ایثار فیاضی اور احسان کے بلند ترین درجے کو کہتے ہیں۔ جسے ہم قربانی کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اپنی ذاتی ضروریات پر دوسروں کی ضرورتوں کو ترجیح دی جائے۔ مثلاً: خود بھوکا رہے اور دوسروں کو کھلائے۔ خود تکلیف اٹھائے اور دوسروں کو آرام پہنچائے۔ قرآن کریم کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایثار پسند لوگوں کی توصیف میں فرمایا: ’’یہ اللہ کے ایسے محبوب بندے ہیں جو دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان پر فاقہ ہی ہو۔ یہ لوگ محض محبتِ الٰہی کی بنا پر غریب، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (الحشر والدہر)۔ اس نے محبوب بندوں کے ایثار کو یہ بلند مقام دیا کہ انہیں کسی غریب، یتیم اور قیدی سے اپنی ذاتی امداد کی توقع نہیں ہوتی لیکن رضائے الٰہی کے لیے ایثار سے کام لیتے ہیں۔
جب کوئی ایثار کرتا ہے تو رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق اللہ اسے برکت عنایت فرماتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ ایثار و رواداری کے پیکر تھے۔ آپؐ نے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا بلکہ ہمیشہ دشمنوں کو بھی معاف کیا۔ سفر طائف سے واپسی پر حضرت زید بن حارثؓ کی درخواست پر بھی آپؐ نے اہلِ طائف کے لیے بدعا نہ فرمائی۔
ایک صحابیؓ نے شادی کی۔ ولیمہ کے لیے ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ حضورﷺ نے ان سے فرمایا: عائشہؓ کے پاس جاؤ اور آٹے کی ٹوکری لے آؤ۔ وہ صحابی گئے اور ٹوکری لے آئے حالانکہ حضورؐ کے گھر اس کے سوا شام کے کھانے کو کچھ نہ تھا۔ ایک دفعہ ایک غفاری آپؐ کے ہاں مہمان ہوا۔ گھر میں صرف بکری کا دودھ تھا وہ آپؐ نے اس کو پلا دیا۔ ایک مرتبہ ایک مسلمان خاتون نے اپنے ہاتھ سے ایک چادر بن کر آنحضرتؐ کی خدمت میں پیش کی۔ آپؐ نے اس تحفے کو قبول کرلیا۔ ایک غریب مسلمان نے اسی وقت وہ چادر آپؐ سے مانگ لی۔ آپؐ نے فوراً ہی اس کے حوالے کردی۔ صحابہ کرامؓ نے اسے سخت سست کہا کہ تم جانتے تھے رسول اللہ ﷺ کو اس کی ضرورت تھی اور آپ کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔ تم نے کیوں مانگ لی؟ اس نے کہا: ’’نبی کریمﷺ کے زیب تن فرمانے کے بعد میں نے برکت کے لیے لی ہے۔‘‘
جب مکہ کے مسلمان، بے سروسامان مدینہ ہجرت کرکے پہنچے تو حضورﷺ کی تعلیمات کے زیر اثر انصار مدینہ نے ’’ایثار‘‘ کی ایسی مثال قائم کی کہ تاریخ کے اوراق دوسری مثال دینے سے قاصر ہیں۔ انھوں نے زیادہ خوشحال نہ ہوتے ہوئے مواخاۃ کے ذریعے جو مہاجر ان کا بھائی قرار پایا اسے حقیقی بھائی کی طرح بلکہ اس سے زیادہ اپنا حصہ دار بنالیا۔ انھوں نے اپنے مکانات، باغات اور کھیت آدھا آدھا بانٹ کر برضا و رغبت اپنے دینی بھائیوں کو دیے یعنی جس قدر ملکیت تھی اس میں برابر کا شریک کیا۔
انصار کا یہ ایثار دراصل اس تاثیر کا نتیجہ تھا جو دعوتِ اسلامی اور خلق محمدیؐ نے ان کے اندر پیدا کی تھی۔ اسی طرح جب بنی نصیر یہود کی زمین مسلمانوں کے قبضے میں آئی تو حضورؐ نے دو انصاریوں کے علاوہ باقی زمین مہاجرین کو عنایت فرمادی لیکن انصار نے خوش دلی سے اسے قبول کیا اور کسی طرح کی شکایت نہ زبان سے کی اور نہ دل میں اسے حق تلفی سمجھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ایثار کو اس درجہ پسند فرمایا کہ قرآنی آیات میں ان کے لیے رضا اور خوشنودی کی خبر دی اور اس رویہ کی تعریف فرمائی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور ان لوگوں کے لیے جو مہاجرین سے پہلے ہجرت کے گھر (مدینہ) میں مقیم اور ایمان میں (مستقل) رہے اور جو لوگ ہجرت کرکے ان کے پاس آتے ہیں۔ ان سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو ملا اس سے اپنے دل میں کچھ خواہش اور خلش نہیں پاتے اور ان کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو اور جو شخص حرص نفس سے بچالیا گیا توایسے لوگ ہی مراد پانے والے ہیں۔‘‘
مسلمانوں نے اپنی ذاتی ضرورت پسِ پشت ڈال کر دوسروں کی ضرورتوں کے لیے ایثار سے کام لیا اور انہیں کبھی رنج نہ ہوا بلکہ اللہ کی رضا جوئی کے لیے برضا و رغبت انھوں نے قربانیاں دیں۔