بچوں کی پرورش میں ذرا سی کوتاہی اور لاپرواہی ان کے مستقبل کو تاریک اور بچوں کے مستقبل کو تباہ و برباد کرسکتی ہے۔ اس لیے بچوں کی پرورش کے دوران والدین کو ہمیشہ حساس رہنا چاہیے اور ایسا کوئی رویہ نہیں اپنانا چاہیے جو ان کے معصوم ذہن کو الجھا کر ان کی شخصیت کی تعمیر میں منفی کردار ادا کرے۔ اس کے لیے سب سے اہم اور کلیدی بات یہ ہے کہ والدین خود اپنے بچے کی تربیت میں متوازن طرزِ عمل اختیار کریں۔ بچوں کو بات بات پر ٹوکنا، بہت زیادہ سختی یا کھلی چھوٹ دے دینا، اسی طرح بگڑنے کے ڈر سے انہیں گھر میں قید رکھنا یا اس کے برعکس انہیں ہر قسم کے دوستوں اور ہم عمروں کے ساتھ رہنے کی کھلی چھوٹ دینا وغیرہ بھی کسی طرح مناسب تصور نہیں کیا جاسکتا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اپنے جگر گوشوں کی متوازن شخصیت کی تعمیر کے لیے ہم کن باتوں کو پیشِ نظر رکھیں۔
بعض والدین ہر بات پر بچوں سے سختی سے پیش آتے ہیں اور انہیں ہر بات پر روکتے ٹوکتے رہتے ہیں۔ ایسے والدین یہ خیال کرتے ہیں کہ بچے کو سختی سے روکنا یا سمجھانا ہی بہتر ہے۔ یہ بات سراسر غلط ہے کیونکہ بات بات پر بچوں کو روکنا ٹوکنا نہ صرف انہیں چڑچڑا اور بدمزاج بناتا ہے بلکہ ان کے مستقبل کے لیے بھی بہت سے خدشات پیدا کردیتا ہے۔ ایسے والدین جو اپنے بچوں پر بلاوجہ یا ہمیشہ سختی ہی کرتے ہیں، ان کے بچے بڑے ہونے کے بعد احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے بچوں میں خود اعتمادی کی کمی ہوجاتی ہے۔انہیں ہر لمحے یہی لگتا ہے کہ وہ جو کریں گے غلط ہوگا۔ اس لیے ایسے بچے بڑے ہوکر بھی فیصلہ کرنے کی سکت کھودیتے ہیں۔ ان کی بے اعتمادی اور فیصلہ کرنے کی قوت کا فقدان انہیں ترقی کرنے سے روکتا ہے۔ جبکہ ایسے بچے جن کے والدین اپنے بچوں کو ان کے چھوٹے چھوٹے مشاغل میں نہ صرف مدد فراہم کرتے ہیں بلکہ انہیں سراہتے بھی ہیں، وہ بچے معاشرے میں ایک فعال کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اس ہر وقت کی سختی کا ایک اور منفی اثر بچے کی شخصیت پر یہ ہوسکتا ہے کہ وہ والدین کے اس طرزِ عمل کے نتیجے میں محبت کے بجائے ان سے نفرت کرنا سیکھ لے اور نفرت کے جذبات پروان چڑھنے کے نتیجے میں بغاوت اور سرکشی کا رجحان پرورش پاسکتا ہے جو اسے ضدی اور ہٹ دھرم بنا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب والدین لاچار ہوجاتے ہیں اور ان کا بچے پر کوئی اثر باقی نہیں رہتا اور یہ بڑی خطرناک بات ہوتی ہے۔ بچوں کے ساتھ معاملات میں والدین کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ یہ کوشش کریں کہ بچہ آپ سے اپنی ہر بات شیئر کرے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ اپنے بچوں کے بہترین دوست ہوں۔ اگر آپ اپنے بچوں کے دوست نہ بن سکے تو پھر وہ اپنی باتوں کو شیئر کرنے کے لیے ادھر ادھر دوست تلاش کریں گے۔ اس طرح وہ کئی مسائل کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ ماں باپ سے بڑھ کر بچوں کے لیے کوئی رشتہ مخلص نہیں ہوتا۔ اس لیے اپنے اس رشتے کو انمول بنانے کے لیے اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنائیے۔ ایسا دوستانہ رویہ کہ وہ ہر قسم کی بات آپ سے بلا جھجھک کہہ دے اس طرح آپ اچھائیوں کے فروغ اور انہیں غلط اور مضر باتوں سے روکنے کے قابل رہیں گے اور بچہ بھی آپ سے محبت اور خلوص کے سبب آپ کی باتوں میں اپنی خیر اور فلاح تصور کرے گا۔ نیز اپنے بچوں کو اس بات کا بھر پور احساس دلائیے کہ آپ ان سے بہت پیار کرتے ہیں اور ان کی خواہشات کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کی تکمیل کریں گے تو انھیں بڑی خوشی ملے گی۔ لیکن بعض اوقات ایسا ممکن نہیں ہوپاتا تو ایسے میں آپ یا تو اسے سمجھا بجھا کر مطمئن کرسکتے ہیں یا کوئی دوسرا متبادل اسے پیش کرکے خوش بھی کرسکتے ہیں اور اس کی خواہش کی تکمیل بھی کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر بچہ آپ سے خواہش کررہا ہے کہ آپ اسے باہر لے کر جائیں مگر آپ اس پوزیشن میں نہیںہیں تو ایسے میں اسے گھر پر کسی ایسی سرگرمی میں مصروف کردیں کہ وہ باہر جانے کی ضد چھوڑ دے۔ جیسے اس کے ساتھ مل کر کوئی گیم کھیلنا یا کلرنگ کرنا وغیرہ۔ یہ بات درست ہے کہ بعض اوقات بچوں کے ساتھ بچہ بننا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بچے کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے خود کو اس کی جگہ پر رکھ کر سوچیں۔ اس سے آپ اس کی ضروریات کو بہتر طور سے محسوس کرسکیں گے اور آپ کا تعلق آپ کے بچوں کے ساتھ مضبوط ہوتا جائے گا۔ اور آپ کا بچہ کسی بھی قسم کے منفی جذبات کا شکار ہوئے بغیر اپنی سوچ کو دوسرے مثبت اور تعمیری راستے پر لگا سکے گا جو یقینا اس کی اچھی شخصیت کی تشکیل میں معاون ہوگا۔
بعض والدین اپنے بچوں کا بہت زیادہ بلکہ حد سے زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ اور اس کی وجہ سے موہوم خطرات اور اندیشے بھی ہوتے ہیں اور غیر ضروری عدمِ تحفظ کا احساس بھی۔ یقینا بچوں کا خیال رکھنا ضروری بھی ہے اور والدین کا بنیادی فرض بھی۔لیکن کبھی کبھی زیادہ خیال رکھنا بھی بچوں کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ بہت سے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے گھر سے باہر نہ نکلیں اور اسکول سے آنے کے بعد گھر میں ہی پڑھیں یا کھیلیں۔ ایسے والدین بچوں کو باہر نکلنے اور نئے دوست بنانے سے بھی روکتے ہیں۔اگرچہ والدین ایسا ان سے محبت ہی کے سبب کرتے ہیں مگر ان کا یہ طرزِ عمل ان کی شخصیت میں ایک خلا پیدا کردیتا ہے۔ اور یہ خلا ایسا خلا ہے جسے کسی صورت پُر نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ ضروری ہے کہ والدین بچوں کو گھر سے نکلنے اور اچھے دوستوں کی صحبت میں وقت گزارنے کا مناسب موقع ضرور دیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بچے دوستی کے مطلب اور اس کے تقاضوں سے واقف نہیں ہوتے تو انہیں اچھے دوست بھی میسر نہیں آتے۔ مائیں بچوں کو بگڑنے کے ڈر سے انہیں باہر نکلنے نہیں دیتیں اور اس کا بچوں پر نقصان دہ اثر ہوتا ہے۔ والدین بچوں کو جتنا وقت بھی دیں انہیں اپنے ہم عمر دوستوں کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ والدین بچوں کے جتنے بھی قریب کیوں نہ ہوں بچہ کبھی بھی ان کے سامنے اس بے تکلفی سے بات نہیں کرسکتا جتنا وہ اپنے دوستوں میں کرتا ہے۔ خاص طور پر دوستوں میں گھلنے ملنے سے انہیں لوگوں کا مزاج اور ان کی عادات سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور یہ چیز زندگی بھر ان کے کام آتی ہے۔ بلکہ عملی زندگی میں وہی بچے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جنھیں دوست بنانے اور دوستوں کو پرکھنے کا ہنر آتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جو بچہ اپنے والدین سے سیکھتا ہے اور فخر سے اپنے دوستوں کو بتانا چاہتا ہے۔ اگر ایسے بچے کا کوئی دوست نہ ہو تو یہ صورتحال اس کے لیے بے چینی کا باعث بنتی ہے اور وہ اپنی زندگی میں ایک خلا محسوس کرتا ہے۔ بچے اسکول کی باتیں گھر آکر والدین کو سناتے ہیں ایسے ہی گھر کی کچھ دلچسپ باتیں بھی دوستوں کو بتانا چاہتے ہیں۔ اگر انہیں کوئی تحفہ ملے تو وہ اسے سب سے پہلے اپنے دوستوں کو دکھانا چاہیں گے یا گھر میں کوئی خوشی کا واقعہ ہو تو بھی دوستوں کو اس خوشی کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں۔
ماہرین کے نزدیک چھوٹی چھوٹی باتیں بچوں کے اعتماد اور مزاج میں مثبت تبدیلیاں لاتی ہیں اور بچوں کو ان سے نہیں روکنا چاہیے۔ اس کے علاوہ بچے اپنے ہم عمروں میں کھیلتے اور پڑھتے ہوئے زیادہ اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں اور مل بیٹھ کر پڑھنے سے نہ صرف ان کی کارکردگی اچھی ہوتی ہے بلکہ مقابلے کی فضا پیدا ہونے سے ان میں زیادہ محنت کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو بچے ہر وقت گھر میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں وہ تعلیمی طور پر تو بہت اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں لیکن زندگی کے دیگر شعبوں میں کم اعتماد اور کمزور ثابت ہوتے ہیں۔ یہ پابندیاں ان کے مزاج کا حصہ بن جاتی ہیں اور عمر بھی مردم بیزاری یا کم اعتمادی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اس لیے بچوں پر کچھ معاملات میں پابندیاں ضرور ہونی چاہئیں لیکن انہیں دوست بنانے اور گھلنے ملنے سے نہیں روکنا چاہیے۔ البتہ ایک اہم اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ والدین کو جہاں اپنے بچے پر نظر رکھنی چاہیے وہیں اس بات پر کڑی نگاہ رکھنی چاہیے کہ وہ کن بچوں اور کس طرح کے ساتھیوں کے ساتھ رہتا اور کھیلتا ہے۔ اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ اس کی صحبت میں کوئی غلط قسم کا بچہ بھی ہے یا وہ کسی غلط کردار کے بچے سے گہرے تعلقات رکھتا ہے تو یقینا بری صحبت کے برے اثرات اور خطروں سے اسے واقف کرانا چاہیے۔ اسی طرح والدین کو اس بات پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ ان کا بچہ باہر سے کیا کیا چیزیں سیکھ رہا ہے۔ اگر والدین یہ محسوس کریں کہ ان کے بچے نے باہر کی صحبت سے کوئی غلط بات یا غلط حرکت سیکھ لی ہے تو فوراً اسے درست کردیا جائے اور اس حرکت یا بات کی برائی کو اس پر واضح کرتے ہوئے آگاہ کردیا جائے کہ آئندہ وہ ایسی غلط باتیں نہ سیکھے اور ایسے لوگوں کے ساتھ نہ رہے جو اس قسم کی غلط باتیں کرتے ہوں۔