آپ تصور میں ایک ایسی قاب لائیے جس میں بھاپ دیتی ہوئی مزے دار بریانی ہے۔ اب آپ بتائیے کہ کیا آپ چاولوں کو دیکھ رہے ہیں؟ کیا آپ کی ناک تک ان کی خوشبو پہنچ رہی ہے؟ کیا آپ کی زبان پر لذیذ چاولوں کا ذائقہ دوڑنے لگا ہے؟ ان سوالات کے جواب آپ یقینا ’’ہاں‘‘ میں دیں گے حالانکہ حقیقت میں چاولوں سے بھری قاب کا وجود ہی نہیں۔
ایسا اس لیے ہوا کہ جب بھی ہم بریانی کا تصور کرتے ہیں تو ہمارے دماغ میں موجود ماضی کے ذخیرے سے وہ مخصوص برقی کیمیائی لہریں اچھل اچھل کر سامنے آنے لگتی ہیں جن کاتعلق بریانی کھانے کے کسی پرانے واقعے سے ہوتا ہے۔ مثلاً وہ لمحات سامنے آتے ہیں، جب آپ نے گھر میں اہل خانہ کے ساتھ ہنستے بولتے چاول کھائے یا جب کسی ہوٹل میں آپ کے سامنے بریانی کی پلیٹ آئی تو آپ کے منہ میں پانی بھر گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان کے دماغ میں ماضی کی چھوٹی سے چھوٹی باتیں بھی محفوظ رہتی ہیں۔ اسی لیے جب آپ نے چاولوں سے بھری قاب کا تصور کیا تو سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں دماغ نے ماضی کی ان یادوں کی ایک مکمل تصویر پیش کردی جب آپ چاولوں کے ذائقے سے لطف اندوز ہوئے تھے۔
دماغ میں لاکھوں چھوٹی بڑی یادوں کو منظم طریقے سے محفوظ کرنے کا یہ چھوٹا سا مظاہرہ دراصل انسانی جسم کے ان بیسیوں عجائبات کا حصہ ہے جنہیں ہم روز مرہ کی زندگی میں نظر انداز کردیتے ہیں۔ ان پر نظر ڈالیے، آپ خدائے برتر کی نیرنگیاں دیکھ کر حیرت زدہ رہ جائیں گے۔
دماغ کے کرشمے
جدید سائنسی تحقیق کے مطابق ہمارے دماغ میں ایک سیکنڈ کے اندر ایک لاکھ کیمیاوی ردعمل جنم لیتے ہیں اور ان کے لیے بے پناہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک صحت مند دماغ میں موجود ہوتی ہے۔ تحقیق سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ جب ہم توجہ کے ساتھ کوئی دماغی کام کرتے ہیں توہمارا جسم اتنے ہی حرارے خرچ کرتا ہے جتنے وہ سخت ورزش کے دوران استعمال میں لاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان ذہنی کام کرنے کے بعد بھی جسمانی محنت ہی کی طرح تھکن محسوس کرتا ہے۔
حساس ناک
ہماری ناک کے اندر ایک بلغمی جھلی موجود ہے، یہ انسانی جسم میں وہ پہلی دفاعی چوکی ہے جو ہمیں ان لاکھوں جراثیم سے محفوظ رکھتی ہے جو چوبیس گھنٹے ہمارے جسم پر یلغار کیے رکھتے ہیں۔ جو جراثیم اس بلغمی جھلی کے طاقتور کیمیاوی عناصر سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائیں وہ معدے میں پہنچ کر وہاں موجود تیزاب کے ذریعے ختم یا خارج ہوجاتے ہیں۔ ہے نہ دلچسپ بات!
پھول، تنکا یا کوئی اور چیز ناک کی حساس بلغمی جھلی سے مس کرتی ہے تو ردعمل میں ایسے کیمیاوی مرکبات پیدا ہوتے ہیں جو ناک میں جھرجھری دوڑادیتے ہیں اور یوں چھینک وجود میں آتی ہے۔ واضح رہے کہ چھینک سے پیدا ہونے والی ہوا سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے باریک ذرات کا انبار خارج کرتی ہے۔ ناک کے درمیانی حصے میں خون کی ایسی نالیاں موجود ہیں جو دو تین گھنٹے بعد اپنی جسامت تبدیل کرتی رہتی ہیں، یوں ناک میں پائے جانے والے راستوں میں کوئی نہ کوئی راستہ دوسروں کی بہ نسبت زیادہ کشادہ رہتا ہے اور ہمیں سانس لینے میں آسانی رہتی ہے۔
زندگی بخش آنکھ
۱۹۷۷ء کی بات ہے، جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں ڈاکٹر یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک بچے کی دائیں آنکھ میں سفید موتیے کے ایک بیج سے پودا پھوٹ پڑا ہے۔ وہ بیج کھیل کے دوران اس کی آنکھ میں چلا گیا تھا۔ (بعدمیں ڈاکٹروں نے آپریشن کے ذریعے اس بیج کو باہر نکال دیا اور بچے کی آنکھ بھی صحت مند ہوگئی) اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی آنکھ میں وہ تمام لوازم یعنی حرارت، آکسیجن، سورج کی روشنی سے بچاؤ اور پانی موجود ہیں جو ایک بیج کی نشو ونما کے لیے ضروری ہیں۔
آنکھوں سے نکلنے والے آنسو بجائے خود ایک عجوبہ ہیں۔ جب ہم اپنی آنکھیں جھپکاتے ہیں تو وہ اپنے اس جراثیم کش سیال سے دھل جاتی ہیں جو آنسو بنانے والے غدود میں بنتا ہے۔
جدید تحقیق سے یہ حیرت انگیز بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ پریشانی کی حالت میں جو آنسو آنکھوں سے نکلیں وہ اداسی یا افسوس کے عالم میں نکلنے والے آنسوؤں سے مختلف ہوتے ہیں۔پریشانی کے عالم میں جنم لینے والے آنسوؤں میں پرولیکٹن کی مقدار چوبیس فیصد زیادہ ہوتی ہے۔ آنسوؤں کی دونوں اقسام میں پرولیکٹن ہوتا ہے۔ یہ وہ ہارمون ہے جو دودھ کی افزائش میں بھی کام آتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مردوں کی نسبت خواتین زیادہ روتی ہیں۔
زندہ اور تابندہ جلد
آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ انسانی جلد کے صرف ایک مربع انچ کے ٹکڑے پر تقریباً ایک کروڑ نوے لاکھ خلیے، پسینہ چھوڑنے والے چھ سو پچاس غدود، پینسٹھ بال، خون کی انیس فٹ لمبی نالیاں، انیس ہزار حساس خلیے اور دو کروڑ خورد بینی جراثیم موجود ہوتے ہیں۔
انسان کی جلد کے ہر حصے حتی کہ چہرے پر بھی انتہائی باریک مخصوص ذرات پائے جاتے ہیں۔ انہیں پانی یا کسی اور محلول کے ذریعے صاف نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہی ذرات ہمارے اعضا کی صفائی اور دھلائی کا کام کرتے ہیں۔
انسانی جلد کی خون کی نالیاں بہت نازک ہوتی ہیں، اسی لیے ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے تو وہ سکڑ جاتی ہیں۔ آپ خود تجربہ کرکے یہ تعجب انگیز منظر دیکھ سکتے ہیں۔ لکڑی کا ایک پھٹّا لے کر اس کا نوکیلا سرا اپنے بازو پر پھیرئیے، بازو پر ایک سفید لکیر ابھر آئے گی۔ یہ خون کے اچانک جم جانے سے پیدا ہوتی ہے۔ (اسی لیے جلد کا کوئی حصہ کٹ جاتا ہے تو ہاتھ کے دباؤ کے ذریعے خون کے بہاؤ کو کم کیا جاتا ہے) جونہی پھٹا ہٹایا جاتا ہے چند سیکنڈ بعد خون کی نالیاں دوبارہ خون سے بھر جاتی ہیں اور سفید لکیر لال لکیر میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ انسان کا جسم جلد کے مردہ خلیوں کو مسلسل خارج کرتا اور ان کی جگہ نت نئے خلیے بھرتا رہتا ہے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ اس وقت آپ کے گھر میں جو گردوغبار اڑ رہا ہے وہ پچھتر فیصد ان ہی مردہ خلیوں پر مشتمل ہے۔
معدہ … ایک فطری مشین
انسان کے معدے میں ایک ایسا تیزاب پایا جاتا ہے جو ہر چیز کو گلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ تیزاب بلیڈ تک کو پانی بناسکتا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ معدہ بدہضمی سے بچنے کے لیے بہت تیزی سے نت نئے طریقے اختیار کرتا ہے۔
مندرجہ بالا حقائق سے ظاہر ہے کہ انسانی جسم ایک غیر معمولی طور پر کام کرنے والی شاندار مشین ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم ایک گھنٹے تک دس میل فی گھنٹے کی رفتار سے مسلسل سائیکل چلائیں تو ہمارا جسم تین سو پچاس حرارے خارج کرتا ہے۔ یہ توانائی پیٹرول کے تین چمچ کے برابر ہے۔
کان… آواز کا مسکن
انسانی کان بیس ہزار ہرٹز یا اس سے زیادہ تعداد (فریکوئنسی) کی آواز (یعنی جو بانسری کی تیز آواز جتنی ہوتی ہے) سے لے کر بیس ہرٹز تک کی آواز(سارنگی کی ہلکی آواز جتنی) سن سکتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہم سر اور گردن کی شریانوں میں بہنے والے خون کی آواز بھی سن سکتے ہیں، لیکن سن نہیں پاتے۔ ڈاکٹر اب تک اس بھید کی وجہ تلاش نہیں کرسکے۔ جب ہم بولتے ہیں تو بولنے کی آواز ہڈیوں کے ذریعے ہمارے کانوں تک پہنچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عموماً آواز کی ہیئت میں معمولی تبدیلی آجاتی ہے اور اکثر لوگ اپنی ریکارڈ کی ہوئی آوازیں پہچان نہیں پاتے۔
سائنسی تحقیق کے مطابق آواز ایک کان میں دوسرے کان کی بہ نسبت ایک سیکنڈ پہلے پہنچتی ہے، اس فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے دماغ وہ جگہ درست طور پر پہچان لیتا ہے، جہاں سے آواز آتی ہے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ بایاں انسانی کان آوازوں کو بہتر انداز اور متفرق صورتوں میں پہچان لیتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ موسیقی کے دلدادہ لوگ دائیں کان سے زیادہ اچھی طرح سنتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اب تک کوئی معقول وجہ سامنے نہیں آئی۔ انسان کا جسم ایک حیرت انگیز نظام ہے جو بیک وقت مختلف کام کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ یہ عبادت خانہ بھی ہے اور گودام بھی، عطار خانہ بھی ہے اور بجلی گھر بھی۔ مختصر یہ کہ انسانی وجود اور اس کی کارگزاریاں قدرت کا محیر العقول کارنامہ ہیں۔ یہ جو کچھ عرض کیا گیا۔ سائنسدانوں کی تحقیق کی روشنی میں انسان کی جسمانی ساخت کی نقش آرائیاں ہیں۔ رہا انسان کا ذہنی عمل اور اس کے کارنامے تو اسے کماحقہٗ کون بیان کرسکتا ہے۔ بس یہی سمجھ لیجیے ؎
انساں جسے کہتے ہیں محشر ہے خیالوں کا!