اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسانوں کے مختلف اقسام کے دلوں کاذکر مثالوں کے ذریعے فرمایا ہے۔ ظاہری اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے تمام انسانوںکے دل کی شکل ایک جیسی ہے۔ اور دل کا کام بھی تمام انسانوں میں ایک طرح کا ہے۔ لیکن کیفیات، جذبات اور احساسات کے اعتبار سے انسانوں کے دل الگ الگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ کس طرح کے دل اللہ کو مطلوب ہیں اور کون سے ناپسند؟
ناپسندیدہ دل
(۱) سخت دل: یہ ایسے اشخاص کے دل ہیں کہ ان کے سامنے خواہ کتنا ہی عبرت انگیز واقعہ کیوں نہ ہوجائے وہ بے حسی اور سختی کے سبب اس کا اثر نہیں لیتے اور ان میں رحم کا کوئی جذبہ ہی نہیں ہوتا۔ جیسے کفار قریش یا اہل طائف آپؐ پر ظلم کرتے تھے۔ اور چونکہ دل سخت تھے اس لیے ان کے دلوں میں الفت و محبت کی کوئی رمق نہ تھی۔’’ ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کار تمہارے دل سخت ہوگئے۔ پتھروں کی طرح سخت بلکہ سختی میں کچھ ان سے بڑھے ہوئے۔ کیونکہ پتھروں میں کوئی تو ایسا ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔ کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے۔ اور کوئی خوفِ خدا سے لرز کر گربھی پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے۔‘‘ (البقرۃ:۷۴)
(۲) زنگ آلود دل:دلوں کو بھی اس طرح زنگ لگ جاتا ہے جس طرح پانی سے لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے۔ کہا گیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! دلوں کے زنگ کو دور کرنے والی شئے کیا ہے؟ فرمایا: موت کو زیادہ سے زیادہ یاد کرنا اور قرآن کوپڑھنا۔‘‘ (بیہقی)
جو لوگ گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ان کا زنگ ان کے دلوں پر پوری طرح چڑھ جاتا ہے ’’بلکہ دراصل ان لوگوں کے دلوںپر ان کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا۔‘‘ (المطففین:۱۴)
(۳) گناہ آلود دل:’’اور شہادت کو ہرگز نہ چھپاؤ، جو شہادت کو چھپاتا ہے اس کا دل گناہ آلود ہے۔ اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔‘‘ (البقرۃ: ۲۸۳)
چونکہ آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس شخص کا دل گناہ آلود ہے جو شہادت کو چھپاتا ہے۔ لہٰذا جو لوگ شہادت کو چھپاتے ہیں اور حق بات کہنے سے گریز کرتے ہیں سمجھ لو کہ ان کے دل گناہ آلود ہوتے ہیں۔‘‘
(۴) ٹیڑھے دل:’’جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے رہتے ہیں اور ان کو معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالاں کہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘ (آل عمران: ۷)
(۵) نہ سوچنے والے دل:’’اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہے مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوئے ہیں۔‘‘ (الاعراف: ۱۷۹)
یعنی اللہ تعالیٰ نے تو انہیں دل و دماغ، آنکھیں اور کان عطا فرمائے لیکن ان ظالموں نے ان سے کوئی کام نہ لیا اور انہی غلط کاریوں کی بدولت آخر کار جہنم میں جگہ پائی۔
(۶) ٹھپہ لگے ہوئے دل:اللہ تعالیٰ نے صالحؑ کو ان کی قوم کی طرف بھیجا لیکن ان کی قوم، صالحؑ کے خلاف حد سے گزرگئی اور ہدایت نہ پاسکی اللہ تعالیٰ نے اسی لیے فرمایا کہ: ’’اس طرح ہم حد سے گزر جانے والوں کے دلوں پر ٹھپہ لگادیتے ہیں۔‘‘ (یونس: ۷۴)
(۷) مجرم دل:جن دلوں میں اللہ کا ذکر قلب کی ٹھنڈک اور روح کی غذا بن کر اترا ہے وہ اہلِ ایمان کے دل ہیں۔ مگر ان کے دلوں میں یہ شتابہ بن کر گرے گا اور وہ اسے سن کر ان کے آگ بھڑک اٹھے گویا کہ ایک گرم سلاخ تھی کہ سینوں کے پار ہوگئی۔ وہ مجرمین کے دل ہیں۔ ’’مجرمین کے دلوں میں تو ہم اس ذکر کو اس طرح سلاخ کی مانند گزارتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان نہیں لایا کرتے۔‘‘ (الفجر ۱۲-۱۳)
(۸) اندھے دل:جو عبرت حاصل نہ کرے اس کا دل اندھا ہوتا ہے۔ ’’کتنی ہی خطا کار بستیاں ہیں جن کو ہم نے تباہ کیا ہے اور آج وہ اپنی چھتوں پر الٹی پڑی ہیں۔ کتنے ہی کنویں بے کار اور قصر کھنڈر بنے ہوئے ہیں۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ آنکھ اندھی نہیں ہوتی بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔
(۹) متکبر دل: اللہ ہی متکبر اور جبار کے دل پر ٹھپہ لگا دیتا ہے۔
’’اس طرح ان سب لوگوں کو گمراہی میں ڈال دیتا ہے۔ جو حد سے گزرنے والے اور شکی ہوتے ہیں۔ اور اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی سند یا دلیل آئی ہو۔ یہ رویہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے نزدیک سخت مبغوض ہے۔ اس طرح اللہ ہر متکبر اور جبار کے دل پر ٹھپہ لگا دیتا ہے۔‘‘ (المؤمن :۳۴-۳۵)
پسندیدہ اور مطلوب دل
(۱) دانش مند دل:جن لوگوں نے بھلائی کا راستہ اختیار کیا ہو، جو صراطِ مستقیم پر چلنے کے خواہش مند ہوں اور جنھیں دل کی کجی کا خوف ہو، ایسے لوگ دانش مند ہیں۔ دانش مند لوگ اللہ سے دعا کرتے ہیں:
’’پروردگار عالم! جب کہ تو ہمیں سیدھے راستے پر لگا چکا ہے، تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کردینا۔ ہمیں اپنے خزانۂ فیض سے رحمت عطا کر کہ تو ہی فیاضِ حقیقی ہے۔‘‘ (آل عمران:۸)
(۲) لرز اٹھنے والے دل:جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور اس کے رسول کی پیروی کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر سن کر جن کے دل لرز اٹھتے ہیں، وہ سچے پکے مومن ہیں۔
’’سچے اہل ایمان وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔‘‘ (الانفال:۲)
(۳) مطمئن دل:اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والا ہی دل مطمئن ہوتا ہے۔
’’خبردار رہو، اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے، جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔‘‘ (الرعد:۲۸)
(۴) کانپ اٹھنے والے دل:اللہ کا ذکر سن کر جس کا دل کانپ اٹھے وہ مومن ہے۔
’’اور اے نبیؐ! بشارت دے دیجیے عاجزانہ روش اختیار کرنے والوں کو جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سنتے ہی ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں جو مصیبت ان پر آتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (الحج: ۳۴-۳۵)
(۵) قلب سلیم:حشر کے دن صرف قلب سلیم فائدہ دے گا۔
’’اس دن جب کہ نہ کوئی مال فائدہ دے گا نہ اولاد، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو۔‘‘ (الشعراء: ۸۸-۸۹)
(۶) ایمان والے دل:جن لوگوں کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلتے ہیں وہ ایمان والے ہیں۔
’’کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے سامنے جھکیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائے، جنھیں پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ایک لمبی مدت ان پر گزر گئی، تو ان کے دل سخت ہوگئے۔ اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں۔‘‘ (الحدید: ۱۶)