اونٹن قصبے کے نزدیک ڈوڈاؤفاریسٹ میں درخت کاٹ کر بنائے گئے گول قلعے کے وسط میں شاہ بلوط کا ایک بہت پرانا دیو ہیکل درخت ہے۔ ڈاکیہ روزانہ یہاں آکر چند خطوط، جن پر ’’دولہا کا شجر شاہ بلوط ڈوڈاؤ فاریسٹ ، ۲۴۲۰ اونٹن وفاقی جمہوریہ جرمنی‘‘ کا عجیب و غریب پتہ درج ہوتا ہے۔ سیڑھی پر چڑھ کر، درخت کے اند رایک کھوہ میں رکھ دیتا ہے۔
دولہا کا یہ شاہ بلوط ایسی ڈاک وصول کرتا ہے جس میں تنہا لوگ اپنے لیے جیون ساتھی کی خواہش کرتے ہیں۔ ڈاکیے کا کہنا ہے کہ عام طور پرعورتیں اس طریقے سے دوست تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔اکثر اوقات ان خطوط سے دلچسپی رکھنے والی پارٹیوں سے اس کی ملاقات بھی ہوجاتی ہے۔ جو شاہ بلوط کے قریب اس کی منتظر ہوتی ہیں۔ اگر کسی وقت جنگل کا یہ قطعہ خالی نظر آئے، تو زیادہ دیر نہیں گزرتی کہ سائیکل پرکوئی لڑکی یہاں چلی آتی ہے یا نوجوان لڑکوں کا کوئی گروہ یہ معلوم کرنے آپہنچتا ہے کہ درخت کے پوسٹ بکس میں کیا ہے۔ کوئی بھی آدمی یہ خطوط کھول کر پڑھ سکتا ہے۔ اگر ان میں اسے اپنی پسند کا کوئی خط نہ ملے، تو وہ یہ خطوط واپس کھوہ میں رکھ دیتا ہے۔ ۱۸۹۱ء سے یہی دستور چلا آرہا ہے۔
میلنٹی کے محافظِ جنگلات کی بیٹی ’’والٹراؤف اورتھ‘‘ پہلی لڑکی تھی جس نے شاہ بلوط کے اس درخت کو پہلی بار اپنی محبوب ’’کارل شیوٹے فیلشے‘‘ کے خطوط چھپانے کے لیے استعمال کیا۔ والٹراؤف کے سخت گیر باپ کو اس واقعے کا علم ہوا، تو اس نے محبت کرنے والے اس نوجوان جوڑے کو شادی کی اجازت دے دی۔ شادی کی یہ تقریب ۲؍جون ۱۸۹۱ء کو اسی شاہ بلوط کے نیچے منائی گئی۔ اب ساری دنیا سے لاتعداد خطوط یہاں آتے ہیں جن پر بھیجنے والوں کے مکمل پتے درج ہوتے ہیں۔
شاہ بلوط کے درخت نے ۶۰ سالہ تاجر ہیلموٹ ریٹ اور اس کی برگٹی کو ملایا۔ ۱۹۳۸ء میں ۱۶ سالہ برگٹی اسکول کی طرف سے ایک دورے پر تھی کہ اس نے ایک نوٹ لکھ کر درخت کے پوسٹ بکس میں ڈال دیا۔ ’’میں کوہِ ہارزمیں بینکن کی رہنے والی ایک لڑکی ہوں اور کسی نوجوان آدمی سے دوستی کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ یہ اس کے لیے ایک مذاق تھا۔ لیکن ہیلموٹ، جو اپنے چچا سے ملاقات کے لیے جاتے ہوئے شاہ بلوط کے قریب سے گزرا، ایک سنجیدہ مقصد رکھتا تھا۔ اس نے پوسٹ بکس سے نکال کر یہ نوٹ پڑھا اور اس لڑکی سے قلمی دوستی کرلی۔ پانچ برس بعد دونوں کی شادی ہوگئی۔
محبت کے اس درخت سے بڑی عجیب وغریب اور دلچسپ کہانیاں منسوب ہیں۔ ان میں ایک انوکھی کہانی کچھ یوں ہے کہ جب ’’کولون‘‘ کے ایک امیر تاجر کی بیوی کے ہاں عرصے تک کوئی بچہ پیدا نہ ہوا، تو محافظِ جنگلات نے اسے چاند کی چودہویں رات مکمل خاموشی اور انہماک سے شاہ بلوط کے اس درخت کے گرد تین چکر لگانے کی ہدایت کی۔ چکرلگانے کے ایک سال بعد اس کے ہاں ایک خوبرو لڑکا پیدا ہوا۔
چھ سو برس پرانے اس درخت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کسی نواب کے لڑکے کو اس کے دشمنوں نے رسیوں میں جکڑ کر جنگل میں پھینک دیا۔ ایک دوشیزہ نے اسے دیکھ لیا اور رسیاں کھول کر آزاد کردیا۔ یوں وہ نوجوان بے بسی کی موت مرنے سے محفوظ رہا۔ اس نے اس لڑکی سے شادی کرلی اور اس واقعے کی یاد میں وہاں شاہِ بلوط کا درخت لگایا، جسے ’’دولہا کا شجرِ شاہِ بلوط‘‘ یا ’’محبت کا درخت‘‘ کہا جاتا ہے۔ (ماخوذ اردو ڈائجسٹ)