم کی تقسیم ’’نافع‘‘اور ’’غیر نافع‘‘ علوم میں کی گئی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے غیر نافع علم سے پنا ہ چاہی ہے (و نعوذبک من علم لا ینفع) پس نافع علوم سیکھنے چاہئیں چاہے وہ مدارس میں پڑھائے جائیں یا کالجوں میں ۔ اور غیر نافع علوم سے بچنا چاہیے چاہے وہ یونیورسٹیوں میں پڑھائے جائیں یا مدارس میں۔
یہی وجہ ہے کہ امام غزالی اور امام ابن تیمیہ نے مبینہ’’دنیوی علوم‘‘ کے حصول کو بھی مسلمانوں کے لیے فرض کفایہ قرار دیا ہے۔ اس لیے اگر کوئی انجینئر نگ، میڈیسن، معاشیات ، فلسفہ، سماجیات، وغیرہ علوم کو بھی اس مقصد کے لیے حاصل کررہا ہے کہ ان کے ذریعہ بحیثیت خلیفۃاللہ اپنی ذمہ داریوں کو اداکرے گا، تو اس کی یہ کوشش بھی و یسے ہی عین عبارت ہے جیسے تفسیر ، فقہ اور حدیث کے علم کے حصول کی کوشش۔
یہ بلند نصب العین اس بات کا بھی مطالبہ کرتا ہے کہ ہمارے طالب علم اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ درجہ کا کمال حاصل کریں۔ دنیا کاطئے شدہ اصول ہے کہ غلامی کے لیے اعلیٰ صلاحیتیں درکار نہیں ہوتیں۔نہ بنے بنائے طریقوں کے مطابق مشینی انداز میں کچھ کام کرنے کے لیے اعلیٰ صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ یہ سارے امور متوسط درجہ کی صلاحیتوں سے بھی تکمیل پاجاتے ہیں۔
اعلی صلاحیتوں کی ضرورت قیادت ، رہنمائی اور نئے راستوں کی تلاش و جستجو کے لیے ہوتی ہے۔ کسی مستحکم نظام کو چیلنج کرنے کے لیے اعلیٰ صلاحیت درکار ہوتی ہے۔ کئی علوم کادرک ، درکار ہوتا ہے۔ غیر معمولی تخلیقی صلاحیت ، ایج اور ذہانت درکار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت ساری دنیا سودی معیشت کے سہارے چل رہی ہے۔اس معیشت کے اصول وضوابط متعین ہیں۔ بینک کیسے کام کریں ، اس کا طریقہ کار واضح ہے۔ اس طریقہ کار کا علم حاصل کرکے اور بنے بنائے اصولوں کے مطابق کام کر کے ایک متوسط صلاحیت کا آدمی بغیر کسی تخلیقیت (Creativity) اور ذہانت کے ایک کامیاب بنکربن سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ سود سے پاک معاشی نظام لانا چاہتے ہیں، موجودہ نظام کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں، نئے پیمانے، نئے معیارات اور نئے طریقے تشکیل دینا چاہتے ہیں، تو اس کے لیے غیر معمولی ذہنی قابلیت ، اورتخلیقیت وایج درکار ہوگی۔
اللہ کی مرضی کے مطابق ایک نئے تمدن کی تعمیر، سائنس، ٹکنالوجی، میڈیسن، سماجیات، سیاسیات وغیرہ ہر میدان میں نئے زاویوں اور نئی بنیادوں کا تقاضہ کرتی ہے ۔اس کے لئے مولانا مودودی کے الفاظ میں صرف ’’مقلدوں کاکما ل‘‘ نہیں بلکہ ’’مجتہدوں کا کمال‘‘ درکار ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنے بچوں کو ایک نئے تمدن کی تعمیر کا خواب دکھائیں گی تو اسی تناسب سے ان کی صلاحیتیں بھی نکھریں گی۔ وہ اپنے عہد کے غزالی بن کر ابھریں گے۔ اور اگر محض ایک خوشحال زندگی، ایک پرکشش تنخواہ ، اچھی نوکری اور اچھے کیرئیر کا خواب دکھائیں گی تو اسی تناسب سے وہ اوسط صلاحیت پر قانع ہوجائیں گے۔ بلند مقاصد بلند شخصیتیں پیدا کرتے ہیں اور حقیر مقاصد سے ویسے ہی چھوٹے اور بونے لوگ پیدا ہوتے ہیں، جیسے اس وقت ہمارے چاروں طرف نظر آرہے ہیں۔
مطلوب تعلیمی اسکیم
پہلی ترجیح ۔ مقصد کا شعور
اگر ہم تعلیم کے میدان میں بھی اسلام کی راہ نمائی کو اختیار کرنا چاہتے ہیں تو ہماری پہلی تعلیمی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہمارا بچہ یہ جان لے کہ زندگی میں اس کا مقصد کیا ہے؟ اگر کسی فرد کو یہ معلوم نہ ہو کہ پیڑ کے اندر سبز پتوں کا مقصد کیا ہے تو وہ جاہل سمجھا جاتا ہے۔اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بنیادی حیاتیات بھی نہیں جانتا اور اس کی جنرل نالج بہت کمزور ہے۔لیکن اس سے کہیں زیادہ جاہل وہ شخص ہے جو پیڑ پودوں، بے جان اشیااور اپنے جسم کے ہر عضو اور ہر عمل کے مقصد سے واقف ہو لیکن اسے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ خود کس لیے پیدا ہوا ہے؟ اور زندگی میں اس کا مقصد کیا ہے؟
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
تعلیم کا پہلا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ طالب علم بحیثیت مسلمان، اس دنیا میں اپنے حقیقی رول اور مقصد کو سمجھ لے اور اسے معلوم ہوجائے کہ اس دنیا میں وہ یوں ہی نہیں آیا ہے بلکہ ایک بہت بڑا کام کرنے کے لیے آیا ہے۔ اور وہ کام یہ ہے کہ تمام شیطانی قوتوں کو میدان سے ہٹا کر اسے اللہ کی مرضی کے مطابق ایک نئے تمدن کی تعمیر کرنی ہے۔اور خدا کی خلافت کا فریضہ انجام دینا ہے۔
دوسری ترجیح : اللہ کی مرضی کا علم
اس اسکیم میں تعلیم کی دوسری ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ طالب علم اللہ کی مرضی سے واقف ہوجائے۔ دین کا صحیح فہم اور شعور اسے حاصل ہو۔ یہ کام محض ناظرہ قرآن کی تعلیم سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ماں باپ قرآن وسنت کی مکمل تعلیم کی فکر کریں۔ ایک طرف دین کی بنیادی فہم ،جو تمام پڑھے لکھے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے، اسے بھی حاصل ہو۔ قرآن کا پیغام اور اس کی دعوت اسے معلوم ہو۔ قرآن کیسا انسان بنانا چاہتا ہے اور کیسی دنیا کی تعمیر چاہتا ہے، وہ اسے معلوم ہو۔دوسری طرف جس شعبہ کو اس نے اپنی تعلیم کے لیے منتخب کیا ہے اس شعبہ میں اسلام کی تعلیمات کا گہر ا فہم اور شعور اسے حاصل ہو۔ مثلاً اگر کوئی بچہ ڈاکٹر بن رہا ہے تو طب اور صحت سے متعلق اسلام کی تعلیمات اور اسلام کا فلسفہ اسے معلوم ہو۔ ہمارے اسلاف نے اس موضوع پر جو کچھ کہاہے، اس سے وہ واقف ہو۔ جدید علم طب کے اسلامی نقطہ نظر کے کیا نقائص ہیں انہیں وہ جانے۔اسے معلوم ہو کہ طب کی اسلامی اخلاقیات Islamic Medical Ethics جدید مغربی اخلاقیات سے مختلف ہیں۔ اس فرق کا اسے گہرا شعور ہو۔ مسلمان اہل علم نے دنیا بھر میں جدید میڈیسن پر جو تنقیدیں کی ہیں ان کا اسے اندازہ ہو۔ اور اس کے ذہن میں یہ بات صاف ہو کہ اسلام کس طرح کا نظام صحت چاہتا ہے۔؟
تیسری ترجیح: رجحان کے مطابق تربیت
اس اسکیم کے مطابق تیسری ترجیح یہ ہے کہ ہم اپنے بچہ کو ان مخصوص میدانوں میں آگے بڑھنے کے بھر پور مواقع فراہم کریں جن میں وہ اپنے نصب العین کے حصول کے لیے زیادہ بہتر خدمات انجام دے سکتا ہے۔ اس لیے کہ صلاحیت بھی اللہ کا عطیہ ہے اور س کی نشونما اور صحیح استعمال کے سلسلہ میں ہمیں خداکے سامنے ہمیں جواب دینا ہے۔ اگر ہمارا بچہ ایک اچھا قلم کار بن سکتا تھا اور نیوز ویک اور ٹائمز کی سطح پر بین الاقوامی معیارات کے مطاق اسلام کا صحافتی دفاع کر سکتا تھا لیکن ہم نے محض اپنی خواہش کی خاطر اسے زبردستی ڈاکٹر بنادیا تو شرعاً نہ سہی، عملاً ہمارا جرم اس ظالم حکمراں سے کم تر درجہ کا نہیں ہے جس نے ایک بڑے قلم کار کو پھانسی پر لٹکادیا۔!
بچوں کو ان کی فطری صلاحیت کے مطابق آگے بڑھانے کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے بچہ کی تعلیم کے لیے ایسا اسکول منتخب کریں جہاں بین الاقوامی معیارات کے مطابق، تخلیقیت Creativity اور بچہ کی فطری صلاحیتوں کو اہمیت دی جاتی ہے یعنی جہاں باغبانی کی جاتی ہے۔ ایسے روایتی اسکولوں سے بچیں جہاں ـ’’رٹ‘‘ ’’ہوم ورک‘‘ ’’امتحانات ‘‘ ’’رینک‘‘ جیسے روایتی ہندوستانی طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے کمہار گیری کی جاتی ہے۔
دوسری ضرورت یہ ہے کہ بچہ کو نت نئی چیزیں سیکھنے، تجربات کرنے اوراپنی شخصیت کو پروان چڑھانے کی آزادی دیں۔ چھڑی لے کر دن رات بچوں کے پیچھے لگے رہنے اور اپنی مرضی کے مطابق، انہیں پڑھنے پر مجبور کرنے والے ماں باپ کے گھروں میں بہت کم غیر معمولی صلاحیتں پر وان چڑھ پاتی ہیں۔ ( واضح رہے کہ امتحانات میں نوے پچانوے نمبر لے آنا یا ڈاکٹر انجینئر بن جانا ہمارے نزدیک غیر معمولی صلاحیت کی علامت نہیں ہے۔ بلکہ ہندوستان کے Educational System میں اوسط سے کم صلاحیت کے ساتھ بھی یہ’ کارنامہ‘ انجام دیا جا سکتا ہے) باشعور ماں باپ مشفق راہ نما اور دوست کا رول ادا کرتے ہیں۔ اور اپنی مرضی اور رجحان کے مطابق بچوں کو اپنی صلاحیتیں پروان چڑھانے کا موقع اور آزادی دیتے ہیں۔ وہ انہیں کھیلنے کودنے، جائز مشغلے اختیار کرنے، سماجی (اور اسلامی) سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لینے، ہمہ اقسام کی چیزیں پڑھنے وغیرہ کی بھر پور آزادی دیتے ہیں۔
اس سلسلہ کی تیسری ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اسلامی تنظیموں، ایس آئی او ، جی آئی او وغیرہ سے وابستہ کرائیں۔ جہاں ان کی زندگیوں کے مقاصد بلند ہوتے ہیں۔ بلند مقاصد کے لیے لڑنے اور جدوجہد کرنے کا سلیقہ اور قرینہ آتا ہے۔ نئے تجربات کرنے اور نئے چیلنجز کا سامنا کرنے کا موقع ملتا ہے۔بہت ساری شخصیتوں سے سابقہ ہوتا ہے۔ اور جہاں عملی کاموں کے گوناگوں تقاضے ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرتے اور جلا بخشتے ہیں۔ اور جہاں جدید نظام تعلیم کے کمزور پہلوئوں کا ازالہ ہوتا ہے۔
چوتھی ترجیح :اعلیٰ قابلیتوں کا حصول
اس اسکیم میں تعلیم کی چوتھی ترجیح اپنے متعلقہ میدانوں میں اعلیٰ درجہ کی مہارت کا حصول ہے۔ اگر ماں باپ نے اسکیم کی پہلی دو ترجیحات پر توجہ دی یعنی مقاصد کو بلند کردیا، دنیا میں مطلوب رول واضح کر دیا اور رجحان اور طبع کے مطابق صحیح میدان فراہم کردیا تو اس تیسری ترجیح پر کام خود بخود ہوجاتا ہے۔ یعنی بلند مقصد خود آپ کے بچہ کو مہارت اور اعلیٰ قابلیت کی تحریک فراہم کرتا ہے۔ ماں باپ کا کام صرف یہ ہے کہ وہ متعلقہ میدان کے اچھے سے اچھے تعلیمی ادارہ تک پہنچنے میں مدد دیں، اچھی کتب اور رسائل فراہم کریں اور وقتاً فوقتاً ترغیب (Motivation) دلاتے رہیں۔
اس اسکیم کے مطابق اگر ہم اپنے بچوں کی تعلیم کی فکر کریں تو امید ہے کہ ہمارا مستقبل بھی ویسا ہی تابناک اور روشن ہوگا جیسا ہمارا ماضی تھا۔
اس مضمون میں ہم نے اس موضوع کے فکری اور نظری پہلوئوں سے تعارض کیاہے۔ اس کے عملی پہلوئوں پر آئندہ کبھی گفت گو ہوگی۔ انشاء اللہ ۔